واشنگٹن کو اب ایک مخمصہ درپیش ہے۔ صدر جو بائیڈن نے اردن میں امریکی فوجی اڈے پر اتوار کے مہلک حملے پر سخت ردعمل کا وعدہ تو کیا ہے لیکن امریکا کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ جنگ کی روک تھام اور اس میں اضافے کے رجحان کے درمیان صحیح توازن تلاش کرے۔
بی بی سی سی کے سیکیورٹی میں ماہر نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق فیصلہ کن عمل میں ناکامی کی صورت میں جو پیغام جاتا ہے اس میں کمزوری کے پیغام کی وصولی کا خطرہ ہوتا ہے، جو صرف مزید حملوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا باعث بنے گا، اور اگر بہت شدو مد کے ساتھ جواب دیا جائے تو یہ ایران اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ایک تیز ردعمل کو متحرک کر سکتا ہے۔
امریکا کے پاس اختیارات کیا ہیں؟
امریکا کے پاس پہلے سے ہی بہت سے ’آن دی شیلف‘ فوجی اختیارات ہوں گے جن میں سے کسی کا بھی انتخاب کیا جاسکتا ہے، یہ امریکی محکمہ دفاع نے سی آئی اے اور نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے انٹیلی جنس مواد کی بنیاد پر تیار کیے ہیں، اس کے بعد انہیں امریکی قومی سلامتی کونسل اور پالیسی سازوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جس میں صدر حتمی فیصلہ کرتے ہیں اور منتخب کردہ کورس آف ایکشن پر دستخط کرتے ہیں۔
آپشن 1: ایران کے اتحادی اڈوں اور کمانڈروں پر حملہ
یہ سب سے واضح انتخاب ہے جو ماضی میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
عراق اور شام میں بڑی تعداد میں اڈے، ہتھیاروں کے ذخیرے اور تربیتی مراکز موجود ہیں جن کا تعلق ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا سے ہے۔ یہ ملیشیا ایران کی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے ذریعے تربیت یافتہ، اسلحہ سے لیس اور مالی امداد سے بہرہ مند رہی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ یہ سب مکمل طور پر ایران کے زیر اثر ہوں۔
امریکا جانتا ہے کہ وہ کون اور کہاں ہیں، یہ آسانی سے ان اڈوں پر زیادہ درست طریقے سے گائیڈڈ میزائل حملے کر سکتا ہے، لیکن یہ اب تک ملیشیا کو روکنے میں ناکام رہا ہے، جنہوں نے 7 اکتوبر سے خطے میں امریکی اڈوں پر 170 سے زیادہ حملے کیے ہیں۔
اردن میں امریکی اڈے پر اس حالیہ حملے کی ذمہ داری خود کو عراق میں اسلامی مزاحمت کہنے والے ایک گروپ نے قبول کی ہے، جو ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ایک چھتری کے مترادف اصطلاح ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اس سے قبل خطے میں اپنے مشترکہ دشمن یعنی داعش کے خلاف امریکا کی طرح لڑ چکے ہیں، تاہم اب وہ ایران کے ساتھ اپنے مشترکہ مقاصد رکھتے ہیں، یعنی عراق اور شام سے امریکی فوج کو بھگانا اور امریکا کو اسرائیل کی فوجی حمایت پر سزا دینا۔
آپشن 2: ایران پر حملہ
یہ ایک بڑے پیمانے پر جنگ میں اضافہ ہوگا اور ایسا کچھ نہیں جسے امریکہ ہلکا سمجھے گا، یہ انتہائی ناممکنات میں سے ہے، اگرچہ ناقابل فہم نہیں ہے کہ امریکی جوابی کارروائی میں ایرانی خودمختار سرزمین پر اہداف کو نشانہ بنانا شامل ہوگا۔
نہ واشنگٹن اور نہ ہی تہران ایک مکمل جنگ میں پڑنا چاہتے ہیں اور دونوں نے ایسا ہی کہا ہے۔ ایرانی ردعمل میں اقتصادی طور پر اہم آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کوشش بھی شامل ہو سکتی ہے، جس کے ذریعے دنیا کا 20 فیصد تیل اور گیس کا بہاؤ ہوتا ہے۔ اس کا عالمی معیشتوں پر تباہ کن اثر پڑے گا، قیمتیں بڑھیں گی اور نومبر میں صدر جو بائیڈن کے دوبارہ انتخاب کے امکانات کو یقیناً نقصان پہنچے گا۔
ایک متبادل یہ ہے کہ عراق یا شام میں سپاہ پاسدارانِ انقلاب کے سینئر کمانڈروں کا پیچھا کیا جائے، جس کی ایک سب سے قابل ذکر نظیر موجود ہے۔ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈرون حملے کا حکم دیا تھا، جس میں 2020 میں سپاہ پاسدارانِ انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو بغداد میں ہلاک کر دیا گیا تھا، لیکن اس نوعیت کا امریکی ردعمل اچھی طرح سے تہران کی طرف سے ایک مزید خطرناک ردعمل کو متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
آپشن 3: جواب نہ دیں
امریکی اسٹیبلشمنٹ میں شامل بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں موجودہ کشیدگی کے پیش نظر واشنگٹن کے لیے، خاص طور پر انتخابی سال میں، ایرانی مفادات کو نشانہ بنانا غیر ذمہ دارانہ تصور کیا جائے گا۔
سینٹ کام، امریکی محکمہ دفاع کا وہ حصہ جو مشرق وسطیٰ کا احاطہ کرتا ہے، بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں بحری جہاز رانی پر حوثیوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے، یہ خطے کے ارد گرد امریکی اتحادیوں کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے وسیع تنازعے کو جنم نہ دینے کی گزارشات پر بھی غور کرے گا۔
لیکن یہ منظر ان لوگوں کی جانب سے مسترد ہوجائے گا، جو کہتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے جنگ کی روک تھام کی پالیسی آج تک ناکام ہی رہی ہے، اور یہ کہ واشنگٹن کی جانب سے امریکی اڈوں پر حملہ کرنے والوں کو سخت جواب دینے میں ہچکچاہٹ نے ہی دشمنوں کو اپنے حملوں کو تیز کرنے پر اکسایا ہے۔
ان سب میں ایک وقت کا عنصر ہے، بعض لوگ یہ بحث کریں گے کہ امریکی فوجی ردعمل میں بنیاد پرست اضافہ طویل مدت میں ضروری یا قابل قدر نہیں ہو سکتا۔
سب سے پہلے، ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے حملے غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ سے پہلے کے ہیں لیکن ان میں 7 اکتوبر سے ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ایک بار جب غزہ پر اسرائیل کا حملہ ختم ہو جاتا ہے تو خطے میں کشیدگی اچھی طرح کم ہو سکتی ہے، حالانکہ اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ یہ ابھی مہینوں دور ہو سکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ واشنگٹن میں کچھ لوگوں کی طرف سے امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی قدموں کو کم کرنے کے لیے زور شور سے پکارا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ، جب وہ اپنے عہدے پر تھے، کے فوجی اور انٹیلی جنس سربراہوں کو اس بات پر قائل کرنا پڑا کہ وہ شام سے تمام امریکی افواج کو نہ نکالیں، جہاں وہ کرد فورسز کو داعش کی واپسی سے روکنے میں مدد کر رہے تھے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر ٹرمپ ایک سال کے عرصے میں وائٹ ہاؤس واپس آجائیں تو ایران کسی بھی طرح اپنا راستہ حاصل کر لے گا، اگر وہ عراق اور شام میں امریکی موجودگی کو کم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔