فرانسیسی میگزین کی سابقہ صحافی مراکشی نژاد زینب الغزوئی سے اسرائیل پر تنقید کے جرم میں’سیمون ویل پرائز‘ واپس لے لیا گیا۔
فرانس کے میگزین ’چارلی ہیبڈو‘ کی سابق صحافی، مراکشی نژاد فرانسیسی زینب الغزوئی نے غزہ میں اسرائیل کی حالیہ جارحیت اور ہولوکاسٹ کو یکساں قرار دینے والی ایک ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا جس کے بعد انھیں ’سیمون ویل پرائز‘ سے محروم کردیا گیا۔
صحافی اور نوبل انعام کی سابقہ امیدوار نے ’سیمون ویل پرائز‘ کی منسوخی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئےلکھا ’میں آپ کو آپ کا سیمون ویل پرائز واپس کر دوں گی کیونکہ یہ خون سے داغدار ہو گیا ہے‘۔
ایک صحافی بینجمن روبینسٹائن نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ لکھی جس میں غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کا نازی جرمنی کے ہولوکاسٹ سے موازنہ کیا گیا تھا۔ زینب الغزوئی نے اس پوسٹ کو بغیر کوئی تبصرہ کیے ری پوسٹ کردیا۔ اس کے فوراً بعد زینب الغزوئی پر تنقید شروع ہوگئی۔
یاد رہے کہ ’سیمون ویل پرائز‘ ہر سال ایسی خاتون کو دیا جاتا ہے جو فیمینزم کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیتی ہے۔ زینب الغزوئی کو یہ انعام سن دو ہزار انیس میں ملا تھا۔ انھوں نے ایوارڈ سے محروم کردئیے جانے کے بعد ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مزید لکھا:
’میں نے سیمون ویل سے یہ سبق سیکھا ہے کہ انسانیت پرستی ہمیشہ قبائلیت یا سیاست پر مقدم ہوتی ہے۔ اگر سیمون ویل پرائز کا مطلب نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے بین الاقوامی سطح پر مجرمانہ اقدامات کے خلاف خاموش رہنا ہے، تو مجھے بہت خوشی ہوگی کہ میں یہ پرائز واپس کروں۔‘
دلچسپ امر یہ ہے کہ زینب الغزوئی نے ماضی میں اسلام اور اسلامی تحریکات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ تب ان کے بیانات کی خوب ستائش کی گئی۔ تاہم جیسے ہی انھوں نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی، ان کی اسلام مخالف سابقہ ’خدمات‘ کو یکسر بھلا دیا گیا۔ ایوارڈ کمیٹی کے منتظمین کے اس دوہرے معیار پرلوگوں کی بڑی تعداد نے حیرت کا اظہار کیا اور اسے آزادی اظہار کے منافی قرار دیا۔