سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ملک بھر میں عام انتخابات کے لیے آٹھ فروری دو ہزار چوبیس کی تاریخ پر الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں اور ’کنگ میکرز‘ کے انگوٹھے لگوا کر ان سب کے لیے عجب مشکل پیدا کردی ہے۔ اگر اب بھی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے پوچھا جائے کہ عام انتخابات ملتوی کردیے جائیں؟ سب بہ آواز بلند کہیں گے: ’جی ہاں‘۔
یہ احساس اگلے روز جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس سن کر زیادہ پختہ ہوا۔ مولانا فضل الرحمن چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر پر برس رہے تھے کہ عام انتخابات کے دوران جمعیت کا کوئی کارکن شہید ہوا تو ذمہ دار چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر ہوں گے۔
ان کی گفتگو سے مترشح ہورہا تھا کہ انھیں 8 فروری کو عام انعقاد پسند نہیں۔ پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں میں سے کسی کو مولانا سے پوچھنا چاہیے تھا کہ عام انتخابات پانچ سال بھی ملتوی کردیے جائیں تو کیا ضمانت کہ امن و امان کی صورت سو فیصد بہتر ہوجائے؟
ویسے ہمارے ہاں جمہوریت کے بیش بہا فوائد بیان کیے جاتے ہیں لیکن جمہوریت کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹیں یہی فوائد بیان کرنے والے ہی پیدا کرتے ہیں۔ یہ سب کہتے ہیں کہ جمہوریت اور اس کے لیے عام انتخابات صرف اور صرف عوام کے مفاد میں ہیں لیکن پاکستانی تاریخ میں حقیقت یہی نظر آئی کہ عام انتخابات پاکستانی سیاست کے کرتا دھرتا صرف اپنے مفاد میں کرواتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورت حال انیس سو ستتر میں بھی تھی جب جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کرکے نوے روز میں عام انتخابات کا اعلان کیا۔ اس وقت پاکستان قومی اتحاد کے رہنما الیکشن التوا کے سب سے بڑے موئید تھے اور کسی نہ کسی طرح جنرل ضیا الحق کو مشورے دیتے تھے کہ انتخابات ملتوی نہ کیے گئے تو ان کا عسکری اقتدار قائم نہ رہ سکے گا۔ حسن اتفاق کہ مولانا فضل الرحمن کے والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمود مرحوم اس اتحاد کے قائد تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعدازاں الیکشن ملتوی کروانے اور کرواتے رہنے کی ساری ذمہ داری بے چارے جنرل ضیاالحق پر ڈال دی۔
جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی 1977 کو مارشل لا نافذ کیا اور اکتوبر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا۔ 15 جولائی کو لاہور ہائیکورٹ کے جج مشتاق حسین کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کردیا، جس کے بعد اٹھارہ اکتوبر 1977 کو ایک ہی دن ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات منعقد ہونا قرار پائے۔ تاہم یکم اکتوبر کو جنرل ضیاالحق نے حالات کے ناسازگار ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔
کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاالحق کو خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں معزول وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو جیل میں رہتے ہوئے انتخابات پر اثرانداز نہ ہوجائیں اور انتخابی نتائج مارشل لا کے گلے نہ پڑ جائیں۔ چنانچہ جب ذوالفقار علی بھٹو کا عدالت کے ذریعے ’بندوبست‘ کرلیا گیا تو اعلان کیا گیا کہ ملک بھر میں عام انتخابات 23 مارچ 1979 کو ہوں گے۔ تاہم جنرل صاحب نے ایک بار پھر انتخابات ملتوی کردیے۔
وہ اب بھٹو فیکٹر سے پہلے کی نسبت زیادہ خوفزدہ تھے۔ اس وقت تک ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے سزائے موت سنائی جاچکی تھی، سپریم کورٹ نے اس فیصلے کی توثیق کردی تھی۔ اب محض سزا پر عمل درآمد ہونا باقی تھا۔ ان حالات میں جنرل ضیا الحق بھلا کیسے عام انتخابات کروا سکتے تھے!
جب بھٹو صاحب کو پھانسی دے کر لاڑکانہ میں دفن کردیا گیا، ملک بھر میں بالخصوص سندھ میں لوگ اس پر غم و غصہ ظاہر کر رہے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے ان حالات سے نکلنے کی حکمت عملی طے کی۔ انھیں بخوبی اندازہ تھا کہ عام انتخابات کا انعقاد کروائے بغیر ان کی جان نہیں چھوٹ سکتی۔ اس تناظر میں انھوں نے عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی اگلا وزیراعظم تیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں میں سے کسی کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے تاکہ وہ بھٹو کی معزولی اور پھانسی سے پیدا ہونے والے مخالفانہ اثرات کو زائل کرسکے۔ اس کے لیے غلام مصطفیٰ جتوئی کے نام پر وہ بظاہر یکسو ہوئے تاہم اسی اثنا میں غلام مصطفیٰ جتوئی اور غلام مصطفیٰ کھر کی دوبئی میں ملاقات ہوگئی۔ اس ملاقات نے جتوئی کی وزارت عظمیٰ کا سارا بندوبست چوپٹ کردیا۔ اگر یہ ملاقات نہ ہوتی تو ممکن ہے کہ 1980 یا 1981 میں عام انتخابات منعقد ہوجاتے۔
اس وقت تک جنرل صاحب کسی نہ کسی طرح آئین اور جمہوریت کو بالائے طاق رکھے ہوئے تھے۔ روئیداد خان اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں لکھتے ہیں کہ ضیاء الحق کے دل میں جمہوریت اور آئین کے لیے سوائے تحقیر اور تضحیک کے کچھ نہ تھا جس کا ثبوت انہوں نے تہران میں ایک اخباری کانفرنس میں یہ کہہ کر دیا ’آئین آئین آئین ہے کیا؟ دس بارہ صفحات کا کاغذی پرزہ جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ اگر میں آج اعلان کردوں کہ کل سے ہم مختلف نظام کے تحت زندگی بسر کریں گے تو مجھ کو کون روک سکتا ہے‘۔
رہی بات جمہوریت کی، وہ اسے مغربی نظام قرار دے کر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ لیکن انھیں اندازہ تھا کہ انتخابات منعقد کروائے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا، چنانچہ انیس سو تراسی میں ایک بار پھرجنرل صاحب انتخابات کروانے پر تیار ہوگئے۔ اب انھوں نے پہلے مقامی سطح کے انتخابات، پھر صوبائی اسمبلیوں کے، اور اس کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات کروانے کا منصوبہ تیار کیا۔
ان دنوں تحریک بحالی جمہوریت کی تحریک چل رہی تھی۔ اس کا زیادہ زور اندرون سندھ میں تھا۔ جنرل صاحب مارشل لا کا کمبل اتار کر پھینکنا چاہتے تھے لیکن ان کی حالت اب بھی کچھ ایسی ہی تھی کہ کہیں ایسا نہ جائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ وہ اس صورت حال سے نکلنا چاہتے تھے لیکن انھیں محفوظ راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ انھوں نے بھٹو خاندان سے بھی بالواسطہ رابطہ کرکے ڈیل کی کوشش کی لیکن ناکامی کا شکار ہوئے۔
جنرل ضیا الحق جمہوریت کی فوری مکمل بحالی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے، اسی لیے وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہتے تھے۔ جب وہ جمہوریت کی بحالی کا فیصلہ کرچکے تو انھوں نے اعلان کیا ’جمہوریت کا پودا مارشل لا کے درخت تلے پروان چڑھے گا۔‘ بہ الفاظ دیگر وہ جمہوریت کو اپنے قابو میں رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے تھے، چنانچہ جنرل صاحب نے پہلے ملک کا صدر بننے، پھر عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ وہ 19 دسمبر 1984 کو ایک ریفرنڈم کروا کے ایوان صدر میں منتقل ہوئے۔ پھر جنوری 1985 میں عام انتخابات کروا دیے لیکن غیر جماعتی۔
10 مارچ 1985 کو صدر ضیاء الحق نے آئین کی بحالی کا فرمان جاری کیا لیکن قومی اسمبلی کے اراکین میں سے کسی ایک بندے کو پکڑ کر وزیراعظم بنانے کا اختیار اپنے پاس ہی رکھا۔ اس کے مطابق انھوں نے 23 مارچ 1985 کو محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کر دیا۔ جونیجو صاحب کو وزیراعظم یہ سمجھ کر بنایا گیا کہ وہ مطیع و فرمانبردار ثابت ہوں گے تاہم محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد کہہ دیا کہ جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ان کے الفاظ تھے:’سویلین حکومت مارشل لا کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ اس لیے جتنا جلدی ممکن ہو مارشل لا اٹھا لیا جائے۔‘
یہ وزیراعظم جونیجو کا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو واضح پیغام تھا چنانچہ اس کے بعد اگلے مراحل تیزی سے طے ہوئے۔ انھوں نے مارشل لا کی بساط لپیٹنے اور سیاسی جماعتوں پر مبنی نظام کے احیا کی طرف تیزی سے قدم بڑھائے۔ آٹھویں ترمیم اور پالیٹیکل پارٹیز ایکٹ کی منظوری ایسے ہی دو اہم اقدامات تھے۔ ان کے تناظر میں طے پایا کہ 31 دسمبر انیس سو پچاسی سے پہلے پہل مارشل لا اٹھا لیا جائے گا۔ چنانچہ 30 دسمبر کو، آج ہی کے دن جنرل ضیا الحق کا مارشل لا ختم ہوگیا، البتہ جمہوریت پر ان کا ’دست شفقت‘ ان کے آخری سانس مورخہ سترہ اگست انیس سو اٹھاسی تک برقرار رہا۔
یہ ہے پاکستان کی وہ جمہوریت جس کی بنیاد عوام کو قرار دیا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اس جمہوریت کے سارے ثمرات عوام ہی کے لیے وقف ہیں۔ اور ہمارے کرتا دھرتا یہ دعویٰ بھی صبح و شام کرتے ہیں کہ ان کا جینا مرنا عوام ہی کے لیے ہے۔