فلسطینی مزاحمت کاروں بالخصوص آزادی پسند تحریک حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے، امریکا سے چین اور روس تک ہر کوئی نہ رکنے والی اس جنگ کے بارے میں متفکر ہے۔ امریکا سمیت بعض مغربی ممالک کے حکمران اسرائیل کے صہیونی طبقہ کے ساتھ کھڑے ہیں البتہ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک، پوری دنیا کی اقوام فلسطینیوں پر مسلط ’ہولوکاسٹ‘ کی مذمت کر رہے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ یہ جنگ جلد از جلد رک جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ فلسطین کے مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ہر قسم کے مواد کی تلاش میں ہیں جو انھیں اس سوال کا جواب دے کہ اسرائیل کا صیہونی طبقہ درست ہے یا فلسطینی؟ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فلسطین سے متعلقہ مواد تیزی سے تلاش کیا جارہا ہے۔
ایسے ہی مواد میں ایک فلم بہت زیادہ دیکھی جا رہی ہے جس کا نام ہے: ’ فرحہ‘۔ 2022 میں او ٹی ٹی پلیٹ فارم نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے والی فلم ’فرحہ‘اردن کی دارین جے سلام نے بنائی تھی۔ وہی اس کہانی کی مصنفہ ہیں اور فلم کی ہدایت کار بھی۔ انھوں نے اس فلم کی کہانی پر سن دو ہزار سولہ سے کام شروع کردیا تھا۔ جب وہ اس فلم کی کہانی لکھ رہی تھیں تو ان کی شدید حوصلہ شکنی کی گئی، انھیں خبردار کیا گیا کہ یہ فلم ان کا کیریئر ہی ختم کردے گی۔ فلم ’ فرحہ‘ 2021 میں پہلے ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں ریلیز ہوئی، اس کے بعد دسمبر 2022 میں نیٹ فلیکس پر ریلیز ہوئی۔
فلم ایک 14 سالہ فلسطینی لڑکی کی سچی کہانی پر بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ کیسے فرحہ نے 1948 کے’ نکبہ‘ میں اپنی آنکھوں سے اپنا خاندان اور اپنا ملک تباہ ہوتے دیکھا۔ فرحہ نے بہت سے خواب دیکھ رکھے تھے، وہ اپنے گاؤں سے نکلنا چاہتی تھی اور شہر میں جاکر پڑھنا چاہتی ہے۔ وہ زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے خواب اس وقت ادھورے رہ جاتے ہیں جب فلسطین پر اسرائیل حملہ کر دیتا ہے۔ فرحہ کا پورا گاؤں اور آس پاس کے لوگ برباد ہوجاتے ہیں۔ فرحہ کا والد لاپتہ ہوجاتا ہے۔ باپ کے لاپتا ہونے کے بعد فرحہ اندر سے ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ فرار ہوکر شام میں پہنچ جاتی ہے۔ وہ آخری وقت تک والد کو تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ حملہ آور فلسطینی باشندوں کو قتل کی دھمکیاں دے کر ان کے گھروں سے بے گھر کرتے۔
’فرحہ‘ میں فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والا ظلم کافی باریکی سے دکھایا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو اس فلم کے ریلیز ہونے پر اعتراض تھا، فلم کی ریلیز ہونے پر اسرائیل نے نیٹ فلیکس پر سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ فلم میں فلسطینیوں پر کیے جانے والے ظلم ضرورت سے زیادہ دکھائے گئے ہیں۔ بعدازاں اسرائیل کی طرف سے فلم کی ریٹنگ کم کروانے کے لیے ایک منظم مہم چلائی گئی، فلم سازوں کو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ ہراساں کیا گیا۔
فلم ’فرحہ‘ کے خلاف مہم نے الٹا اثر کیا اور اس کی ریٹنگ غیر معمولی طور پر بلند ہوئی۔
فلم’فرحہ‘ کی کاسٹ میں کرم طاہر، اشرف برہوم، علی سلیمان، طالا گموح، سمیرہ عاصر، ماجد عید، فیراس طیبہ اور سمعیل کازروشکی شامل ہیں۔ دارین ج سلام کی فلم آسکر کے بہترین بین الاقوامی فیچر کے لیے اردن کی آفیشل انٹری کے طور پر بھی منتخب کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ 1948 کی جنگ میں 500 فلسطینی گاؤں اور شہروں کو تباہ کیا گیا اور 7 لاکھ سے زائد فلسطینی شہری بے گھر ہوئے تھے، اسرائیل نے فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔