کہتے ہیں ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے مگر یہ کہنے سننے کی حد تک درست لگتا ہے ورنہ کشمیر و فلسطین میں آج تک ظلم ہی ظلم دیکھنے کو ملا ہے، نہ ہی یہ مٹ پایا ہے اور نہ ہی اس کے مٹنے کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
یہ وہ ظلم ہے جو دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ظالم کی بربریت میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے جنون کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ نہ یہ ظلم کشمیر میں ختم ہوتا ہے اور نہ ہی فلسطین میں۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل کی بد ترین دہشت گردی نے نہتے فلسطینیوں پر ظلم وستم کی وہ داستانیں رقم کی ہیں جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مظلوم فلسطینیوں کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہیں۔
مُسلم اُمہ صرف ساتھ کھڑے رہنے کے بیانات سے آگے نہیں بڑھ پا رہی ہے۔ مغرب فلسطینیوں کے قتل عام پر چپ سادھے کھڑا ہے۔ وہ مغرب جو دنیا میں کسی بھی جگہ محض ایک کُتے کی تکلیف پر سراپا احتجاج بن جاتا ہے، آج ہزاروں فلسطینیوں کے بے دریغ قتل پر خاموش ہے۔
فلسطینیوں کی چیخ پکار اور آہ و زاریا ں سننے والا کوئی نہیں۔ جنگ کے عالمی قوانین اور جنیوا کنونشن کہیں ردی کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ مسلسل بمباری سے فلسطین قبرستان بن چکا ہے۔ نہ ہسپتال محفوظ ہیں نہ پناہ گاہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے پر وقتی طور پرعمل درآمد ہوا مگر اس دوران اسرائیل مسلسل بہانے ڈھونڈتا رہا کہ وہ باقی ماندہ فلسطین کو بھی ملبے کا ڈھیر بنادے، اس کی پوری کوشش رہی کہ کوئی ایک فلسطینی بھی زندہ نہ بچ پائے۔
اسرائیل اپنی ڈھٹائی پر ڈٹاہواہے۔اسرائیل کے منہ فلسطینیوں کا خون لگ چکا ہے اس کے ہا تھ روکنے والا کوئی نہیں ۔ تما م مغربی ممالک اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں جب کہ اُمت مُسلمہ چُپ سادھے بُت بنے کھڑی ہے۔
مسلمان ممالک کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہ تمام ممالک کبھی متحد ہو کر ایک پیج پر نہیں آپائے۔
اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے جب کہ فلسطینی مشرقی بیت المقد س کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں جس کے مستقبل میں قیام کے لیے وہ پُرامید ہیں۔
گزشتہ پچاس برسوں میں اسرائیل نے غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں بستیاں تعمیر کیں اور وہاں یہودیوں کی آباد کاری کی۔ ان بستیوں میں تقریباً سات لاکھ یہودی آباد کیے گئے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ بستیاں غیر قانونی ہیں مگر اسرائیل اس بات کو مسترد کرتا ہے۔
اسرائیل نے 1967 کی جنگ بندی میں غزہ پر قبضہ کیا تھا، وہ 2005 تک اس پر قابض رہا۔ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے اپنے فوجیوں اور آباد کاروں کو واپس بلا لیا تاہم اس نے اس کی فضائی حدود، مشترکہ سرحد اور ساحل پر کنٹرول برقرار رکھا۔ اقوام متحدہ اب بھی اس علاقے کو اسرائیل کے زیر قبضہ سمجھتی ہے۔
غزہ پر قائم حماس کی حکومت اسرائیل کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہے۔ حماس جو کہ 2006 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدار آئی، اس نے فتح کے اگلے ہی سال صدر محمود عباس کی جماعت ’فتح‘ کو اس کی سازشوں کے سبب بے دخل کر کے غزہ پر کنٹرول حاصل کیا تھا، اس کے بعد فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل سے کئی محاذوں پر لڑائیاں لڑیں۔
یہ سال مقبوضہ غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کے لیے سب سے مہلک سال رہا ہے جس میں اسرائیل نے بربریت کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں جن کو دیکھ کر، سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کا کوئی موقع ہا تھ سے جانے نہیں دیا۔
اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین سے اپنا تسلط تو ختم کر دیا تھا مگر اس حقیقت کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف محاذوں پر اسرائیلی جارحیت جاری رہی۔
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں کتنے ہی فلسطینی بچے شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں وہ معصوم بچے بھی موجود ہیں جن کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ہاں پیدا ہوئے ہیں۔
اسرائیل کھلم کھلا قتل عام میں مصروف ہے مگر اس کے خونی ہاتھوں کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہی بات اس وقت پریشانی کا باعث ہے۔
اس وقت دنیا بھر کی طاقت ور حکومتوں کو اسرائیل کے جنگی جنون کا محاسبہ کرنا ہوگا تا کہ فلسطینیوں کے قتل عام کو روکا جا سکے۔
4 پر “ جانے کب ہوں گے کم!” جوابات
نہ صرف بہت خوب بلکہ حقیقت پر مبنی لکھا ہے-
آپ کا بہت بہت شکریہ آئندہ بھی اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے گا
جس طرح فلسطین کے معاملے کو بیان کیا۔۔بہت زبردست۔۔
کالم پڑھنے اور تبصرہ کرنے کا شکریہ
امید ہے آپ آئندہ بھی میری تحریروں کو پڑھ کر ان پر سیر حاصل تبصرہ ضرور کریں گی