پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف آج ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس سے اچانک بری ہوگئے۔ وہ کیسے بری ہوئے؟ اس سے پہلے نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کیا دلائل دیے؟ معزز ججز حضرات کے کیا ریمارکس تھے؟ اور بات فیصلے تک کیسے پہنچی؟ یہ دلچسپ احوال بیان کرتے ہیں ’وی نیوز‘ کے رپورٹر فیصل کمال پاشا۔ وہ بتاتے ہیں:
’مقدمے کی جزئیات پر بات کرتے اور عدالتی نظائر کو سنتے ہوئے اچانک عدالت کو یاد آیا کہ ان سب باتوں پر تو ہم پہلے فیصلہ دے چکے ہیں، اس کے بعد بلا توقف سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں بریت کا فیصلہ سنا دیا گیا۔
قومی احتساب بیورو جس کے پراسیکیوٹر نے گزشتہ سماعتوں پر دلائل کے لیے آدھا گھنٹہ مانگا تھا اپنے دلائل 2 منٹ سے بھی کم وقت میں مکمل کر لیے اور کہا کہ ہم نے مریم نواز کی بریت کے خلاف اپیل دائر نہیں کی اس لیے اب اس مقدمے کا فیصلہ حتمی ہو گیا ہے۔
اس کے بعد میاں نواز شریف جو ایک سپاٹ چہرہ اور سنجیدہ تاثرات کے ساتھ عدالت آئے تھے، ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے’میں نے تو اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑا تھا، ایک کیس العزیزیہ رہ گیا ہے وہ بھی اللہ کے حوالے ہے‘۔
اس کے بعد ن لیگ پارٹی ورکرز نے عدالت کے باہر نعرے بازی شروع کر دی اور خوشی کا اظہار کیا۔
21 اکتوبر کو جب میاں نواز شریف لندن سے پاکستان آئے اور انہوں نے عدالتوں کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تو بہت سے مبصرین کی رائے میں ان کی بریت ایک طے شدہ فیصلہ تھی جس کی رسمی کارروائی ہونا باقی تھی۔
عدالت پیشی کا ماحول
بطور عدالتی رپورٹر راقم الحروف نے میاں نواز شریف کے احتساب عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی کوریج کی ہوئی ہے اور وہاں بالکل ایسا ہی منظر دیکھنے میں آتا تھا جیسا اس بار میاں نواز شریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشیوں کے دوران نظر آیا۔
میاں نواز شریف کے ساتھ ان کے پارٹی قائدین اور ورکرز کی ایک تعداد موجود ہوتی ہے جو آج بھی تھی۔ آج کی پیشی کے موقع پر مسلم لیگ ن کے احسن اقبال، عطاء اللہ تارڑ، مریم اورنگزیب اور دیگر قائدین میاں نواز شریف کے ساتھ موجود تھے۔
میاں نواز شریف کی عدالت آمد پر جہاں ایک طرف میڈیا کارکنوں میں ویڈیوز بنانے کی دوڑ لگی وہیں پر لیگی کارکنان جو میاں نواز شریف کو سلام کرنا یا ان سے ہاتھ ملانا چاہتے تھے، ان میں بھی کافی دھکم پیل دیکھنے میں آئی۔ گیٹ پر میاں نواز شریف کے آمد کے ساتھ ہی نعرے بازی کا آغاز ہو گیا اور پھر اسی ہجوم کے اندر چلتے ہوئے میاں نواز شریف عدالت کے سامنے دائیں جانب والی نشستوں پر براجمان ہوئے۔
عدالتی کارروائی میں کیا ہوا؟
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کا 2 رکنی بینچ آج میاں نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت کر رہا تھا۔
آج کی عدالتی کارروائی کا آغاز ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں میاں نواز شریف کی اپیل پر دلائل سے ہوا جس میں ان کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کے مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے شرائط ہیں۔
ایک تو یہ ایک اس شخص کے معلوم ذرائع آمدن عدالت کو بتائے جائیں، پھر جس جائیداد یا اثاثے کے بارے میں سوال ہے اس کی مالیت کا تعین کر کے عدالت کو بتایا جائے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ نیب نے ایک فرضی کہانی بنائی تھی کہ مریم نواز شریف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی بینیفشل مالکہ ہیں، چونکہ بیٹیاں عام طور پر باپ کے زیرکفالت ہوتی ہیں اس لیے مریم، میاں نواز شریف کی بے نامی دار ہیں اور اس مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس شہادت پیش نہیں کی گئی۔
ریفرنس دائر کرنا نیب کی مجبوری تھی
گزشتہ سماعتوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ میاں نواز شریف کے خلاف نیب مقدمات پر اپنی رائے دے چکی ہے کہ نیب نے ان مقدمات میں اپنی طرف سے ثبوت اکٹھے کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ سپریم کورٹ سے جو مواد جے آئی ٹی رپورٹ کی شکل میں آیا اسی کی بنیاد پر ریفرنس بنا کر دائر کر دیے گئے اور نیب نے صرف ایک ڈاکیے کا کام کیا۔
آج ایک بار پھر سے نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریفرنس دائر کرنا آپ کی مجبوری تھی، ہم سمجھ رہے ہیں ریفرنس دائر کرنا نیب کی مجبوری تھی، ریفرنس دائر ہوگیا سزا بھی ہوگئی، اس پر موضوعِ بحث اچانک سے بدلا اور نیب پراسکیوٹر بولے کہ ہم فلیگ شپ ریفرنس میں میاں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لیتے ہیں۔
پھر چیف جسٹس کے استفسار پر نیب پراسیکیوٹر نے اثبات میں جواب دیا اور عدالت نے واپس لیے جانے کی بنیاد پر نیب کی اپیل خارج کر دی۔
جب عدالت کو یاد آیا کہ وہ تو پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے
میاں نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے پاکستان کی مختلف عدالتوں کے مقدمات جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے رکھے اور دلائل دیے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات اور بے نامی جائیدادوں کے حوالے سے مختلف عدالتوں نے کیا فیصلے دیے ہوئے ہیں تو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بولے آپ دوسری عدالتوں کے فیصلوں کی بات کر رہے ہیں، ایک فیصلہ تو ہم نے بھی دیا ہوا ہے جس پر امجد پرویز نے چیف جسٹس عامر فاروق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کو لکھنے والے ایک جج آپ کے ساتھ ہی بیٹھے ہیں۔
اس کے بعد امجد پرویز ایڈووکیٹ نے ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں مریم نواز شریف کی بریت کا فیصلہ پڑھنا شروع کیا اور عدالت کو بتایا کہ اس فیصلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے جن بنیادوں پر مریم نواز شریف کو بری کیا تھا، وہی بنیادیں میاں نواز شریف کے مقدمے پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ اس پر نیب پراسکیوٹربولے:
مریم نواز کی بریت کے فیصلے کے خلاف نیب نے اس وقت اپیل نہیں کی اس لیے اب وہ فیصلہ حتمی ہے اس پر ہم دلائل نہیں دے سکتے جس پر عدالت نے سوال اٹھایا کہ پھر کیا ہم اس اپیل کو بھی منظور کرلیں؟
مریم نواز شریف بریت فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا وہ فیصلہ اس عدالت پر بائنڈنگ ہے؟ وکلا کی جانب سے اثبات میں جواب آنے کے بعد جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بولے:
پھر ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ہم تو پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکے ہیں۔
اس کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق نے ایون فیلڈ مقدمے میں میاں نواز شریف کی بریت کا فیصلہ لکھوا دیا۔
گزشتہ سماعت پر کیا ہوا؟
سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے نیب ریفرنس سے متعلق ریمارکس دیے کہ چارج صحیح فریم ہوا اور نا نیب کو پتا تھا کہ شواہد کیا ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر نواز شریف، ان کے وکلا اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز عدالت میں موجود تھے۔
وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کیا تو عدالت نے استفسار کیا کہ یہ جو حقائق آپ نے دیے کیا یہ ریفرنس دائری سے پہلے کے ہیں۔ وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ 3 حقائق ریفرنسز سے پہلے اور باقی بعد کے ہیں، امجد پرویز نے 20 اپریل 2017 کے سپریم کورٹ کے پانامہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مئی 2017 میں پانامہ جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی۔
ٹی او آرز کا اسکوپ کیا تھا، عدالت کا سوال
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس دائر ہونے سے پہلے کے حقائق اہم ہیں، وکیل امجد پرویز نے کہا کہ اس معاملے پر 3 سے 4 منٹ میں بات مکمل کر لیں گے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کے ٹی او آرز کہاں ہیں ان کا اسکوپ کیا تھا؟
امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ 20 اپریل کے آرڈر میں جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کے اختیارات بیان کیے گئے ہیں اور ٹی او آرز بھی اسی آرڈر میں شامل ہیں، 20 اپریل کے فیصلے میں ہی جے آئی ٹی کو تفتیش کا اختیار دیا گیا۔ امجد پرویز نے عدالت کو جے آئی ٹی کی تشکیل اور اراکین کے حوالے سے آگاہ کیا۔
امجد پرویز نے بتایا کہ 5 مئی کو 5 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس میں 5 لوگ شامل تھے، جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی، 10 والیم پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی اور پھر دلائل مانگے گئے جبکہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم پاکستان کی نااہلی کا فیصلہ دیا۔
عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ نیب کو بھجوایا گیا تھا یا نیب ریفرنس دائر کرنے کی پابند تھی جس پر وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔
دوران سماعت بینچ ممبر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کیا احکامات جاری کیے تھے؟ جس پر امجد پرویز نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ نے احکامات دیے تھے کہ نواز شریف کے خلاف ریفرنسز دائر کیے جائیں۔
بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت 29 نومبر تک ملتوی کردی تھی۔
گزشتہ سماعت پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ نوازشریف کیخلاف العزیزیہ کیس میں کبھی میرٹ پر دلائل نہیں سنے گئے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے دسمبر 2018 میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نوازشریف نے 2018 میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
احتساب عدالت نے جولائی 2018 میں نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ اور 10 سال سزا سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ پہلے ہی ایون فیلڈ ریفرنس میں شریک ملزم مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو بری کرچکی ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی سزا معطل کردی تھی۔ نگران پنجاب کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سزا معطلی کی منظوری دی تھی۔
ایک تبصرہ برائے “نواز شریف ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس سے اچانک کیسے بری ہوئے؟ دلچسپ احوال”
کتی چوراں نال مل گئی اے۔