فضائی حادثے کےدوران اگست 1988 میں ضیاء الحق کے جاں بحق ہونے کے بعد بے نظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت تھا،ملک میں طویل عرصے بعد جمہوریت آئی تھی، مسند اقتدار پر بھٹو کی وارث بے نظیر بھٹو براجمان تھیں۔
یہ ان کے اقتدار کا پہلا تجربہ تھا اس لیے وہ پھونک پھونک کرقدم رکھ رہی تھیں ،چیلنجز بہت تھے اور وسائل محدود۔ قیام پاکستان سے ہی ملکی معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ سے اثر رہا ہے لیکن ضیاء صاحب کے طویل اقتدار کی وجہ سے ان دنوں اسٹیبلشمنٹ کا اثر بہت زیادہ تھا ۔
بے نظیر تنے ہوئے رسے پر چل رہی تھیں۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ وہ الجھے بنا آگے بڑھتی رہیں۔ بدقسمتی سے یہ کوشش زیادہ کامیاب نہیں ہوئی اور وہ آئین میں دی گئی مدت پوری نہ کرسکیں۔
خیر ان ہی دنوں بے نظیر بھٹو کو انٹیلی جنس اداروں نے ایک برادر پڑوسی ملک کی پاکستان میں حد سے بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کیا ، رپورٹ تشویشناک تھی۔ برادر پڑوسی ملکوں میں سے ایک کی ہمدردی پہلے ہی پاکستان کے گلے پڑے ہوئی تھی۔ ملکی معیشت پر لاکھوں مہاجرین کا بوجھ تو تھا ہی ہیروئن اور کلاشن کوف بھی معاشرے میں متعارف ہو چکے تھے، اس سے پہلے لوگ صرف فلمی اداکارہ شبنم اور انجمن کو ہی ہیروئین سمجھتے تھے لیکن کچرہ کنڈیوں میں اور نالوں کے آس پاس آڑے ترچھے پڑے ہوئے نشے میں دھت نوجوان ایک نئی تباہی کے آثار بتا رہے تھے پھر مسلکی اختلافات کی بوتل کا ڈھکن بھی کھول دیا گیا۔
ایسے میں ایک پڑوسی ملک کی جانب سے خاص فکر کے مسلح نوجوانوں کو مجتمع کرنا بڑی تشویش ناک خبر تھی۔ بے نظیر بھٹو نے بہت سوچ سمجھ کر ایک سفارت کار کا انتخاب کیا جو اس پڑوسی ملک کی ‘‘گڈبک’’ میں بھی تھے۔
وہ یہ شکوہ لے کر اس ملک کے سفیر کے پاس پہنچے اور سفارتی آداب ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بے نظیر بھٹو کا پیغام بھی سامنے رکھ دیا ، پیام سننے کے بعد اس برادر اسلامی ملک کے سفیر نے سخت الفاظ میں کہا
‘‘ آپ ہمارے برادرملک ہیں اسی کا پاس ہے ورنہ ہماری ایک کال پر پچھتر ہزار مسلح نوجوان سڑکوں پر نکل آئیں لیکن ہم پاکستان کو غیر مستحکم کرنا نہیں چاہتے ’’۔
یہ کھلی دھمکی تھی جس کے بعد خیبر پختونخوا میں افغان سرحد سے منسلک علاقے میں بڑ ے پیمانے پر آپریشن کیا گیا جہاں سے بہت بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد ہوا، سرنگوں کا پتہ لگایا گیا، گرفتاریاں ہوئیں اور جانی نقصان بھی ہوا لیکن اس وقت اس خطرے کا سر دبا دیا گیا لیکن کچلا نہ جاسکا ۔
وطن عزیز میں مفادات کے یہ سانپ کل بھی تھے اور آج بھی کہیں نہ کہیں رینگ رہے ہیں۔ کہیں یہ ہماری آستینوں میں پل رہے ہیں اور کہیں زمین میں بل بنا کر رہ رہے ہیں۔
قدرت نے پاکستان کو جغرافیائی طور پرایسا محل وقوع دیا ہے کہ دنیا اسے نظرانداز کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتی۔ بارہ ماہ، چوبیس گھنٹے جہازوں کے لیے آپریشنل رہنے والی گوادر کی بندرگاہ ایران اور عرب امارات کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اس کی رونقیں پڑوس میں کئی بندرگاہوں کی رونقیں ماند کرسکتی ہیں اوریہاں سے جانے والی سی پیک کی سیاہ تارکولی سڑک عالمی قوتوں سمیت ہمارے پڑوسیوں کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہے۔ گوادر کا ویران ہونا اور رہنا بہت سی قوتوں کے مفاد میں ہے ۔
بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال بہت سی قوتوں کی شب و روز محنتوں اور سازشوں کا نتیجہ ہے ۔
ایران کی جانب سے پنجگورمیں اسٹرائیک سے پہلے دونوں برادر ملکوں کے درمیان بہت سی تلخیوں پر چادرپڑی ہوئی تھی، بھارتی جاسوس کل بھوشن نے ایرانی سرحدی علاقے چاہ بہار ہی میں اپنا ٹھکانہ بنا رکھا تھا جہاں سے وہ پورے بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلاتا تھا۔
کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد پاکستان نے ایران سے سخت احتجاج کیا تھا کہ ہم دنیا میں آپ کے لیے سفارت کاری کرتے ہیں، آپ کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں، الزام سہتے ہیں، دنیا کی باتیں سنتے ہیں کہ یہ ایران کے جوہری پروگرام کا معاون اور مددگار ہے اور آپ ہماری ہی کمر میں چھرا گھونپ رہے ہیں ؟
پاکستان نے ایران سخت احتجاج کیا، اپنے تحفظات سے آگاہ کیا لیکن دنیا کے سامنے ان تعلقات کی پردہ پوشی رکھی ۔
حیرت انگیز طور پر ایران نے لحاظ ، مروت ، پاس نہ رکھا ، بہت سارے چینلز کے ہوتے ہوئے بھی وہ کیا جس کی توقع تھی نہ ضرورت ،پھر ایرانی میزائل حملے کی ٹائمنگ بہت معنی خیز تھی۔
اس سے پہلے بھارتی وزیر خارجہ کی تہران آمد نے بہت سے سوالات کو نیون سائن بنا دیا۔ بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ ایران کے اگلے ہی دن ایران کا پنج گور میں حملہ کرنا اور یہ کہنا کہ پاکستان ہمارا پڑوسی برادر ملک ہے، اس کی خودمختاری کا احترام ہے لیکن ایران کی قومی سلامتی مقدم ہے، زخم لگا کر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا ۔
جواب میں چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ پاکستان نے سیستان میں حساب برابر کرکے دفتر خارجہ کی بلوچ ترجمان کو ایرانی وزیر خارجہ کے الفاظ کے ساتھ میڈیا کے سامنے کر دیا جو ایرانی وزیر خارجہ نے کہا تھا وہی پاکستان نے بھی دوہرا کر واضح کردیا کہ جس حق سے آپ نے کارروائی کی وہی حق ہم نے بھی استعمال کیا۔ مانا کہ معاشی مشکلات سمیت بہت سے چیلنجز ہیں لیکن پاکستان کسی مندر کا گھنٹا تو نہیں کہ آتے جاتے بجا دیا جائے۔
اطلاعات کے مطابق سیستان میں پاکستان نے اپنا ہدف سو فیصد حاصل کیا وہاں اموات کے بارے میں دواطلاعات ہیں ایک کے مطابق ۹ہلاک ہوئے اور دوسرے کے مطابق ۹ سے کئی گنا زیادہ اموات ہوئیں ۔
بنا کسی لحاظ ،مروت کے یہ سخت جواب ناگزیر تھا کہ بھارت میں چناؤ ہونے والے ہیں۔ مودی اینڈ کمپنی ایک بار پھر ہندو ووٹ بٹورنے کے لیے نوٹنکی کی تیاریاں کر رہی ہے، سو اسے بھی خبردار کرنا ضروری تھا۔ وہ کہتے ہیں ناں کہنابیٹی کو اور سنانا بہو کو تو اسلام آباد نے تہران ہی کو نہیں نئی دہلی کو بھی دوٹوک پیغام دے دیا کہ مہاشے جی ، خبردارایڈونچر بھاری پڑ ے گا!
مصنف: احسان کوہاٹی
ایک تبصرہ برائے “ ‘‘ضروری تھا۔۔۔!’’”
ضروری تھا۔۔۔۔۔ کالم پڑھ کے لگا۔۔۔ کہ ضروری نہیں بل کہ” بہت ضروری تھا۔”۔۔۔۔۔ بہت عمدہ ، مختصر اور جامع تحریر ۔۔۔