نیک نیتی ، اور اللہ القادر پہ مکمل بھروسہ کے ساتھ اپنی زندگی کا اہم فیصلہ کرنے کا وقت قریب آ گیا ہے۔
ووٹ دینے کا فیصلہ اسی وقت مبارک ہوسکتا ہے جب اسےاپنے رب کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داری سمجھا جائے گا اور اپنے رب کے سامنے اس کی جواب دہی کا احساس زندہ ہوگا۔
کسی بھی فرد کے بارے میں ہماری رائے دراصل ہمارا ’اپنا تعارف‘ ہوتا ہے۔ تو پھر مسلمان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بہتر سے بہترین مسلمان کے بارے میں رائے دی جائے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اسی کام پہ ہمارا انفرادی، اجتماعی، ملکی و ملی دیرپا مفاد وابستہ ہے۔
قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں سیٹ حاصل کر لینا ایک فروعی اور واجبی کامیابی ہے۔ اگر آپ یہ سوچ کر کسی ایسے فرد کو اپنا ووٹ دیتے ہیں جس کی کامیابی یقینی ہے اور آپ کو تسلی ہوتی ہے کہ ’بندہ تو قابل اعتبار نہیں ہے مگر اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا‘ تو یہ ایک بچگانہ سوچ ہے۔ یہ اپنے ضمیر سے بد دیانتی ہے۔ قوم سے بے وفائی ہے اور امانت کو اس کے اہل تک نہ پہنچانے کا گناہ ہے۔
مزید گناہ یہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں تعاون کی بجائے سرکشی اور گناہ پہ تعاون ہے۔ اس کا خمیازہ آپ کی نسلیں بھگتیں گی اور آخرت کا عذاب ایسے گناہوں پہ ٹل نہ سکے گا۔ نیکی کی طرف بلانے والوں کے ساتھ تعاون سے جو صدقہ جاریہ آپ کے نصیب میں ہو سکتا ہے اس موقع کو ضائع ہونے سے بچائیے اور اپنے ووٹ کو غیر اہل کے لیے استعمال کرکے مرنے کے بعد مسلسل عذاب کا ذریعہ نہ بنائیں۔
اب بھی وقت ہے، اپنا ایمان، عزت، آبرو اور ملک بچانے کی فکر کریں۔ ووٹ کے بارے میں کاہلی، سستی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا محب وطن مومن کے شایان شان نہیں ہے۔
8 فروری کی صبح کو تاروں کی چھاؤں میں اپنے رب سے رابطہ کیجیے، جب حضوری قلب بہت آسان ہوتی ہے۔ اپنے گزشتہ گناہوں کی مغفرت طلب کیجیے نعمتوں کا شکر ادا کیجیے اور اپنی نیت کو خالص کر لیجیے کہ آج ووٹ دینے کا کام اس ننھے پرندے کی طرح ہے جو آتش نمرود کو بجھانے کے لیے اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لاتا تھا۔ وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ساتھی بنا۔ آپ نے کس کا ساتھی بننا ہے؟ نمرود کا یا ابراہیم کا؟
’حسبنا اللہ نعم الوکیل پڑھ کر سیدنا ابراہیم آتش نمرود میں کود پڑے اور ان کے لیے وہ آسمان کو چھوتے شعلے ٹھنڈک اور سلامتی کا پیغام بن گئے۔
آج پھر نمرودی نظریات کا الاؤ ہے اور اس عشق کی ضرورت ہے جو بے خطر اس الاؤ میں کود پڑے۔ "پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے۔”
اللھم یسر ولا تعسر و تمم بالخیر۔ آمین
سبحانک اللھم وبحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک
والسلام
نیک تمناوں کے ساتھ طالبہ دعا
بشری تسنیم
4 پر “الیکشن 2024: ایک پاکستانی خاتون کا خط” جوابات
بہت عمدہ خط۔۔۔ مکمل پیغام ۔۔۔۔۔ آتش نمرود کے الاؤ کو بجھانے کے لیے۔۔۔ ووٹ کی پرچی۔۔ حق کی گواہی۔۔۔ذمہ داری۔۔۔۔۔ یہ خط روشنی ہے ۔۔جو راہ دکھا رہی ہی۔۔ ان کو جو ووٹ کو روایتی عمل سمجھتے ہیں۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ حوصلہ افزائی کی آپ نے ۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
محترمہ بشری تسنیم صاحبہ آپ نے بہت خلوص اور درد دل سے یہ خط تحریر کیا ھے ، لیکن مسئلہ یہ ھے کہ بحثیت قوم ہماری critical thinking کی ٹریننگ نہیں ھوئی یا ہمیں ذات سے باہر نکل کر سوچنا نہیں سکھایا گیا اس لئے یہ بہت مشکل ھے کہ ہم ذاتی پسند کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کے لئے ووٹ ڈال سکیں۔ برادری کا بندہ خواہ کرپٹ ہو گا لیکن میرا کام تو کروا ہی دے گا یہ سوچ تب پیدا ھو کر تناور درخت بن جاتی ھے جب معاشرہ استحصالی ھو نہ کہ عدل پر قائم ھو۔۔ جہاں عدل کا جنازہ نکل چکا ھو وہاں کسی بھی کام کا ضمیر کی روشنی میں کرنا آگ پر چلنا ھے۔۔۔۔
بہت شکریہ آپ نے میری پوسٹ پہ قابل قدر تبصرہ کیا۔ دراصل ذہنی تربیت کرنا ہی ہمارا جہاد ہے ۔ اور جہاد کبھی نہ کبھی مثبت نتائج لا کر رہتا ہے ۔۔ کوشش کرنا ہمارا کام ہے ۔۔
امید بر دنیا قائم ۔۔