رائے عامہ کے جائزوں سے متعلق لوگوں کے خیالات ملے جلے ہوتے ہیں۔ ایک عام خیال ہے کہ عام انتخابات سے قبل شائع ہونے والے رائے عامہ کے جائزے مختلف سیاسی گروہوں کی طرف سے پراپیگنڈا ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے سیاسی گروہ ووٹروں کی پسند، ناپسند پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خیال غلط ہرگز نہیں ہے۔
برطانوی مصنف پیٹرجوناتھن ہیچنز اپنی کتاب ’ The Broken Compass‘ میں ان جائزوں کو ایک انتخابی ہتھیار قراردیتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں اور گروہ اپنی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لیے مختلف اداروں کو باقاعدہ رقوم ادا کرکے سروے پولز کراتے ہیں اور پھر ان کے نتائج کو میڈیا میں خوب مشتہر کرتے ہیں۔
تاہم مذکورہ بالا خیال ہمیشہ اور ہر جگہ درست بھی نہیں ہوتا۔ دنیا میں ایسے بہت سے ادارے موجود ہیں جو پوری سچائی، دیانت داری سے رائے عامہ کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کے نتائج مرتب کرتے ہیں۔ بعض حقیقت پسند سیاست دان پوری دیانت داری سے ایسے ہی معتبر اداروں کے ذریعے اپنی مقبولیت اور عدم مقبولیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی حکمت عملی نئے سرے سے ترتیب دیتے ہیں۔ اسے مزید بہتر بناتے ہیں اور اس میں سے نقائص کو خارج کرتے ہیں۔ ہاں! نرگیست کے مارے سیاست دانوں کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ اب کوئی دھوکے ہی میں خوش رہنا چاہے تو کوئی کیا کرسکتا ہے بھلا!
انتخابات سے قبل رائے عامہ کے جائزوں سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا لیکن یہ ہرگز پتہ نہیں چلتا کہ کون کتنے مارجن سے جیتے گا یا ہارے گا۔ اس کی بنیاد اس سوال کے جواب پر ہوتی ہے کہ کس پارٹی کے کتنے حامی ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن پر پہنچے اور کتنے گھر بیٹھے رہے۔
بعض لوگ بڑے تیقن سے کہتے ہیں کہ وہ ووٹ کاسٹ کریں گے لیکن عین یوم انتخاب پر وہ کسی بھی وجہ سے ووٹ کاسٹ نہیں کر پاتے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ یوم انتخاب سے ایک ماہ قبل ووٹر کی رائے کچھ ہوتی ہے لیکن پولنگ اسٹیشن پہنچنے تک اس میں کسی بھی وجہ سے تبدیلی رونما ہوجاتی ہے۔
’ گیلانی اینڈ گیلپ پاکستان‘ ایک معتبر ادارہ ہے جو معاشی اور معاشرتی سوالات لے کر پاکستانیوں کے اذہان و قلوب پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے اس نے چند ایک سوالات کے جوابات تلاش کیے۔ ان میں سے ایک تھا کہ پاکستان میں قومی سطح پر کس سیاسی رہنما کو کس قدر مقبولیت حاصل ہے؟
اس سوال پر گزشتہ آٹھ ماہ سے بار بار جائزہ لیا گیا اور پتہ چلا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ مقبولیت عمران خان کو حاصل ہے ۔ اگرچہ ان آٹھ مہینوں میں ان کی مقبولیت میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے، اس کے باوجود وہ سب سے آگے ہیں۔ جون 2023 میں انھیں 60 فیصد لوگ پسند کرتے تھے لیکن جنوری 2024 میں 57 فیصد۔
نواز شریف مقبولیت میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ جون 2023 میں انھیں 36 فیصد لوگ پسند کرتے تھے تاہم جنوری 2024 میں یہ شرح 52 فیصد تک بڑھ گئی۔
اب یہ سوال اہم ترین ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی ( اگرچہ تاحال معمولی سی ہے) کیوں آ رہی ہے؟ اور نواز شریف کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہوا؟
جون 2023 میں جب عمران خان کی مقبولیت 60 فیصد اور نواز شریف کی 36 فیصد تھی، تب میاں شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم حکومت قوم پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ رہی تھی۔ اس وقت عمران خان جیل میں قید نہیں ہوئے تھے۔ وہ بار بار قوم کو باور کروا رہے تھے کہ ان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں مہنگائی نے اس قدر چھلانگیں نہیں لگائی تھیں، پیٹرول کی قیمتوں میں اس قدر خطیر اضافے نہیں ہوئے تھے۔ شاید بدترین مہنگائی کی چکی میں پسنے والی قوم بھی کہیں نہ کہیں عمران خان کے دور کو شہباز شریف کے دور سے کم مہنگا سمجھنے لگی تھی۔
اس کے بعد نواز شریف لندن سے واپس پاکستان آئے۔ انھوں نے قوم کے سامنے غور و فکر کے لیے یہ سوال رکھا کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے پہلے مہنگائی کس قدر تھی اور عمران خان دور کے اختتام پر کیا صورت حال تھی؟ مسلم لیگ ن نے گرافس کے ذریعے دونوں ادوار حکومت میں مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا موازنہ قوم کے سامنے رکھا۔ نتیجتاً لوگ اس سے متاثر ہوئے۔ انھیں محسوس ہوا کہ واقعی ’عمران خان پراجیکٹ‘ نے ان کی زندگی کو مشکلات کا شکار کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی مقبولیت میں اچانک اضافہ ہوا، اور غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ وہ 36 فیصد سے بڑھ کر 52 فیصد تک پہنچ گئی۔
بہ الفاظ دیگر گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران، عمران خان کی مقبولیت میں 3 فیصد کمی جبکہ نواز شریف کی مقبولیت میں 16 فیصد اضافہ ہوا۔
اب 8 فروری ، یوم انتخاب تک کس کی مقبولیت کا کیا عالم ہوگا، یہ اہم ترین سوال ہے اور اسی پر دونوں رہنماؤں کی سیاسی زندگی کا دارومدار ہے۔
نواز شریف اپنے اسی بیانیے کو آگے بڑھاتے ہیں، قوم کو یقین دلانے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر آسانیوں کا دور واپس لائیں گے، لوگوں کی مہنگائی سے جان چھڑائیں گے، تب وہ مقبولیت میں عمران خان کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ انھیں کم از کم 2018 سے پہلے والی زندگی نصیب ہو جائے۔
دوسری طرف عمران خان مزید نرگسیت کے شکار رہے تو وہ اپنی مقبولیت کا موجود مقام برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ پھر سابق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی یہ بات سچ ثابت ہوجائے گی کہ عمران خان کی مقبولیت کا کوئی سیلاب تھا تو وہ اتر رہا ہے۔
شاید عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ اب بھی 2018 جتنے ہی مقبول ہیں۔ حالانکہ انھیں سمجھنا چاہیے کہ 2018 والی مقبولیت میں ان کا اپنا کوئی کمال نہیں تھا اور 2021 کے بعد والی مقبولیت میں بھی ان کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ 2018 والی مقبولیت ‘کسی’ کی شبانہ روز محنتوں کا نتیجہ تھی اور 2021 کے بعد جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ پی ڈی ایم اور اس کے بعد نگراں حکومت کی پالیسیوں کے خلاف عوامی ردعمل ہے۔ وہ اس حقیقت کو جس قدر جلد تسلیم کرلیں، ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اور پھر انھیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنا ہوگی۔
بادبان، عبید اللہ عابد
ایک تبصرہ برائے “نواز شریف اور عمران خان کی گھٹتی بڑھتی مقبولیت ، معاملہ کیا ہے؟”
گھٹتی بڑھتی مقبولیت ۔۔۔۔کا صحیح اندازہ تو مزید کچھ دن میں ہو جائے گا ۔۔۔۔۔ لیکن یہ پورا سچ ہے کہ 2018 اور 2021 کی مقبولیت میں عمران خان کا کوئی کردار نہیں ۔۔۔۔۔۔۔