ساتویں صدی عیسوی کا دوسرا عشرہ، نجاشی کا دربار، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی تشریف آوری اور نجاشی کا انسانیت کی اعلٰی مثال پیش کرنا ، آج مجھے بڑا یاد آیا یہ سارا قصہ۔۔
جعفر بن طیار اور ان کے ساتھی ہر غلامی کو لات مار کے خالق انس وجاں کی غلامی کا طوق پہنے ۔۔۔۔۔ بہترین کردار، اخلاق، تہذیب، قوت استدلال، علم وحکمت سے آراستہ گفتگو کر رہے تھے۔ میں ان چمکتے ستاروں کی کس کس ادا کا تذکرہ کروں! کہ نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا ’تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس میں اس تنکے کے برابر بھی غلط بیانی نہیں ہے‘۔
ہاں آج مجھے وہ بہت یاد آیا وہ قصہ۔۔۔
کیونکہ آج نجاشی کے ملک جنوبی افریقا نے عالمی دہشت گرد اسرائیل کو عالمی عدالتِ انصاف میں لاکھڑا کیا ہے۔۔۔۔
تف ہے تم پر اے چھپن اسلامی ممالک کے سربراہان! شرم نام کی کوئی چیز تمھارے اندر رتی برابر بھی ہو تو چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرو کہ تم تو اسرائیلی جارحیت کی کھل کے مذمت تک نہ کر پائے۔
کوئی کیسے مانے کہ تم اخلاق، تہذیب، علم وحکمت سے مزین کردار کے مالک ہو؟
ہونہہ۔۔۔ تمھاری قیمتی قبائیں، یہ محلات، یہ عیاشیاں، یہ ٹوپیاں، یہ ٹائیاں تمھارے بنک بیلنس تمھیں بچا نہ پائیں گے دائمی عذاب سے۔۔۔ تمھاری خوئے غلامی اب ضرب المثل بن چکی ہے۔
قارئین! ایک طرف یہ بزدل گیدڑ ہیں جو اتنے بڑے رقبے پہ براجمان ہیں لیکن بڑھتے ہوئے طوفانوں سے بے خبر ہیں، غلام ابن غلام ہیں اور اپنی عیاشیوں میں مست۔ دوسری طرف 560 مربع کلومیٹر رقبے والا غزہ ہے جو محصور ہے۔ اسرائیلی درندے مسلسل بمباری جاری رکھے ہوئے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق تادم تحریر تئیس ہزار سے زیادہ فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں جن میں سے دس ہزار سے زائد بچے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ہر دس منٹ میں ایک بچہ شہید ہوا ہے۔ 85 فیصد شہری اپنے گھر سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود بمباری جاری ہے۔۔
اسرائیل اب تک نہتے شہریوں پر تیس ہزار سے زائد بم گرا چکا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی ایک آبادی پر گرنے والے بموں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ بچوں، خواتین کے علاوہ صحافی بھی شہید کیے جا رہے ہیں تاکہ اسرائیلی مظالم دنیا کو دکھانے والا کوئی نہ ہو، ہسپتال تباہ کیے جا رہے ہیں کہ کسی زخمی کا علاج نہ ہو، سکول تباہ کیے جارہے ہیں کہ لوگ یہ سوچ کر اسکولوں میں پناہ لیتے ہیں کہ کم از کم یہاں بمباری نہیں ہوگی۔
مندرجہ ذیل ممالک اور تنظیموں نے عالمی عدالتِ انصاف میں جنوبی افریقا کے مقدمے کی صرف زبانی بیان کی حد تک حمایت کی ہے۔
او آئی سی، عرب لیگ، ملائیشیا، ترکیہ، بولیویا، مالدیپ، پاکستان اور نمیبیا۔
جبکہ اردن نے قانونی طور پر بھی اس مقدمے میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔
قارئین! اس وقت دنیا بھر کی نظریں اس مقدمے پر لگی ہوئی ہیں۔
سوچیں ذرا !! مسلمان امت کی غفلت اور مسلم حکمرانوں کی خاص طور پہ گزشتہ پچاس سے ستر برسوں کے دوران کی بے حمیتی نے یہ دن دکھایا ہے کہ ہمارا قبلہ اول جہاں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں سارے انبیاء نے نماز اداکی، گویا قبلہ اول ساری اقوام، سارے ادوار کے لیے امن وخیر کے پیغام کے امر ہونے کا مقام ٹھرا۔
اور۔۔۔۔ قبۃ الصخرہ۔۔۔۔ آج دل خون کے آنسو روتا ہے۔۔۔۔ قبۃ الصخرہ پہ ایک خوبصورت سفر کے لیے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سواری پیش کی گئی تھی۔۔۔ آج اسی قبلہ اول اور اسی قبة الصخرہ کے سامنے ظلم وجبر کا ننگا رقص جاری ہے۔
ایسے میں جہاں اس مقدمے کا مبنی بر انصاف فیصلہ آنا ضروری ہے، وہاں ہم پاکستانی فلسطین سے دور بیٹھ کر، محض اسرائیلی مظالم کی مذمت کرکے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ہمارے کرنے کے کچھ کام ہیں۔ عرب ممالک نہیں کرتے تو کم از کم ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے، بطور مسلمان اور انسان ہمارا فرض ہے۔ اگر امریکا اور برطانیہ کے حکمران اسرائیل کے صیہونیوں کی حمایت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں تو ہم پاکستانی فلسطینیوں کی حمایت میں اپنا بھرپور کردار کیوں نہ ادا کریں!
اس تناظر میں آئیے! دیکھتے ہیں کہ ہمیں فرض کہاں اور کیسے پکار رہا ہے۔
پاکستانی فلسطین میں پہنچ کر فلسطینیوں کی خاطر لڑنے کی قدرت نہیں رکھتے لیکن وہ اپنے گھروں میں رہ کر فلسطینیوں کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت پہے کہ اقوام عالم بالخصوص اقوام مغرب کو فلسطینیوں کی پشت پر کھڑا کیا جائے۔ اقوام عالم بیدار ہیں، امریکا سے برطانیہ، فرانس اور جرمنی تک مغربی اقوام فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ الحمدللہ۔ انھیں مزید بیدار کرنا ہے، مزید مغربی رائے عامہ کو مزید فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا ہے۔ اس کے لیے پراپیگنڈا محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ٹوئٹر واحد راستہ ہے۔
ٹوئٹر پر اپنے اکاؤنٹس بنا کر انگریزی، فرنچ، جرمن، ڈچ زبانوں میں چند الفاظ لکھ کر فلسطینی شہداء کی تصاویر اور ویڈیوز خوب وائرل کی جائیں۔ گوگل ٹرانسلیٹر سے مدد لیں اور اقوام عالم کی زبانوں میں پوسٹس شائع کی جائیں۔ یاد رکھیے فلسطینی خواتین اور بچوں کی شہادتوں کو موضوع بنائیں، فلسطینیوں کی نسل کشی کی بات کریں۔ یقیناً اقوام عالم فلسطینیوں کے حق میں کھڑی ہوں گی۔
ٹوئٹر پہ پراپیگنڈا محاذ کو مزید گرم کرنے کی ضرورت ہے۔ قارئین! اپنے ضروری کاموں میں ٹوئٹر پہ غزہ کے لیے آواز اٹھانے کو سرفہرست رکھیے۔
تباہ حال غزہ میں دوائیاں اور خوراک اور موسم کے مطابق کپڑوں اور بستروں کی ضرورت ہیں۔ اپنا دامن دل کچھ اور وسیع کیجیے۔ جیب کو فلسطین کے لیے مالی امداد کے لیے آمادہ کیجیے۔ اس ضمن میں الخدمت فاونڈیشن پاکستان پر آپ بھر پور اعتماد کر سکتے ہیں۔
قارئین! یہودی قوم کے اندر بھی انسانیت نواز لوگ موجود ہیں۔ وہ اس قتل وغارتگری کے حق میں نہیں ہیں۔ ان تک ہمیں یہ پیغام پہنچانا ہے کہ صیہونیت نے جو غزہ کے اندر نسل کشی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، آگ اور بارود کے جو جھکڑ چل رہے ہیں، بعید نہیں یہ جھکڑ ایک دن تمھارے گھر بھی بھسم کر ڈالیں لہذا صیہونیوں کے خلاف مربوط انداز میں آواز اٹھاؤ۔
ایک ارب مسلمان بہت بڑی قوت ہیں، شرط یہی ہے کہ شرق وغرب ہر جگہ اپنے لیے ایسے لیڈر/ ارباب اختیار منتخب /پسند کیے جائیں جو صلاح الدین ایوبی (رح) کو اپنا قائد مانتے ہوں، وائٹ ہاؤس کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوتے ہوں۔
ذرا گہرائی میں جا کر سوچیے گا قبلہ اول اور قبة الصخرہ تو زخمی ہیں، تئیس ہزار شہدا کا خون جس سرزمین پہ گرا ہے وہ انبیاء کی سرزمین ہے۔
عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ مبنی بر انصاف نہ آیا تو خاکم بدہن مجھے تو یہ ساری دھرتی سرخ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتاہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہء یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمو میں ہے
ایک تبصرہ برائے “زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ”
ماشاءاللہ بہت خوشی ہوئی آپ کا کالم پڑھ کر ۔اللہ تعالیٰ مجھے اور پوری امت مسلمہ کو غزہ کے حق میں آواز بلند کرنے کی توفیق دے