پاکستان میں جہاں بہت سے مسائل ہیں، وہاں ایک اہم مسئلہ گھریلو تشدد کا بھی ہے جس سے نہ صرف انفرادی طور پر لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ اجتماعی سطح یعنی معاشرے پر بھی اس کے انتہائی مضراثرات مرتب ہوتے ہیں۔
گھریلو تشدد کیا ہے؟ یہ کیوں جنم لیتا ہے؟
جاہلیت، تعلیم کا فقدان، کم عمری کی شادی، غربت و افلاس اس کے بنیادی محرکات ہیں۔
پاکستان میں مختلف ادوار میں خواتین کے حوالے سے پیش ہونے والے بلوں میں یہ وضاحت کی گئی کہ گھریلو تشدد محض مار پیٹ کا نام ہی نہیں ہے بلکہ یہ کسی بھی انسان کو جسمانی اور ذہنی تکلیف میں مبتلا کرنے کا نام ہے۔ عورتوں، بچوں یا دیگر کمزور افراد کے خلاف جسمانی یا نفسیاتی زیادتی تشدد کے زمرے میں آتی ہے۔ ایسے لوگ جو حملے کی کوشش کرتے ہیں، مجرمانہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں، دھمکی دیتے ہیں، جذباتی، نفسیاتی اور زبانی زیادتی کرتے ہیں، ہراساں کرتے ہیں، پیچھا کرتے ہیں، جنسی استحصال کرتے ہیں، جسمانی استحصال کرتے ہیں، معاشی استحصال کا باعث بنتے ہیں، یہ سب کچھ تشدد کے ضمن میں ہی آتا ہے۔
گھریلو تشدد ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔ پاکستان میں دس سے بیس فیصد خواتین کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے نتیجے میں ہر سال قریباً پانچ ہزار خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں اور ہزاروں زخمی یا معذور ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔
پاکستان میں دراصل ایسے جرائم پر سزا دینا رائج نہیں ورنہ کسی میں اتنا دم خم نہ ہو کہ خواتین کو یوں اپنی انا کی بھیٹ چڑھائے یا پھر اپنی انا کی تسکین کے لیے اسے ذہنی اور جسمانی ایذا دے۔ ایسا طرز عمل اپنانے والے یقیناً ذہنی طور پر پسماندہ ہوتے ہیں۔ متعدد نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ اپنے نفس کی تسکین کے لیے دوسروں کی ہتک کر کے، انہیں مارپیٹ کر یا تکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو گھریلو تشدد کے حوالے سے دنیا کے بدترین ممالک سمجھے جاتے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ اس کی بڑی وجہ جاہلیت ہے۔ ناخواندگی کی وجہ سے جہاں لوگ عجیب رویوں کا شکار ہیں، وہیں عورت کو اپنی وراثت سمجھنے اور اس کو پاؤں کی جوتی کا درجہ دینے کے رویے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں اتنا زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود بھی کم عقل اور ان پڑھ افراد عورت کو عزت کے مرتبے پر فائز کرنے کو تیار نہیں۔
دیہاتوں اور کہیں کہیں شہروں میں آج بھی بیٹی کی پیدائش معیوب سمجھی جاتی ہے۔ آج بھی لوگوں کے منہ سے ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں جو دعا کے نام پر کھلم کھلا جاہلیت کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ ہمارے دیہاتوں میں آج بھی ایسی عورت کو جو ماں بننے والی ہو، یہ دعا دی جاتی ہے کہ اللہ پاک تمھیں اچھی چیز سـے نوازے، یا تمھیں سات بیٹوں کی ماں بنائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بیٹا اچھی چیز ہے تو بیٹی کیا ہے؟؟؟
ایک طرف تو ہمارا معاشرہ مسلمان ہونے کا دعوے دار ہے تو دوسری طرف بیٹی کے وجود کو طعنہ بنا دیا گیا ہے۔ ہندوانہ ذہنیت کے حامل یہی لوگ عورتوں کے استحصال کا باعث بنتے ہیں۔ ان کی یہی گری ہوئی سوچ معاشرے کو اپنے پیروں پر کھٹرا نہیں ہونے دیتی۔ اسی سوچ کے تحت پروان چڑھنے والے مرد حضرات اُسی ذہنی پستی کا شکار رہتے ہیں جن کا عملی مظاہرہ ان کے بڑوں نے کیا ہوتا ہے۔
یہ لوگ عورت پر ہاتھ اُٹھانا مردانگی سمجھتے ہیں۔ گالی گلوچ اور بدزبانی ان کا پسندیدہ فعل ہوتا ہے۔ ایسے ذہنی پسماندگی کے شکار افراد دوستوں کے درمیان بیٹھ کر گھر کی عورت کی تذلیل کے قصے بیان کرتے ہیں اور اسے اپنے لیے قابل فخر سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے والے حکام گھریلو تشدد کو جُرم کے طور پر نہیں دیکھتے، مزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس ضمن میں لائے جانے والے کسی بھی کیس کو عموماً درج کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کے لیے پناہ گاہوں کی کمی ہے۔ جو پناہ گاہیں موجود ہیں، وہ ایسی نہیں ہیں کہ وہاں عورتیں مجبوری کے عالم میں پناہ لے سکیں۔ ان کے بارے میں ایسی عجیب و غریب باتیں پھیلی ہوئی ہیں کہ خواتین ان پناہ گاہوں میں جانے سے ڈرتی ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے ہی گھر میں مار پیٹ برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، وہ ایسے رویے سہنے پر مجبور کر دی جاتی ہیں جو انہیں جیتے جی مار دیتے ہیں۔
پاکستان میں مختلف ادوار میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بل سامنے لائے گئے جن کی رو سے خواتین پر ہونے والے تشدد کی بییخ کنی کے لیے اقدامات کیے گئے مگر ان کے خاطر خواہ نتائج کبھی برآمد نہیں ہوئے۔ اس کی بنیادی وجہ سزا کا تصور نہ ہونا ہے۔ ہمارے ہاں کسی بھی جُرم کی روک تھام اسی لئے ممکن نہیں کہ اس جُرم کے شخص کو کسی بااثر شخص کی سفارش پر یا پھر رشوت کی بھاری رقم دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جن معاشروں میں انصاف نہ ہو وہاں جُرم لوگوں کی عادت بن جاتا ہے۔
گھریلو تشدد کی ہی ایک انتہائی شکل غیرت کے نام پر قتل ہے جہاں کسی بھی بے بنیاد بات پر گھر کے مرد کی غیرت جاگ اُٹھتی ہے، پھراس کی تسکین عورت کے قتل سے ہی ہوتی ہے جسے غیرت کے نام پر قتل قرار دے کر اپنی غیرت کو زندہ رکھنے کا کام کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہم اُس معاشرے کے باسی ہیں جہاں عورت کی عزت و تکریم سکھائی ہی نہیں جاتی، ہم جس مذہب کے پیروکار ہیں اس مذہب نے تو عورت کو ایسا مقام عطا فرمایا ہے جو آج تک کوئی نہ دے سکا۔ مگر ہم مسلمانیت کے دعوے دار لوگ عورت کو عزت نہ دے سکے۔ اس سے بڑا دکُھ کیا ہو گا کہ ایک ماں جو خود عورت ہے اپنے بیٹے کو عورت کا احترام نہیں سکھاتی ۔
پاکستان میں شادی شدہ خواتین میں سے پچاس فیصد خواتین کو جنسی تشدد کا سامنا ہے اور نوے فیصد کو نفسیاتی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھریلو تشدد کی یہ شرح دیہاتوں میں زیادہ ملتی ہے۔
وقت جتنا بھی ترقی کر لے مگر آج بھی خواتین کے حوالے سے معاشرے کی سوچ بدلی ہے اور نہ ہی اس کے بدلنے کے امکانات ہیں۔ تشدد خواہ کسی بھی قسم کا ہو، بدترین ہے اور بدترین ہی رہے گا۔ نہ کوئی مہذب معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے اورنہ دے گا۔ تشدد انسانی حقوق، آزادی اور سماجی برابری کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اسے روکنے کے لیے معاشرے کے ہر حصے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔