عزت اور غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے اس قدرلکھا جا چکا ہے کہ یہ موضوع اب بہت سے لوگوں کو نہ صرف بور کرنے لگا ہے بلکہ بہت پرانا بھی لگنے لگا ہے۔ ہر شخص ایک جیسے جذبات کا اظہار کرتا ہے، ایک ہی راگ الاپتا ہے مگر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ کچھ بھی نہیں، سوائے اس کے کہ آئے روز بے شمار ایسے ہی قتل ہمارے اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں اور گزرتے دن کے ساتھ خبر کا نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے۔
ہمارے ہاں جس رفتار سے عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے اسے دیکھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ غیرت صرف مردوں کی طبیعت کا خاصا ہوتا ہے جبکہ عورتوں کے اندر اس کا وجود نہیں ہوتا۔ ایسے ہی واقعات سے متعلق جان کر ذہن میں سب سے پہلا سوال ہی یہی ابھرتا ہے کہ آخر کبھی غیرت کے نام پر عورت کے ہاتھوں کسی مرد کا قتل کیوں نہیں ہوا؟
اس کی بڑی وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے جہاں مرد کو ہر طرح سے آزادی حاصل ہے۔ وہ چاہے باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو یا پھر بیٹا ہو، ہر روپ میں خود کو افضل گردانتا ہے۔
چند سال قبل تک پاکستان کی خواتین بنیادی حقوق سے محروم تھیں۔ مثال کے طور پرانہیں معاشی، سماجی، سیاسی، ثقافتی اور تعلیمی حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے کہا جاتا تھا کہ سب چیزیں خواتین کے لیے نہیں ہیں۔ بنیادی حقوق سے محروم ان خواتین کو شادی اور طلاق جیسے سنگین معاملات سے بھی الگ رکھا جاتا تھا۔
پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جہاں مردوں اور خواتین کو برابر کے حقوق حاصل ہیں لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی جبکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ لوگوں کے ذہن کا کینوس بہت وسیع ہوچکا ہے، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو خواتین کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دینے کو تیار نہیں اور اس ضمن میں ایک بڑی تعداد ان پڑھ اور جاہل طبقے سے تعلق رکھتی ہے جبکہ بعض پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی حرکتوں کی بنا پر خود کوجاہلوں کی فہرست میں شامل کر لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنالہو تلاش کروں۔۔۔!!!
اسلام پسند بھائیوں سے میری شکایات
جسوندرسنگھیڑا کی عجیب وغریب کہانی
غیرت کے نام پر قتل صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں رہنے والے بہت سے عیسائی بھی ایسے واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد مسلمانوں سے بہت کم ہوتی ہیں لیکں بہر حال کئی ایک واقعات سے یہ لوگ بھی خود کو اس فہرست میں شامل کئے ہوئے ہیں۔
پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر قتل ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 2016 سے لے کر 2022 تک پاکستان کے مختلف شہروں میں غیرت کے نام پر درجنوں قتل کے واقعات پیش آئے ہیں۔
ایچ آر سی کے مطابق 2022 میں ملک بھر میں غیرت کے نام پر 520 قتل ہوئے۔ قتل ہونے والوں میں 197 مرد اور 323 خواتین شامل تھیں۔ 2023 میں جون تک غیرت کے نام پر 215 قتل ہوئے جن میں 70 مرد اور 145خواتین تھیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے میڈیا مانیٹر کے مطابق فیصل آباد، لاہور، شیخوپورہ اور قصور کے علاقوں میں گزشتہ دو برسوں سے تواتر سے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں ۔
غیرت کے نام پر خواتین کے بڑھتے ہوئے قتل کے واقعات میں عموماً خواتین کے قریبی مرد رشتہ دار جیسے کہ شوہر، والد، بیٹے بھائی، کزنز یا چچا اور تایا وغیرہ ملوث ہوتے ہیں۔ یہ خواتین خاندان کی مرضی کے بغیر شادی سے لے کر موبائل فون استعمال کرنے حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر ایک تصویر لگانے تک جیسی ’خطائوں‘ کے ’جرم‘ میں اپنے مرد رشتہ داروں کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہو سکتی ہیں۔
پنجاب بھر میں گائوں کی سطح سے لے کر بڑے اور چھوٹے شہروں میں آئے روز ایسے ہی واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ملک بھر میں ہونا اب ایک معمول کی بات تصور کی جاتی ہے۔ سندھ میں اسی کو ایک دوسرا نام دے دیا گیا لیکن اس کا طریقہ کار وہی ہے جو پنجاب میں یا دیگر علاقوں میں ہے۔
سندھ میں لوگ اس بہیمانہ رسم کو’ کاروکاری‘ کا نام دیتے ہیں۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پشاور میں اس کو’تر‘ کہا جاتا ہے جس میں مطلوبہ عورت کو یا تو جلا دیا جاتا ہے یا پھر گولی مار دی جاتی ہے۔ دونوں زبانوں کے معنی ’کاری ـ ـ ـ ـ ـ‘ کرنا کے ہیں جس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اس عورت نے ایک ایسا عمل کیا ہے یا وہ ایک ایسے عمل کی مرتکب ہوئی ہے جو معاشرے کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
پنجاب میں ایسے فعل کے مرتکب خاتون کو عموماً گولی مار دی جاتی ہے۔ عموماً ایسے فیصلے بھی کسی ایک فرد کی رضا کا نتیجہ ہوتے ہیں جس کو وہ خود ہی انجام تک پہنچا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی ہی خواتین کے شوہر، باپ یا بھائی ایسے معاملات میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں جرگہ اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ آیا عورت کو قتل کر دینا چاہے یا پھر اسے اس مرد کے ساتھ جانے کی اجازت دے دینی چاہیے جس کے ساتھ اس کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ خواتین کو عموماً کسی غیر مرد میں دلچسپی لینے کی آڑ میں قتل کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ان خواتین کو اپنا بیان دینے اور اپنی صفائی پیش کرنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔
اخبارات میں ہرروز پانچ سے چھ خبریں ایسی ضرور پڑھنے کو ملتی ہیں جن میں غیرت کے نام پر قتل کا ذکر موجود ہوتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021ء میں پاکستان میں غیرت کے نام پر 470 قتل رپورٹ ہوئے لیکن این جی اوز کے مطابق ہر سال ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس ضمن میں ہونے والے قتل تعداد میں بہت زیادہ ہیں کیونکہ ان میں سے کئی ایسے واقعات ہیں جو منظرعام پر آتے ہی نہیں۔ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، بیٹوں اوربھائیوں کو بچانے کے لیے قاتلوں کو بچا لیا جاتا ہے جس کے بعد وہ دھڑلے سے زندگی گزارتے ہیں اور سینہ ٹھونک کر خود کو غیرت مندوں کی فہرست میں اوّل نمبر پر بھی سمجھتے ہیں۔
مذہب کوئی بھی ہو اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے لگے۔ اسلام اور عیسائیت دونوں میں ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دی گئی۔
اسلام غیرت کے نام پر قتل کی سخت مذمت کرتا ہے اور وہ خواتین کو ان کے حقوق دینے پر زُور دیتا ہے مادی معاملات میں وہ خواتین کو ان کی پسند کی اجازت دیتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ’خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دئیے گئے ہیں‘۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو حق مہر کے علاوہ جائیداد میں بھی حصہ دیا گیا ہے۔
اسلام خواتین کو بوجھ سمجھنے کے تصور کو یکسر ختم کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں لوگوں کے ذہن اب بھی دورِ جاہلیت کے اندھیروں سے نہیں نکل پائے ہیں۔
شمائلہ اقبال، ویوپوائنٹ، [email protected]