قاضی حسین احمد سے میری پہلی ملاقات تب ہوئی جب میں تیرہ برس کا تھا۔ اپنے والد گرامی حضرت مولانا رضا اللہ ذوقؒ کے ساتھ جامع مسجد منصورہ میں نماز پڑھ کر باہر نکلا تو قاضی صاحب نظر آئے، میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا۔ وہ بڑی شفقت سے ملے۔ اس وقت وہ جماعت اسلامی پاکستان کے قیم ( سیکرٹری جنرل ) تھے۔
قاضی صاحب سے دوسری ملاقات تب ہوئی جب میں فرسٹ ایئر یا سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ اس وقت وہ امیر جماعت بن چکے تھے۔ انھوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کی طرح ’عصری مجلس‘ شروع کی تھی۔ جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں ایسی ہی ایک مجلس میں مجھے بھی بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان سے کچھ سوالات کیے۔ انھوں نے تسلی بخش جوابات دیے۔
تیسری ملاقات میرے نکاح کی تقریب میں ہوئی۔ میری خواہش تھی کہ قاضی صاحب ہی میرا نکاح پڑھائیں، چنانچہ مجھے یہ شرف بھی حاصل ہوا۔ چوتھی ملاقات تب ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے بیٹے سے نوازا، میں نے چاہا کہ قاضی صاحب ہی میرے بیٹے کا نام رکھیں۔ چنانچہ انھوں نے فرمایا’ میں نے بھی اپنے بیٹے کا نام ’انس‘ رکھا ہے، آپ بھی یہی نام رکھ لیں‘۔
اسی طرح مزید کچھ بالمشافہ ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ یہی اس فقیر کی متاع ہے اور اسی پر ناز بھی ہے۔ مجھے قاضی صاحب کی تقاریر سننے کے بے شمار مواقع ملے۔ وہ انسانوں کی زندگی میں امید کا چراغ روشن کرتے تھے، ان میں جوش و ولولہ پیدا کرتے تھے، انھیں جدوجہد کے لیے تیار کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی جس نے جماعت اسلامی میں ایک نئی جان پیدا کی۔
ایک بڑے کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ ایک بزرگ درویش تھے۔ امیر جماعت بن کر وہ ’قافلہ دعوت و محبت‘ لے کر پاکستان بھر کے دورے پر نکلے، ان کے ساتھ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مسلسل ہمسفر رہی، ان کی زبانی قاضی صاحب کی خوئے دلنوازی کا پتہ چلا جس نے اپنوں کو بھرپور انداز میں متحرک کیا اور غیروں کو اپنا بنایا۔ یوں جماعت اسلامی انیس سو ستر کے بعد پہلی بار پاکستانیوں کی نظروں میں آئی۔ ڈاکٹر یونس بٹ نے درست ہی کہا تھا ’مولانا مودودی جماعت کو سیاست میں لائے، قاضی حسین احمد سیاست کو جماعت میں لائے‘۔ ایک اندازے کے مطابق ان کے دور امارت میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی تعداد پینتالیس لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔
قاضی صاحب کے پیش رو میاں طفیل محمد کی قیادت میں جماعت اسلامی جنرل ضیا الحق کے قریب رہی تاہم قاضی صاحب نے امیر منتخب ہونے کے بعد جماعت کو اپوزیشن کیمپ کے قریب کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں جماعت کے اندر سے کسی قدر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو دور میں مظالم کا شکار رہنے والے جماعتی پیپلزپارٹی کے ساتھ رابطوں کو حرام قرار دیتے تھے۔
اس کے باوجود جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے مابین رابطے ٹھوس شکل اختیار کرسکتے تھے کیونکہ قاضی صاحب کو اسلامی جمعیت طلبہ سے جماعت میں داخل ہونے والے ان نوجوانوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی جو مارشل لا حکومت کے خلاف جدوجہد کرتے رہے تھے۔ پھر جنرل ضیا الحق کے طیارے کا حادثہ ہوگیا اور جماعت واپس’دائیں بازو‘ والے کیمپ میں آگئی۔
اگلے چار، پانچ برسوں میں ہی قاضی صاحب اس کیمپ سے بیزار ہوئے۔ اس موقع پر انھوں نے جو سبق سیکھے، مسائل کا تجزیہ کیا اور علاج تجویز کیا، وہ آنے والے برسوں میں ایک مقبول سیاسی فلسفہ اختیار کرگیا۔ اس وقت اس کا جادو پورے پاکستان میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ قاضی صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مسائل کی جڑ دو بڑی جماعتیں اور انھیں باری باری کھیل کا موقع دینے والی اسٹیبلشمنٹ ہے۔
اپنے اسی سیاسی تجزیے کی بنیاد پر قاضی صاحب نے انیس سو ترانوے میں ’پاکستان اسلامک فرنٹ‘ کے نام سے ایک منفرد تجربہ کیا۔ فرنٹ قائم کرنے کے فوراً بعد انھیں عام انتخابات کے لیے میدان میں اترنا پڑا۔ تیاری مکمل نہ ہونے کے سبب نتائج مایوس کن برآمد ہوئے تو جماعت اسلامی کے ارکان حد درجہ جذباتی نکلے، انھوں نے اسلامک فرنٹ کے تجربہ کو آگے بڑھنے نہ دیا۔ اس فرنٹ کو ’متبادل قوت‘ کے نعرے کے ساتھ مہم چلانے کے لیے مزید کچھ وقت مل جاتا تو اب پاکستانی سیاست کے رنگ ڈھنگ اور ہی ہوتے۔
قاضی حسین احمد نے’ملی یکجہتی کونسل‘ کا ایک تجربہ کیا، اور کامیاب تجربہ کیا۔ تمام مسالک اور مذہبی جماعتوں پر مشتمل اس کونسل کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت غیر معمولی طور پر کم ہوئی۔ یہ قاضی صاحب ہی تھے جن کی کوشش سے مختلف مسالک کے لوگ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے لگے تھے ورنہ وہ ایک دوسرے کو نجس سمجھتے تھے بلکہ ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے رہتے تھے۔
قاضی حسین احمد ایسے اعتدال پسند لوگ ہی معاشروں کو ازسرنو زندگی بخشتے ہیں۔ یہ لوگ نہ رہیں تو معاشروں میں انتہا پسندی اپنے پاؤں پھیلاتی ہے۔ وہ کسی عصبیت پر یقین نہیں رکھتے، اس لیے منقسم لوگوں کو ایک کرنے اور پھر استحصالی طبقے کے خلاف جدوجہد کو ہی اپنا مقصد زندگی بنا لیتے ہیں۔
قاضی صاحب نے ’پاسبان‘ کے نام سے نوجوانوں کی ایک کھلی ڈھلی تنظیم قائم کی، اور عام لوگوں کے بنیادی حقوق اور سماجی انصاف کا نعرہ لگایا، ’پاسبان‘ کو معاشرے کے ظالم گروہوں کے مقابل کھڑا کرنا چاہا۔ معاشرے کو اپنے شکنجے میں لینے والے ظالم گروہوں کو بھلا ایسا گروہ کیسے برداشت ہوتا۔ چنانچہ پاکستان اسلامک فرنٹ کے خاتمے کے ساتھ ہی پاسبان کا دور بھی ختم ہوگیا۔
قاضی حسین احمد سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ ہی ساتھ علامہ اقبال کے عشق میں بھی مبتلا تھے۔ ان کی کوئی ایک تقریر بھی ایسی نہ تھی جس میں علامہ اقبال کا فارسی اور اردو کلام شامل نہ ہو۔ وہ کلام اقبال کے نہ صرف حافظ تھے بلکہ شارح بھی تھے۔ اس سے بہتر شرح میں نے کبھی نہیں سنی۔ وہ پاکستان کے واحد لیڈر تھے جو اقبال کے نور بصیرت سے کام لیتے تھے۔ افسوس! اب پاکستانی قوم ان جیسے پڑھے لکھے اور دور اندیش لیڈر سے محروم ہوکر یوسف بے کارواں کی طرح پھر رہی ہے۔