جانے اس میں سوچوں کا دخل تھا یا معمول کی کمزورئِ طبع کہ آج اسے اپنے فرض کی بجا آوری بہت مشکل لگی۔ ایک ایک لفظ کی ادائیگی کے لیے بدن کی ساری قوتوں کو جمع کرنا پڑا تھا۔ اب وہ چٹائی پر اکیلا بیٹھا، خیالوں کے تانے بانے بنتے بنتے ماضی کی پگڈنڈیوں پر سفر کر رہا تھا۔
ننھے حامد، احمد اور ارسلان سے اس کی دوستی محض اس لیے نہیں تھی کہ وہ اسے بڑے پیارے لگتے تھے، اس کا خون تھے بلکہ اسے ان کی تربیت کی فکر بھی دامن گیر رہتی تھی۔ اس مقصد کے لیے ان تینوں کو اپنے ساتھ مسجد آنے کی ترغیب دیتا تھا مگر بدقسمتی کہ حامد، احمد اور ارسلان کا باپ، اس کا اپنا بیٹا ہمیشہ آڑے آ جاتا کہ ’ابا جان! بچے بہت چھوٹے ہیں، مسجد میں نمازیوں کو تنگ کریں گے اور آج کل مسجد میں دھماکے بھی تو ہو جایا کرتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔
بارش ہو، آندھی ہو، گرمی ہو، سردی ہو، اس گھر میں واحد وہی تھا جو ہر نماز کی پکار پر دیوانہ وار مسجد کی طرف لپکتا تھا۔ مسجد کمیٹی نے اسے مؤذن کے فرائض انجام دینے کی درخواست کی تو اس نے بخوشی قبول کر لی۔ اس کی ہمیشہ کوشش اور خواہش رہی کہ حامد، احمد اور ارسلان بھی مسجد کی جملہ ذمہ داریاں سنبھالیں مگر وہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ آج بھی جب اس نے بچوں سے اس سلسلہ میں بات کی تو اس کا اپنا بیٹا کاشان آڑے آگیا تھا۔
ابا جان! یہ لوگ اب ہائی کلاسز میں پہنچ چکے ہیں، پڑھائی کا بوجھ ہی اتنا زیادہ ہے کہ انہیں کوئی اور ذمہ داری دینا ظلم ہے ابا جان‘’
اور وہ اپنے دل پر ایک نیا زخم لیے ظہر کی اذان دینے مسجد چلا آیا۔
بہو اور بیٹے کو اپنی اپنی ملازمت کی مصروفیات سے فرصت ہی نہ تھی کہ کبھی یہ بھی دیکھتے کہ کوئی زخم ایسا تو نہیں جو دیمک کی طرح اندر ہی اندر اسے چاٹ رہا ہے۔ کئی بار اندھیرے میں مسجد آتے جاتے پھسلا، گرا اور خود ہی سنبھل جاتا رہا تھا۔
اس وقت وہ چٹائی پر اپنی چادر کی بکل مارے بیٹھا نمازیوں کا انتظار کررہا تھا۔ یکایک اسے حلق میں کوئی چیز اٹکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ آہستہ آہستہ اٹھا کہ قریب پڑے جگ سے پانی لے سکے مگر دو قدم چلا تھا کہ گر پڑا۔
باہر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔
’دادا ابو! دادا ابو ! لو یہ تو یہاں آرام کر رہے ہیں۔۔۔۔‘ حامد دوڑتا ہوا آیا اور دادا کے قریب بیٹھ گیا۔
“اذان جو آدھا گھنٹہ پہلے دے دی ہے تو سوچا ہوگا نمازیوں کے آنے تک آرام ہی کر لیا جائے۔۔۔‘
اسی اثنا میں احمد بھی قریب پہنچ چکا تھا۔
’چلو خیر! ابھی فی الحال تو انہیں جگانا ہے، ابو انتظار کر رہے ہیں‘۔ حامد نے آہستہ سے دادا کا بازو پکڑا اور ہلانے لگا۔
یہ بھی پڑھیے
ایثار اور حکمت ( حکایت ہجویری)
’دادا ابو ! چلیے ہمارے ساتھ آپ کو معلوم نہیں آج فادر ڈے ہے اور ابو نے اپنے آفس میں ہونے والے ایک بڑے فنکشن میں آپ کو لے کر جانا ہے۔ لاکھوں کا انعام ابو کا ہو سکتا ہے دادا ابو آپ کو پتہ ہے‘۔ best son کا ایوارڈ ابو کو مل سکتا ہے۔ اٹھیے ۔۔۔ اٹھیے نا ۔۔۔
۔۔۔۔ دادا ابو! دادا ابو! میں آگیا میں آپ کے نقشِ قدم پر چلوں گا دادا ابو اٹھیے دیکھیے ۔۔۔۔۔ اور یقیناً آج آپ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوں گے‘۔
ارسلان تیز تیز قدم اٹھاتا مسجد کے ہال میں داخل ہوا۔
’واؤ تم تو نئی ٹوپی، نیا سوٹ پہن آئے‘ حامد نے ارسلان کو چھیڑتے ہوئے کہا‘۔
’حامد بھیا ! میں اب باقاعدگی سے مسجد آیا کروں گا، میں دادا ابو کی روایت کو آگے بڑھاؤں گا۔ بارش ہو، آندھی ہو، ہر حال میں مسجد آیا کروں گا بھیا ! آپ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر اذان پر صرف کمزور اور بوڑھے ہی مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ شرم آنی چاہیے ہمیں، کام تو ہمارا ہے نا کہ مسجد کی رونق بڑھائیں اور وہ باغ والی کہانی کو بھی مکمل کرنا ہے۔۔۔۔‘
ارسلان کی زبان پہ آنے والے ان فقروں کے پیچھے دادا ابو کی کئی برسوں سے پیار اور خلوص سے کی گئی محنت بول رہی تھی۔
او بڑے نمازی میاں ! فی الحال تو دادا ابو کو اٹھاؤ، ابو انتظار کر رہے ہوں گے آج فادر ڈے ہے پتہ ہے ناں۔۔۔۔‘ ’
‘ دادا ابو! ۔ ۔ دا ۔ ۔ اوئے ۔ ۔ ۔ ’
ارسلان نے دادا ابو کا بازو پکڑا مگر بات مکمل نہ کر سکا
’ک ۔ ۔ ۔ کیا ہوا؟؟؟‘ احمد اور حامد بوکھلا گئے
‘نبض بند ہے ان کی ۔ ۔ اور دل کی دھڑکن ۔ ۔ ۔ ’
ارسلان نے اپنا کان دادا کے سینے کے بائیں طرف رکھ دیا
’دادا ابو! دادا ابو!‘
ہمیں معاف کردیجیے۔ ہم سے بڑی بھول ہوئی ۔ ۔ ۔
کاش آپ کی نصیحت پہ کان دھرا ہوتا ۔ ۔ ۔‘’
”ارسلان ! دادا چھوڑ گئے ہمیں۔۔۔۔ چھوڑ گئے۔۔۔۔ چھ۔۔۔چھوڑ۔۔۔ گئے۔۔۔‘ حامد زیر لب دہرانے لگا۔
’کہاں چلے گئے دادا‘ ایک پل میں دادا کی گزشتہ جمعہ کے دن سنائی کہانی دماغ میں تازہ ہوگئی ۔۔۔
ایک بہت خوبصورت جگہ ہوگی جہاں سبزہ ہوگا، تتلیاں ہوں گی، رنگ ہوں گے، چاکلیٹ ہو گی، میدان ہوں گے، کھیل ہوں گے۔ اس جگہ کے اندر وہ جا سکے گا جو آج یہاں نماز کا پابند ہے۔۔۔۔۔ اسے یاد آنے لگا کہ وہ دادا سے وعدہ کرنے ہی والا تھا نماز کا، کہ مما نے بلا لیا تھا۔ پھر وہ اور احمد تو اٹھ گئے تھے مگر ارسلان بیٹھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے
’دادا! دادا! ۔۔۔ کہانی تو مکمل کر دیں۔۔۔۔۔۔اٹھیے نا‘۔۔۔ کہانی نامکمل رہ جانے کا غم ۔۔۔۔ اور دادا کے نورانی چہرے پہ سکون کا رنگ۔۔۔۔ حامد کے اندر کی دنیا میں ایک ہلچل پیدا ہونے لگی۔۔۔۔ اب وہ ایک فیصلہ کر چکا تھا۔۔۔۔
’احمد ! ہم جڑواں بھائی ہیں نا۔۔۔۔ جو میں کرتا ہوں وہی تم کرتے ہو اور جو تم کرتے ہو مجھے اپنے ساتھ پاتے ہو۔۔۔۔۔‘
’‘تو۔۔۔؟؟؟‘ احمد کا تجسس بڑھنے لگا۔۔۔
’تو یہ کہ آو مل کے اس باغ کو حاصل کرنے کی ٹھان لیں جس کا دادا ابو ذکر کرتے تھے۔ یہ دیکھو! ہم سے چھوٹا ہے مگر کہانی کا مطلب جان گیا۔ اب اسے دھن لگی ہے دادا کی کہانی کو مکمل کرنے کی۔۔۔۔۔۔۔‘
اور پھر دونوں مل کے ارسلان کو دادا سے الگ کرنے لگے۔۔۔۔۔
’ارسلان! پیارے ارسلان! دادا چلے گئے رواجوں، تہواروں
اور نفاق کی بڑی بڑی دیواروں میں گھری اس دنیا سے چلے گئے میرے بھائی‘!
بھیا۔ ۔ ۔ ‘ ارسلان حامد کے سینے سے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رودیا۔ یہ خلش تو عمر بھر میرے دل میں رہے گی کہ کاش! میں دادا کے چہرے پہ مسکراہٹ دیکھ سکتا۔ کاش! وہ پل دو پل کے لیے پلٹ آئیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ میں ان کی کہانی مکمل کرنے والا ہوں۔۔۔۔۔ نماز کے اہتمام کا تہیہ کر چکا ہوں ۔۔۔۔
’صرف تم نہیں ۔ ۔ ۔‘ حامد اور احمد ایک ساتھ بول اٹھے۔
’نمازی آنا شروع ہوگئے، آؤ ہم بھی اپنے الله کی پکار پہ لبیک کہیں اور پھر مسجد کمیٹی کو بھی مطلع کرنا ہے کہ مسجد کے تین عدد نئے موذن حاضر ہیں۔۔۔‘ حامد اور احمد دونوں کی آنکھوں میں ارادے کی چمک صاف دکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔
’اور بعد میں تجہیز و تکفین کا بندوبست بھی کرنا ہے ابو کے ساتھ مل کے۔ مجھے دادا نے اس موقع کے لیے جو دعائیں سکھائی تھیں، سب یاد ہیں۔‘ ارسلان نے دادا کے چہرے کو چومتے ہوئے کہا۔۔۔
’اب ہم تم سے سیکھیں گے‘ احمد اور حامد کی نگاہوں میں چھوٹے بھائی کے لیے پیار امڈ آیا۔