حامد میر
القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن نے امریکا اور ’’دہشت گردوں‘‘ کے درمیان مذاکرات کی 20؍ سال پہلے ہی پیشگوئی کردی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ 2019ء امریکا اور افغان طالبان کے درمیان کوئی پیش رفت لائے گا؟ 2018ء کے آخری ماہ میں افغانستان میں امن کے لئے امید کی کرن پیدا ہوئی یہ امید کی کرن 2019ء میں مشعل ر اہ بن سکتی ہے۔
اگر افغان طالبان سال نو پر سعودی عرب میں ہونے والے براہ راست امن مذاکرات کے دوسرے رائونڈ میں کوئی پیش رفت کرتے ہیں۔ امریکی حکام اپنی سی بہترین کوشش کررہے ہیں کہ کابل حکومت کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔ لیکن طالبان اس پر آمادہ نہیں۔ دہائی قبل یہ تصور تک نہ تھا کہ امریکا افغان طالبان سے مذاکرات کرے گا لیکن امریکی حکام اب طالبان سے مذاکرات پر آمادہ ہی نہیں بلکہ کچھ امریکی اور مغربی ماہرین القاعدہ کو بھی امن مذاکرات میں شامل کرنے پر آمادہ ہیں۔ اب سعودی عرب میں مذاکرات کے نتیجے میں کچھ مزید طالبان رہنمائوں کی رہائی عمل میں آسکتی ہے۔ کابل انتظامیہ سے بات چیت کے لئے طالبان کا رویہ لچک دار نہیں ہے۔
دوسری جانب صدر اشرف غنی نے امراللہ صالح کو افغانستان کا وزیر داخلہ بنادیا ہےجو طالبان سے مذاکرات کے مخالف ہیں۔ صورتحال گو کہ مشکل ہے لیکن تمام اسٹیک ہولڈرز ڈائیلاگ جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔
بیس سال قبل میں قندھار میں اسامہ بن لادن کےساتھ بیٹھا تھا۔ ان سے امریکیوں کے قتل کا فتویٰ جاری کرنے پر بحث ہورہی تھی۔ یہ فتویٰ 1998 میں ایک عربی روزنامے میں شائع ہوا تھا جس پر اسامہ بن لادن اور کچھ دیگر جہادی رہنمائوں کے دستخط تھے۔ یہ فتویٰ دنیا بھر میں موضوع بحث بن گیا میں نے افغانستان پہنچ کر القاعدہ رہنما کا انٹرویو کیا۔ میں نے ان سے سادہ سا سوال کیا کہ آپ قرآن کی روشنی میں بے گناہ غیر مسلموں کے قتل کا حکم کیسے جاری کرسکتے ہیں؟ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا جواز دینے میں ناکام رہے اور اسرائیلیوں کے لئے امریکی حمایت کی بات کرنا شروع کردی۔ انہوں نے کہا امریکی فلسطینیوں پر ا سرا ئیلی مظالم کیوں نہیں رکواتے میں نے ان سے کہا فلسطین ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طور پر ہی حل کیا جاسکتا ہے، آپ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں میں مذاکرات کی حمایت کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے غصے سے میری تجویز مسترد کردی اور کہا کہ انہوں نے مذاکرات کے نام پر عربوں کو ہمیشہ دھوکہ ہی دیا۔
انہوں نے میرے کچھ سخت سوالات کو برداشت کیا لیکن ان کے طویل جوابات دیئے۔ 5؍ گھنٹے بعد میری آڈیو کیسٹس ختم ہوئیں اور انہیں بتایا کہ پورا انٹرویو (گفتگو) ایک اخباری انٹرویو میں سمویا نہیں جاسکتا لیکن کتابی شکل دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اپنی سوانح پر مبنی کتاب کے لئے مزید مواد دینے کا وعدہ کیا۔ 1998ء میں اسامہ بن لادن دنیا کے مطلوب ترین شخص نہیں تھے اور کئی مغربی ناشر ان کی سوانح کی اشاعت پر آمادہ تھے۔
اس انٹرویو کے کچھ ہی دنوں بعد کینیا اور تنزانیہ کے امریکی سفارتخانوں پر بموں سے حملے ہوئے۔ ہر ایک کا شک القاعدہ پر گیا۔ میرا ان سے رابطہ ٹوٹ گیا اور کتاب میں تاخیر ہوگئی۔ سانحہ 9/11 کے بعد میں اپنی زندگی کا خطرہ مول لیتے ہوئے امریکی فضائی بمباری کے عین درمیان افغانستان گیا۔ اکتوبر 2001ء میں تیسری بار اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا یہ انٹرویو ڈان میں شائع ہوا۔ یہ ان کا کسی صحافی کو دیا گیا آخری انٹرویو تھا۔ اب وہ دنیا کو کیمیائی اور ایٹمی حملوں کی دھمکیاں دینے و الے انتہائی مطلوب ترین شخص تھے۔ لیکن اس کے باوجود اپنے آخری انٹرویو میں سمجھوتے کا بھی پیغام دیا۔
انہوں نے کہا میں امریکی عوام سے کہتا ہوں کہ وہ مسلم دشمن پالیسیاں ختم کرنے کے لئے اپنی حکومت پر دبائو ڈالیں جیسا کہ انہوں نے و یت نام جنگ کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا ’’جیو اور جینے دو‘‘ تنازع کے سیاسی حل کے جواب میں انہوں نے اس کے امکان کو کبھی رد نہیں کیا۔ واضح رہے کہ انہوں نے 1998ء کے انٹرویو میں سیاسی حل کی مخالفت کی تھی ۔
انٹرویو ختم ہونے کے بعد اسامہ نے کتاب کے بارے میں استفسار کیا میں نے انہیں بتایا اس میں مزید وقت لگے گا کیونکہ میری تمام دعوئوں کے بارے میں اپنی ریسرچ اور انوسٹی گیشن جاری ہے۔ اسامہ بن لادن نے ہنسنا شروع کردیا۔ انہوں نے کہا امریکی ہمیں دہشتگرد کہتے ہیں اور تمہاری حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ان کی حامی ہے۔ میرے الفاظ یاد رکھو، امریکیوں کو یہاں خفت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہیں شکست ہوگی اور وہ دہشت گردو ں سے مذاکرات پر آمادہ ہوں گے۔
القاعدہ اور طالبان سے مذاکرات کے امکان پر اسامہ بن لادن کے انٹرویو نے مغرب میں بحث چھیڑ دی۔ ہارورڈ سے برکلے تک متعدد امریکی جامعات نے مجھے مدعو کیا اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے مذاکرات کے امکان کو قطعی مسترد کردیا۔ امریکی جامعات کے اساتذہ اور طلبا کو دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے امکان میں بھی بڑی دلچسپی تھی۔ میں نے ہمیشہ انہیں بتایا جب اسرائیلی ایک دہشتگرد یاسرعرفات سے بات کرسکتے ہیں۔ اگر جنوبی افریقا کی نسل پرست سفید فام حکومت سیاہ فام دہشت گرد نیلسن منڈیلا سے مذاکرات کرسکتی ہے۔ امریکی حکومت بھی کم از کم افغان طالبان سے ڈائیلاگ کرسکتی ہے جن کا کوئی عالمی جہادی ایجنڈا نہیں ہے۔
سن 2006ء میں اسامہ بن لادن نے الجزیرہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ آڈیو پیغام جاری کیا جس میں پہلی بار واضح طور پر امریکا کو سمجھوتے کی پیشکش کی گئی انہوں نے اپنی اس پیشکش کو عراق سے امریکی فوجی انخلا سے مشروط کیا۔ امریکیوں نے اس پیشکش کو مسترد کردیا لیکن سیکورٹی ماہرین نے امریکا اور برطانیہ کو القاعدہ اور طالبان دونوں سے بات چیت کی تجویز دی۔
ایم آئی، فائیو کی سابق سربراہ بیرونیس الیزامیننگھم بلر نے کہا امریکیوں کو القاعدہ سے بات کرنی چاہئے۔ اسرائیل اور یاسر عرفات میں رابطہ کرانے والے ناروے کے سابق اقوام متحدہ میں افسر جان ایجی لینڈ نے بھی مذاکرات عمل کی حمایت کی۔ بالآخر سابق صدر اوباما کے دور میں طالبان کےساتھ امن مذاکرات کی ابتدا ہوئی۔ انہوں نے 2013ء میں طالبان کو قطر میں اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دی۔ آئرش ری پبلک آرمی سے برطانوی مذاکرات کار نے بھی بات چیت کے عمل کی حمایت کی۔ 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان سے مذاکرات کے لئے زلمے خلیل زاد کو نامزد کیا۔ زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان سے مذاکرات کا اہتمام کرنے کی پاکستانی حکومت سے درخواست کی ۔
خلیل زاد کی مدد کے لئے پاکستان نے اپنی بہترین کوشش کی جو امریکی حکومت میں پاکستان کے بڑے نقاد ہیں۔ پاکستان نے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیا۔ کوئی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ اشرف غنی کی کابل انتظامیہ سے زیادہ افغانستان میں طالبان کا اثر و رسوخ ہے۔ امریکی حکام اور طالبان کے درمیان دسمبر 2018ء کے وسط میں متحدہ عرب امارات میں مذاکرات ہوئے۔ جس میں پاکستانی اور سعودی حکام بھی موجود رہے۔ بات چیت قطر کے بجائے امارات میں ہوئی کیونکہ امریکا نہیں چاہتا کہ طالبان پر کوئی بالواسطہ ایرانی دبائو پڑے۔
اس وقت افغان طالبان ایران کے بہت قریب ہیں ان کے خیال میں امریکی ان کے مقابلے میں داعش کی سپورٹ کررہے ہیں۔ داعش کے خطرے نے ایران کو طالبان کے قریب کردیا۔ دوسری جانب روس بھی ایران کے ذریعہ طالبان کی پرورش کررہا ہے صدر ٹرمپ نے طالبان سے براہ راست مذاکرات کی اجازت دے دی ہے۔ امارات میں طالبان امریکا مذاکرات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی۔ طالبان نے اشرف غنی انتظامیہ کےساتھ بات چیت سے انکار کر رکھا ہے۔ طالبان کا مطالبہ ہے کہ ان کے رہنمائوں کو بلیک لسٹ سے خارج کیا جائے۔
طالبان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ حملہ آوروں سے بات کررہے ہیں تاکہ انہیں افغانستان سےنکال باہر کیا جائے۔ صدر ٹرمپ 2019ء میں طالبان سے سمجھوتے کے لئے بے تاب ہیں لیکن ان کے فوجی مشیروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے مکمل امریکی انخلا نئے بحران کوجنم دے گا۔ اب امریکی حکام اور طالبان نمائندوں کی آئندہ ملاقات جنوری میں سعودی عرب میں ہوگی۔ درحقیقت امریکی افغانستان میں امن چاہتے ہیں تاکہ خطے میں ایرانی اثر و نفوذ کو روکا جاسکے۔ مذاکرات میں القاعدہ کی شمولیت سعودی عرب کی ضرورت ہے لیکن یہ کام وہ خاموشی سے کرنا چاہتے ہیں۔ چین بھی امریکا طالبان مذاکرات میں مدد دے رہا ہے۔ اسے یغور مسلمانوں میں عدم اطمینان پر تشویش ہے جو عرصہ ہوا القاعدہ سے رابطوں میں ہیں۔
افغانستان سے امریکی انخلا روس کے لئے خاموش انتقام ہوگا۔ 30؍ سال قبل افغانستان سے روسی انخلا پاکستانی امریکی اور افغان مزاحمتی قوتوں کی فتح تصور کی گئی تھی۔ اب روسی طالبان کو استعمال کرتے ہوئے امریکیوں کی شکست کے خواہاں ہیں۔ تمام علاقائی طاقتوں کو سمجھنا ہوگا کہ افغانستان میں امن سب کی کامیابی ہوگی جس کے نتیجے میں دہلی سے پشاور، وہاں سے کابل اور کابل سے ماسکو تک ریل کے ذریعہ رابطہ ہوجائے گا۔ اس سے جنوبی اور وسط ایشیا استفادہ کرے گا۔ کشمیر اور فلسطین کے تنازعات حل کی کوششوں کو جلا ملے گی۔ اس سے ایک نئے اسامہ بن لادن کے جنم کو بھی روکا جاسکتا ہے یہاں امن سمجھوتہ پوری دنیا کے لئے رول ماڈل ہوگا۔