8 فروری 2024ء گزر گیا مگر اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا مثلاً
۔۔۔ کیا یہ الیکشن شفاف تھے؟
۔۔۔ ایمانداری، بے داغ کردار اور خدمتِ خلق کا استعارہ جماعت اسلامی، جس کے جلسوں کا حجم کسی طرح بھی دوسری پارٹیوں سے کم نہیں تھا، مرکز میں کوئی سیٹ نہ حاصل کر پائی۔
صوبائی اسمبلیوں میں بھی قابلِ ذکر نمائندگی نہ ملی ۔۔۔ کیوں ؟؟؟
۔۔۔ کیا یہ الیکشن بھی باقی تمام انتخابات کی طرح محض چہرے بدلنے کے لیے تھے یا نظام بدلنے کی بھی کسی نے بات کی؟؟
۔۔۔ سپریم کورٹ سے ’صادق و امین” کی سند لینے والا، انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندروں سے خطاب کرنے والا، ان کے اندر شعور بیدار کرنے والا اور سرویز کے مطابق پاکستان میں مقبول لیڈرز میں تیسرے نمبر پر آنے والا سراج الحق اپنے حلقے سے ہار گیا اور ملک بشیر خان (پی ٹی آئی) جس کا نام تک ہم نہیں جانتے جیت گیا۔ کیسے ؟؟؟
۔۔۔ کراچی سونے کی چڑیا پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی وہاں جماعتِ اسلامی کے کردار، خدمت اور حافظ نعیم الرحمن کی مقبولیت سے کوئی عقل کا اندھا انکاری ہے، تو ہم اس بے چارے کے لیے دعا تو بعد میں کریں گے پہلے یہ سوال اٹھائیں گے کہ حافظ نعیم الرحمن پہ جان چھڑکنے والے لاکھوں باشندوں کے ووٹ کدھر گئے آخر ؟؟
قارئین! سوالات تو اور بھی ہیں مگر ہم آپ کو ذہنی تھکن نہیں دینا چاہتے۔۔۔ لیول پلئینگ فیلڈ کی عطا و بخشش جیسے ہوئی، کیسے ہوئی۔ اور اسٹیبلشمنٹ نے جیسے اب کی بار بھی علی الاعلان انتخابات کا پورا کھیل اپنے ہاتھ میں رکھا، اور انتہائی متنازعہ نتائج قوم پہ مسلط کیے جا رہے ہیں۔ ہم کس سے جا کر پوچھیں کہ آر اوز کے دفاتر میں خلائی مخلوق کے لوگ ساری رات بیٹھ کے کیا کرتے رہے؟؟ اس سارے کھیل میں ایک ادارہ جسے ہم ’بےچارہ و بےبس‘ کہنے پہ مجبور ہوئے وہ ہے الیکشن کمیشن۔ ہم اس ادارے کے اندر بیٹھے ذمہ داران سے یہی عرض کریں گے کہ جس عہدے پر آپ کا حق پر قائم رہنا مشکل بنا دیا جائے اس عہدے کو لات مار دینی چاہیے۔
اور اسٹیبلشمنٹ کی خدمت میں عرض کرنا ہے کہ سوشل میڈیا پر عوام کا ردعمل دیکھیے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ بہت مایوس ہوئے ہیں۔ جب اتنے بڑے پیمانے پر نا انصافی، دھونس، دھاندلی ہو تو یہی کچھ ہوگا نا۔۔ ہم اپنی جگہ شرم کے مارے پانی پانی ہوتے ہیں، جب سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پوسٹس اور کلپس دیکھتے ہیں۔ ساکھ اچھی خاصی خراب ہوئی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن کس کس کی بے حسی پر روئیں ہم۔۔۔
نوجوانوں کا بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر چلے جانا، غریبوں کا خودکشیاں کرنا، بجلی کے بلوں کا بم بن کر مزدور طبقے پر گرنا، مہنگائی کے جنّ کا ڈیل ڈول بڑھتے جانا، ٹرانس جینڈر جیسی لعنت کا پاکستانی معاشرے میں نفوذ اور تینوں بڑی پارٹیوں کا اس کی مکمل حمایت کرنا۔ ہم یہ سارے زخم خاموشی سے سہہ رہے تھے۔ ایک امید کی شمع روشن تھی کہ اب کے عوام چہرے نہیں نظام بدلنے پہ آمادہ نظر آرہے تھے، مگر انتخابات کے ہینڈلرز نے بتا دیا کہ عوام بھیڑ بکری ہیں اور بس۔۔۔
اپنے سوہنے کراچی کہ جو پیارے وطن کی ریڑھ کی ہڈی ہے، کے لیے جھولیاں بھر بھر کے دعا کی تھی۔ کیا خبر تھی اسے ایک بار پھر سفاکوں اور بھتہ خوروں کے حوالے کرنے کی تیاری کی جا چکی تھی۔ حامد میر کی ٹویٹ کا حرف حرف مبنی بر صداقت ہے …
"کراچی سونے کی چڑیا ہے یہاں بندر گاہ ہے، پانی کو پٹرول کی طرح بیچنے والا ٹینکر مافیا ہے، بہتوں کے نیٹ ورکس ہیں، منشیات کے کاروبار ہیں، کروڑوں کے روپے رشوت کھانے والا الیکٹرک ہے، سرکاری زمینیں ،املاک اور پلاٹ ہیں، سب مل بانٹ کر کھا رہے ہیں، کراچی کو حافظ نعیم کے حوالے کیسے کریں، سب ختم ہو جائے گا…”
قارئین! ہم اپنے کمرے میں یہ تحریر لکھنے میں محو تھے کہ فروری کی روشن سہ پہر کی ہوا کے ایک سرکش جھونکے نے کھڑکی کا پردہ سرکا دیا، اور ہم نے قلم رکھ دیا، توجہ ساری باہر کے منظر پہ مرکوز ہوگئی ۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے موضوع گفتگو یہی انتخابات ہی تھے۔ ایک صاحب بولے کہ کس قدر ظالم ہیں انتخابات کا کھیل تیار کرنے والے کہ قومی اسمبلی میں ایک نشست بھی جماعتِ اسلامی کی گوارا نہیں ہوئی۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اب قومی اسمبلی میں کوئی نہیں ہوگا جو
۔۔۔ غلط پالیسیز پہ مدلل بات کرے ۔۔
۔۔۔۔ سود کی لعنت کو ختم کرنے کی بات کرے ۔۔
۔۔۔ ٹرانس جینڈر کے شیطانی کھیل کے تارو پود بکھیرے۔۔۔
۔۔۔ فلسطین اور کشمیر پہ پاکستان کی درست پالیسی کی نشاندہی کرے۔۔۔”
ایک اور صاحب بولے.. ’مربوط منصوبہ بندی اور گڈ گورننس سے محروم ممالک زمینی و سماوی آفات کی زد میں رہتے ہیں۔ سیلاب، زلزلہ، وبا، قحط سالی وغیرہ کی صورت میں کیا مسلم لیگ اور پی پی پی اور پی ٹی آئی ہمارے کام آئے گی؟؟؟”
سب بہ آواز بلند بولے کہ انھیں پہلے کب ہماری فکر ہے ؟؟۔۔۔”
ایک نوجوان اٹھا اور جوشیلے انداز میں بولا "صاحبو! الخدمت فاؤنڈیشن اور آغوش کے ادارے فعال ہیں ہمہ دم ۔۔۔ اور "بنو قابل” پروگرام بھی جاری رہے گا۔ جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پہ یہ لوگ ڈاکہ ڈال سکتے ہیں۔ مگر خدمت کا جذبہ کوئی طاقت چوری نہیں کر سکتی ہے ۔۔ آؤ! ہم اس کھلی دھاندلی پہ آواز اٹھائیں۔ آؤ اس خوفناک ڈاکہ زنی کی سازش کے ایک ایک کردار کو بے نقاب کریں۔ شہر شہر گاؤں گاؤں پورے ملک میں ہم احتجاج کریں گے۔۔۔ ساتھ ساتھ دعوت ، تربیت ، خدمت ٫ کفالت اور تعلیم و تدریس کے سلسلے پھر سے جاری و ساری کریں گے۔۔۔”
لوگ ہاتھ ہلا ہلا کر اس کی تائید کرنے لگے۔۔۔
ایک اور نوجوان اٹھا اور بولا ’ساتھیو! آؤ اس گھسے پِٹے نظام کے سبھی سہولت کاروں کو آج بتا دیں ہم کہ ۔۔۔
جسے تم ووٹ کہتے ہو نظامِ زر کی بستی میں
یہ رسمِ تاج پوشی ہے وڈیروں اور لٹیروں کی
راقمہ نے پردہ برابر کر دیا اور مختارِکل ربِّ رحمان کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے "الہی! ہم لاکھ کمزور سہی، پر تجھے تیرے کرم کا واسطہ ان جذبوں کی لاج رکھ لے، ظلم و ناانصافی کے اس نظام سے اب ہمیں چھٹکارا دلا دے۔
7 پر “جسے تم ووٹ کہتے ہو” جوابات
بہت عمدہ ۔۔۔ دل کے نہاں خانوں سے نکلی اواز۔۔۔اللہ کے حضور دعا اور دوا ہی کی جاسکتی ہے ۔۔
بے حد نوازش
نوازش
ماشاءاللہ اچھی تحریر ہے ۔
بہت شکریہ۔
امید ہے آئیندہ بھی پڑھتے رہیں گے بلکہ آگے وائرل بھی کرینگے
شکریہ
امید ہے آئیندہ بھی پڑھتے رہینگے
نوازش