پاکستان 2013 کے عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا تھا۔ عمران خان مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے متبادل کے طور پر ایوان اقتدار میں داخل ہونے کے لیے مچل رہے تھے کیونکہ انھیں یقین دہانی کرا دی گئی تھی۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں کا خیال تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے نالاں دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی اور بعض دیگر رہنما جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ ملانے کی تگ و دو میں تھے۔ زمان پاک سے وفود منصورہ جارہے تھے اور منصورہ سے وفود زمان پارک آ رہے تھے۔
ایسی ہی ایک ملاقات عمران خان اور سید منورحسن (اس وقت کے امیر جماعت اسلامی) کی زمان پارک میں ہوئی۔ ملاقات میں عمران خان نے سید منورحسن کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ان سے ہی اتحاد کریں گے اور سیٹوں کا بڑا پیکیج دیں گے لیکن وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہ کریں۔
ملاقات کے اختتام پر عمران خان اور جاوید ہاشمی سید منورحسن کو ان کی گاڑی تک الوداع کہنے آئے۔ جب وہ جا چکے تو عمران خان جاوید ہاشمی کا ہاتھ دباتے ہوئے کہنے لگے ’ دیکھو! کیسا چکر دیا ہے اس مولوی کو۔‘
یہ ’چکر‘ کیا تھا؟ جناب عمران خان نے جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ مذاکرات میں مصروف رکھا ہوا تھا، وہ مسلسل جماعت کو یقین دہانی کروا رہے تھے کہ اتحاد اس کے ساتھ ہی ہوگا۔ نتیجتاً جماعت اسلامی نے دوسری سیاسی جماعتوں کی پیشکشوں سے منہ موڑ لیا۔ مثلاً مسلم لیگ ن جماعت اسلامی کو نسبتاً بہتر پیشکش کر رہی تھی۔ تاہم عمران خان کی تمام تر یقین دہانیوں کے بعد جیسے ہی جماعت اسلامی نے مسلم لیگ ن کو انکار کیا، عمران خان نے جماعت اسلامی کو انکار کردیا۔
یہ تھا وہ ’چکر‘ جس پر عمران خان اترا رہے تھے۔ اس پر جاوید ہاشمی نے عمران خان سے کہا کہ آپ جسے صرف ایک ’مولوی‘ قرار دے رہے ہیں، وہ صرف ایک ’مولوی‘ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ چکربازی بہت مہنگی پڑے گی۔
عام انتخابات 2013 کے نتائج سامنے آئے تو عمران خان کو اسی ’مولوی‘(سید منورحسن) کی جماعت اسلامی کی ضرورت پڑ گئی۔ یوں صوبہ خیبر پختون خوا میں ان دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ عمران خان جماعت اسلامی کے وزرا کی بہت تعریفیں کیا کرتے تھے بالخصوص جناب سراج الحق کی جو سینئر وزیر اور وزیر خزانہ تھے۔ تاہم جوں جوں 2018 کے عام انتخابات قریب آئے، عمران خان نے جماعت اسلامی سے دوریاں بڑھانا شروع کردیں۔ اس سے پہلے وہ خیبر پختونخوا میں جناب آفتاب شیرپاؤ کی پارٹی سے بھی جان چھڑا چکے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ امپائر ان کے ساتھ کھڑا ہے، اس لیے انھیں کسی اتحادی کی ضرورت نہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ عمران خان اور ان کے بعض ساتھی جماعت اسلامی سے جان چھڑانے کے بعد گردن اکڑا کر برسرعام کہتے تھے کہ جماعت اسلامی پاکستانی سیاست سے غیر متعلق ہوچکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب تحریک انصاف مشکل میں ہوتی تھی تو کہتے، جماعت اسلامی پر لازم ہے کہ وہ ان کا ساتھ دے۔ اس طرزعمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2021 میں جب امپائر نے عمران خان کو آوٹ قرار دیا تو کوئی سیاسی جماعت ان کے ساتھ نہیں کھڑی تھی۔
انسان حالات سے سبق حاصل کرتا ہے لیکن جناب عمران خان اور ان کی تحریک انصاف میں اس کے جراثیم نہیں ہیں۔ ان کا اب تک یہی خیال ہے کہ وہ مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لیے اکیلے ہی کافی ہیں۔ نہ انھیں پہلے کسی اتحاد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت تھی، نہ اب ہے، نہ کبھی ہوگی۔ تاہم سیاست کے کھیل میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جب آپ کے مقابل درجن بھر جماعتیں متحد ہوں تو آپ کو بھی زیادہ سے زیادہ گروہوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
عمران خان کی خوش قسمتی کیا ہے اور بدقسمتی کیا؟
عمران خان سسرال میں وقت کیسے گزاریں؟
عمران خان 2018 سے پہلے بھی سمجھتے تھے کہ وہ ہر معاملے میں سب سے بہتر سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، وزیر اعظم بن کر بھی یہی سمجھتے رہے اور وزیراعظم ہاؤس سے نکالے جانے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہے۔ جیل میں قید ہوکر بھی ان کی اس سوچ میں کوئی فرق نہیں آیا۔
سن دو ہزار اٹھارہ میں ان کی سوچ کا نتیجہ یوں نکلا کہ وزیراعظم بننے کے لیے انھیں ایم کیو ایم کے سامنے بھی دست سوال دراز کرنا پڑا حالانکہ وہ اس کو دہشت گروہ قرار دیتے تھے۔ اس کے بعد چند ایک ووٹوں کی بنیاد پر عمران خان کی حکومت قائم ہوئی۔ چنانچہ اقتدار کے ساڑھے تین برسوں میں جناب عمران خان کو بجٹ پاس کروانے، کوئی قانون منظور کرانے کے لیے نادیدہ قوتوں سے کہنا پڑتا تھا کہ انھیں مطلوبہ تعداد اکٹھی کرکے کریں۔
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ ایجنسیاں دیگر جماعتوں سے ارکان اسمبلی ادھار لے کر عمران خان کو فراہم کیا کرتی تھیں۔ اس کے باوجود خان صاحب کو ساڑھے تین برسوں میں ایک بار بھی خیال نہیں آیا کہ وہ اُن گروہوں کو اپنے ساتھ کھڑا کریں جو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے نالاں ہیں۔ حتیٰ کہ ایوان وزیراعظم سے نکالے جانے کے بعد بھی عمران خان نے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی نہ کی۔
چوہدری پرویز الٰہی جیسے لوگوں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب لیڈر نرگسیت کا پہاڑ ہو کہ وہ جو کچھ سوچ سکتا ہے، کوئی دوسرا سوچ نہیں سکتا۔ ایسے میں کوئی اسے کتنا سمجھائے۔
چوہدری پرویز الٰہی کے مشورے مانے ہوتے تو آج کا سیاسی منظرنامہ بہت مختلف ہوتا۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد بھی تحریک انصاف قومی اسمبلی میں موجود ہوتی۔ پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں ان کی حکومتیں مدت پوری ہونے تک قائم رہتیں۔ نگراں حکومتیں ان کی مرضی کے بغیر نہ بنتیں۔ اس کے بعد عام انتخابات کے سارے کھیل میں تحریک انصاف ہرجگہ پوری قوت کے ساتھ موجود ہوتی۔ لیکن عمران خان کا خیال تھا کہ ان جیسا سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے والا کوئی دوسرا پیدا ہی نہیں ہوا اور نہ ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ وہ جب نو مئی کے روز ایک بڑا انقلاب بپا کرنے میں لگ گئے تھے، اس وقت بھی اپنے آپ کو سب سے کایاں سمجھتے تھے۔
اب جناب عمران خان اور ان کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ نو مئی کے واقعات دراصل ایک ٹریپ تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ٹریپ تھے تو آپ کو نو مئی کی صبح تک اس کی سمجھ کیوں نہیں آئی تھی؟ پھندے میں پھنسنے کے بعد کیوں ہوش آیا؟ اس سب کچھ کے باوجود جناب عمران خان بضد ہیں کہ وہ معاملات کی سب سے بہتر سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
اس وقت عمران خان جن حالات سے دوچار ہیں، کم از کم اب ہی انھیں نرگسیت سے جان چھڑا لینی چاہیے تھی۔ دوسری طرف ان کے نائبین میں بھی ہمت نہیں کہ انھیں سمجھائیں کہ پی ڈی ایم سے باہر رہنے والی تمام جماعتوں کو اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت اپنے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے سامنے یہ خیال ظاہر کرنے کے لیے بھی بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیرسٹر گوہرخان اور پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے ارکان میں اتنی ہمت کہاں؟
اس تناظر میں کہے بغیر چارہ نہیں کہ عمران خان کو عمران خان سے بچانے کی ضرورت ہے۔
بادبان، عبید اللہ عابد
ایک تبصرہ برائے “عمران خان کو عمران خان سے بچانے کی ضرورت”
بہت عمدہ عنوان ۔۔۔۔۔۔۔ تاریخی حوالوں سے عمدہ تجزیہ ۔۔۔۔۔ حاصل کلام۔۔”انسان حالات سے سبق حاصل کرتا ہے۔۔۔۔”اس جملے میں “انسان”کی شرط معنی خیز ہے۔۔۔