کینیڈا-کی-امیگریشن-افسر-پاسپورٹ-دکھا-رہی-ہے

2024: کینیڈا کی نئی اسٹوڈنٹ ویزا پالیسی کیا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فرقان ان سینکڑوں پاکستانی طلبا میں سے ایک ہیں جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے کینیڈا کا رُخ کیا۔ جب سنہ 2023 میں وہ کینیڈا پہنچے تو وہاں موجود دیگر ہزاروں غیر ملکی طلبا کی طرح انھیں بھی جو سب سے بڑا مسئلہ پیش آیا وہ رہائش کا تھا۔

فرقان بتاتے ہیں کہ ’یہاں آتے ہی مجھے جو سب سے بڑا چیلنج پیش آیا وہ یہ تھا کہ مجھے رہنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔‘

مجبوراً فرقان کو ایئر بی این بی (Airbnb) کا استعمال کرنا پڑا جہاں ان کو یومیہ 80 سے 100 کینیڈین ڈالرز کرایہ ادا کرنا پڑتا جس کے باعث اُن کے پاس موجود رقم تیزی سے ختم ہونے لگی۔

بالآخر انھیں مقامی مسجد کی شکل میں ایک امید کی کرن نظر آئی۔

فرقان کہتے ہیں کہ وہ مسجد میں گئے اور وہاں لوگوں کے ساتھ نیٹ ورکنگ کی۔ ’پھر انھوں نے مجھے اپنے ریفرنس کے ذریعے ایک پاکستانی کے گھر میں کمرہ کرائے پر دلوا دیا۔‘

فرقان اکیلے نہیں، کینیڈا میں ان جیسے ہزاروں غیر ملکی طلبا ہیں جو رہائش کی وجہ سے پریشان ہیں۔ رہائش کی کمی اور بڑھتے ہوئے کرایوں کو جواز بنا کر ہی کینیڈا کی حکومت نے اس سال غیر ملکی طلبا کو جاری ہونے والے ویزوں کی تعداد میں کمی کرنے کا اعلان کیا ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز پر پیر کے روز کینیڈا کی وزارت برائے امیگریشن، مہاجرین اور شہریت نےاعلان کیا ہے کہ اس سال (سنہ 2024) تقریباً 3 لاکھ 60 ہزار غیر ملکی طلبا کو سٹوڈنٹ ویزے جاری کیے جائیں گے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ویزوں کی یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں 35 فیصد کم ہے۔

کینیڈین حکومت کا کہنا ہے کہ آبادی کے تناسب سے تمام صوبوں، ریاستوں اور علاقوں کے لیے سٹڈی پرمٹس کی حد مقرر کر دی گئی ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ان صوبوں میں سٹوڈنٹس کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی جائے گی جہاں بین الاقوامی طلبا کی تعداد حد سے بڑھ گئی تھی۔

اجازت نامے کے مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تقسیم کے لیے حکومت نے صوبائی اور ریاستی حکام کو ایک واضح طریقہ کار بنانے کی ہدایت کی ہے۔

کینیڈا کی حکومت کے مطابق یہ عارضی اقدامات 2 سال کے لیے ہوں گے اور سنہ 2025 کے سٹڈی پرمٹس کے اجرا سے پہلے اس پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

پالیسی کے مطابق یکم ستمبر 2024 سے ایسے تمام بین الاقوامی طلبا جو کریکلم لائسنسنگ پروگرام کے تحت تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ گریجویشن کے بعد پوسٹ گریجویشن ورک پرمٹ کے اہل نہیں ہوں گے۔ کریکلم لائسنسنگ پروگرام کے تحت پرائیویٹ کالجز کو متعلقہ سرکاری کالج کے نصاب کی فراہمی کی اجازت ہوتی ہے۔

حکام کہتے ہیں کہ سرکاری کالجوں کے نسبت ان کالجزکی نگرانی کہیں کم ہے، اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ پوسٹ گریجویشن ورک پرمٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نئی پالیسی کے مطابق، ماسٹرز اور دیگر مختصر گریجویٹ سطح کے پروگراموں کے گریجویٹ جلد ہی 3 سالہ ورک پرمٹ کے لیے درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ موجودہ پالیسی کے تحت، پوسٹ گریجویشن ورک پرمٹ کے دورانیے کا انحصار سٹوڈنٹ کے مطالعاتی پروگرام کی مدت پر ہوتا تھا۔ اس سے ماسٹرز گریجویٹس کو کام کا تجربہ حاصل کرنے اور ممکنہ طور پر کینیڈا میں مستقل رہائش اختیار کرنے میں مشکلات پیش آتی تھیں۔

آنے والے ہفتوں میں، اوپن ورک پرمٹ صرف ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ پروگراموں کے بین الاقوامی طلبا کے شریک حیات حاصل کر سکیں گے۔ جبکہ انڈرگریجویٹ اور کالج پروگراموں میں داخل بین الاقوامی طلبا کے شریک حیات اب اوپن ورک پرمٹ حاصل کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔

شاہ زیب رئیس کراچی میں کنسلٹنٹ فرم چلاتے ہیں جو بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا کو کنسلٹنسی کی سہولت فراہم کرتی ہے۔

ان کے مطابق کینیڈا میں پاکستانی سٹوڈنٹس کے ویزا اپلیکیشن منظور ہونے کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہے، جو برطانیہ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سٹوڈنٹس بڑی تعداد میں کینیڈا کا رُخ کرتے ہیں۔

شاہ زیب فرقان کی بات سے متفق ہیں کہ کینیڈا جانے والے پاکستانی طالبعلموں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا ہے کیونکہ نہ صرف وہاں مناسب رہائش کا فقدان ہے بلکہ وہاں کرائے بھی بہت زیادہ ہیں۔

’وہاں پر تقریبا سہ ماہی بنیادوں پر کرایوں میں اضافہ ہوتا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ دوسرا مسئلہ جو وہاں مقیم طلبا کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ قانون کے خلاف، ایک ایک اپارٹمنٹ میں کئی کئی سٹوڈنٹس رہ رہے ہوتے ہیں اور اس کے باعث اکثر حکام کے چھاپے پڑتے ہیں۔

کینیڈا کے وزیر امیگریشن مارک ملرنے کا کہنا ہے کہ یہ حکومت ذمہ داری ہے کہ بین الاقوامی طلبا کی ان وسائل تک رسائی یقینی بنائی جائے جو انھیں ایک افزودہ تعلیمی تجربے کے لیے درکار ہیں۔

ملر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی طلبا کینیڈین معاشرے کی تقویت باعث ہیں مگر یہ پروگرام اتنا پر کشش ہو چکا ہے کہ اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اس لیے اس سلسلے میں کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نئی پالیسی کا مقصد ان اقدامات کا روک تھام اور کینیڈین امیگریشن سسٹم کی سالمیت کو یقینی بنانا ہے۔

( مصنف: اسماعیل شیخ، بشکریہ، بی بی سی)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں