ان دنوں اسرائیلی اخبارات کے ڈیجیٹل ایڈیشنز کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہوں۔ اس کی وجہ محض یہ ہے کہ جان سکوں، غزہ میں اسرائیلی فوج اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے درمیان لڑائی کے بارے میں اسرائیلی قوم کیا سوچتی ہے؟ اور غزہ میں اسرائیلی فوج کو ہونے والا نقصان اسرائیلی اخبارات کس انداز میں پیش کرتے ہیں؟
مجھے اس آخری سوال کا جواب جاننے میں بھی دلچسپی ہے، حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ اسرائیلی فوج اپنی چار ہلاکتوں کو ایک ہلاکت بتائے گی۔ آخر حب الوطنی کے بھی کچھ ’تقاضے‘ ہوتے ہیں، عموماً یہی تقاضے سب سے پہلے سچ کو قتل کرتے ہیں۔ قوم کو سمجھایا جاتا ہے کہ حب الوطنی کے مقابل کھڑے ہونے والے سچ کو قتل کرنے سے ملک و قوم کا بھلا ہوگا، حالانکہ یہ ملک و قوم سے سب سے بڑی دشمنی ہوتی ہے۔
اسرائیل کی مملکت جس بنیاد’ ہولوکاسٹ‘ پر قائم ہوئی، وہ بھی سچ نہیں تھا، یا پھر کم از کم پورا سچ نہیں تھا۔ اگر یہ جھوٹ نہیں تھا تو مبالغہ ضرور تھا۔ اس کہانی اور اس کی تفصیلات کے بارے میں کوئی اختلاف کرے تو اسے ’یہود دشمن‘ قرار دے کر تہہ تیغ کردیا جاتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ جھوٹ کی بنیاد پر آخر کب تک دھندا چل سکتا ہے؟
اگلے روز ایک بڑے اسرائیلی اخبار’ دی ٹائمز آف اسرائیل‘ کی ایک خبر پرنظر پڑی۔ یہ خبر اہل یہود کے صیہونی طبقہ کے لیے پریشان کن، مایوس کن بلکہ لرزہ خیز تھی جبکہ دنیا کی دیگر اقوام کے لیے آنکھیں کھول دینے والی۔
خبر رائے عامہ کے ایک جائزے سے متعلق تھی جس میں بتایا گیا کہ امریکا میں ہر پانچ میں سے ایک نوجوان کا خیال ہے کہ ہولوکاسٹ حقیقت نہیں، محض افسانہ ہے۔ ’دی اکنامسٹ‘ اور ’یوگو‘ ( Economist/YouGov) کے زیر اہتمام اس جائزے میں یہ بھی بتایا گیا کہ 18-29 سال کی عمر کے ایک چوتھائی یعنی بیس فیصد سے زیادہ امریکی نوجوانوں کا خیال ہے کہ امریکا میں یہودیوں کو بہت زیادہ طاقت حاصل ہے۔ بہ الفاظ دیگر امریکی نوجوانوں کا یہ طبقہ یہودیوں کو اس قدر زیادہ طاقتور دیکھ کر فکرمند رہتا ہے۔
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ گیارہ دسمبر کو شائع ہونے والا رائے عامہ کا یہ جائزہ ماہ رواں دسمبر کے ابتدائی ایام میں لیا گیا۔ اس کا مقصود محض یہ جاننا تھا کہ امریکا کی نوجوان نسل اسرائیل، یہودیوں اور ہولو کاسٹ کے بارے میں کیا خیالات رکھتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق باقی ماندہ میں سے تیس فیصد نوجوان بھی ہولو کاسٹ کو حقیقت ماننے سے کتراتے ہیں اگرچہ وہ کوئی واضح رائے رکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ خبر میں ان نوجوانوں کی شرح نہیں بتائی گئی جو ہولوکاسٹ کی کہانی کو ’سچا‘ مانتے ہیں۔ خبر کے مطابق تئیس فیصد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہولوکاسٹ کا قصہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ باقی ماندہ میں سے چھبیس فیصد کو واضح طور پر اندازہ نہیں ہے کہ ہولوکاسٹ میں کتنا سچ ہے اور کتنا فسانہ۔
یہ خبر اسرائیل کے صیہونی طبقہ کے لیے پریشان کن اور مایوس کن اس لیے ہے کہ وہ اب تک ہولو کاسٹ کی کہانی بیچ کر، اپنے آپ کو تاریخ کی سب سے مظلوم قوم بتا کر دنیا بھر سے اپنے لیے ہمدردی وصول کرتے تھے۔ یہ ہمدردی گزرتے وقت کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔ حتی کہ امریکا میں بھی ہولو کاسٹ کو جھوٹی کہانی سمجھنے والوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ ورنہ اب تک امریکا میں بھی ہولو کاسٹ کو ’مقدس‘ نظریہ سمجھا جاتا رہا، اس واقعہ کو اسی انداز میں درست مانا جاتا رہا جیسا کہ صیہونی بیان کرتے تھے۔
ہولوکاسٹ کیا ہے؟ کتنے یہودی مارے گئے؟ اس پر اختلاف موجود ہے۔ لوگ ریاضی کے علم کی بنیاد پر ہولو کاسٹ کو جھوٹ یا پھر بہت زیادہ مبالغہ آمیز قصہ ثابت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود صہیونیوں کی ضد ہے کہ اس واقعے کو بعینہ اسی طرح مانا جائے جس طرح وہ بیان کرتے ہیں۔اوراس بیان سے اختلاف’جرم‘ ہے۔
ہولو کاسٹ کی اس کہانی نے صیہونی طبقہ کو اس قدر ’تقدس‘ فراہم کیا کہ مغرب کی ساری اقوام اس طبقہ کی حمایت پر مجبور ہوگئیں۔ لیکن جھوٹ آخر کتنی دیر فروخت ہوسکتا ہے، چنانچہ اب اقوام مغرب میں اس قصے یا اس بیانیے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
دراصل سچ کے نام پر جھوٹے بیانیے زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ پہلے پہل لوگ مان لیتے ہیں لیکن پھر وہ غور و فکر کرتے ہیں، مختلف بنیادوں پر بیانیہ کو پرکھنا شروع کرتے ہیں، پھر سوالات اٹھانا شروع کرتے ہیں۔ پھر ایک دن پورا بیانیہ ہی بھک سے اڑ جاتا ہے۔
ایک بیانیہ ہمارے ہاں بھی سولہ دسمبر انیس سو اکہتر سے آج تک، چلایا جا رہا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار شیخ مجیب الرحمن تھے، وہ بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا کر مغربی پاکستان سے الگ ہوگئے۔
اب نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد ان لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جو درسی کتابوں میں پڑھائے جانے والے اس ’ مقدس بیانیے‘ کے علاوہ بھی بہت کچھ پڑھ رہے ہیں۔ اس وسیع مطالعے نے لوگوں کو بتایا کہ یہ پاکستان کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان ہی تھے جنھوں نے انیس سو باسٹھ میں مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
جنرل محمد ایوب خان کے وزیر قانون جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب ’فرام جناح ٹو ضیاء‘ میں لکھا ہے کہ 1962ء میں وزیر قانون بنانے کے بعد جنرل ایوب خان نے انھیں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک بنگالی وزیر رمیض الدین کے پاس بھیجا۔ ’میں نے انہیں کہا کہ آپ ہم سے علیحدگی اختیار کرلیں یا کنفیڈریشن بنا لیں‘۔ رمیض الدین نے جواب میں کہا’ہم اکثریت میں ہیں، آپ اقلیت ہیں، اگر آپ علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو ہو جائیں لیکن اصل پاکستان تو ہم ہیں‘۔
اس کے بعد جنرل ایوب خان نے مشرقی پاکستان والوں کے ساتھ جو سلوک کیا، اس سے ساری دنیا بخوبی واقف ہے۔ جو نہیں جانتے تھے، وہ بھی اب جان رہے ہیں کیونکہ زیادہ دیر تک حب الوطنی کا غلاف چڑھا کر جھوٹ نہیں بیچا جاسکتا۔
امریکی بھی اپنے سرکاری جھوٹ پچیس برس بعد ڈی کلاسیفائی کرتے ہیں، ہم پچاس سال بعد بھی نہیں کرتے۔ تاوقتیکہ قوم خود ہی سچ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہے۔
سچ کی اسی تلاش نے پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت کو آگاہ کردیا ہے کہ ایک بڑی سازش کرکے مشرقی پاکستان والوں کو دھکے مار مار کر گھر سے نکالا گیا تھا، پھرعلیحدگی کا سارا الزام بھی انھی کے سر ڈال دیا گیا۔ حالانکہ شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ساتھیوں کے ذہن میں علیحدگی کا خیال تک نہ تھا۔
انیس سو انہتر میں مغربی پاکستان کے معروف صحافی الطاف حسن قریشی نے شیخ مجیب الرحمٰن کا انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو قریشی صاحب کی کتاب ’ملاقاتیں کیا کیا‘ میں موجود ہے۔
الطاف حسن قریشی نے شیخ مجیب الرحمن سے پوچھا کہ موجودہ بحران کا حل کیا ہے؟
مجیب نے جواب میں کہا کہ 1956ء کا آئین بحال کر دیں۔
قریشی صاحب نے کہا کہ چھ نکات تو کچھ اور ہی کہتے ہیں۔
شیخ مجیب الرحمن نے جواب دیا کہ چھ نکات قرآن اور بائبل نہیں، ان پر نظر ثانی ہو سکتی ہے۔
پھر شیخ مجیب نے الطاف حسن قریشی سے وہی بات کہی جو رمیض الدین نے ایوب خان کے وزیر قانون جسٹس منیر سے کہی تھی کہ’ہماری آبادی 56 فیصد ہے، مغربی پاکستان علیحدگی کا تصور کر سکتا ہے، ہم نہیں کر سکتے۔ وہ حصہ اگر الگ ہونا چاہتا ہے تو ہو جائے‘۔
ایک بار پھر یاد رہے کہ شیخ مجیب الرحمن کا یہ انٹرویو سانحہ مشرقی پاکستان سے محض دو برس پہلے کا ہے۔ ایوب خان اور ان کے جانشین کی لاکھ کوشش کے باوجود مشرقی پاکستان والے الگ ہونے کو تیار نہ تھے۔ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے قائم کردہ پاکستان میں پورے جوش و جذبہ کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان والے مغربی پاکستان والوں کے ساتھ مل جل کر رہتے تو مغربی پاکستان کے جرنیلوں، بیوروکریٹوں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے چراغ کیسے جلتے؟
ویسے اگر پاکستان میں ایک صاف و شفاف سروے میں، اٹھارہ سے انتیس برس کے نوجوانوں سے پوچھ لیا جائے کہ مشرقی پاکستان کے علیحدگی کے ذمہ دار کون تھے؟ ان کا جواب ہمارے ہاں اب تک فروخت ہونے والے بیانیہ کو بھک سے اڑا دے گا۔ بہتر یہی ہے کہ دھماکہ ہونے سے پہلے سچ کو مکمل طور پر ڈی کلاسیفائی کردیا جائے، اس تناظر میں جرائم کا ارتکاب کرنے والے سرکاری سطح پر محض معافی ہی نہیں مانگیں بلکہ تلافی بھی کریں۔
(بادبان ، عبید اللہ عابد)