دوحہ میں فیفا ورلڈکپ کے تناظر میں میٹرو سروس شروع کی گئی۔ سنا ہے میٹرو شروع ہوئے تین، چار سال ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے قطر امارات سے کئی سال پیچھے ہے بلکہ ٹیکنالوجی اور جدت کے میدان میں ابھی قطر اس مقام پر نہیں ہے جہاں دبئی ہے۔
میٹرو پر بات کریں تو میٹرو کے کل 37 سٹیشن ہیں۔ اور اس کی کل لمبائی 75 کلومیٹر ہے۔ زیرزمین میٹرو کے مخصوص اور محدود سٹیشن کے ساتھ ساتھ ایسی مفت بس سروس بھی چلتی ہے جو مفت میں آپ کو قریبی میٹرو سٹیشن پہنچاتی ہے۔
سفر کا تیسرا بڑا ذریعہ کروہ بس سروس ہے۔ اس میں سٹاپ سے سٹاپ تک تین ریال کٹتے ہیں۔ کروہ کا کارڈ اس تین ریال والی بس کے علاوہ مفت میٹرو لنک والی بس میں بھی سکین ہوتا ہے۔ میٹرو لنک بس مفت سروس ہے مگر مسافروں کی تعداد کا ریکارڈ رکھنے کے لیے ہر مسافر کو کروہ کارڈ سکین کرنا پڑتا ہے یا موبائل ایپ سے کیو آر کوڈ بس میں لگی ڈیوائس پر سکین کرنا پڑتاہے۔
کروہ بس ہر تیس منٹ بعد آتی ہے ، آپ کسی بھی بس سٹاپ پر کھڑے ہوں تو بس ٹائمنگ چیک کر کے پتا لگا سکتے ہیں کہ اگلی بس کتنے منٹ میں پہنچ رہی ہے۔ اصولا ہر بس کا ہر سٹاپ پر پہنچنے کا وقت ایپ میں دیا ہوتا ہے مگر انڈین ڈرائیورز کئی بار وقت سے پانچ سات منٹ پہلے آجاتے ہیں اور اگر سٹاپ پر سواری نہ ہو تو رک کر مقرر کردہ وقت کا انتظار نہیں کرتے بلکہ تیز رفتاری سے نکل جاتے ہیں۔
عموما گرمی اور دھوپ کی شدت کی وجہ سے لوگ گھر کے قریبی بس سٹیشن پہنچتے ہیں تو بس نکل چکی ہوتی ہے اور اگلی بس کا تیس منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مثلا مجھے ایپ پر وقت نظر آرہا کہ بس میرے گھر کے پاس سٹاپ پر 6:40 پر پہنچ رہی ہے تو میں اگر 6:35 پر پہنچ کر سمجھتا ہوں کہ بس پانچ منٹ میں آئے گی تو معلوم ہوتا ہے کہ بس 6:40 پر نہیں آئے گی بلکہ بس 6:30 پر جاچکی ہے ،بعض اوقات ہمارے سامنے سے تیزی سے گزر جاتے ہیں اور اشارہ کرنے پر روکتے ہی نہیں۔
میں اسے سراسر بدانتظامی سمجھتا ہوں۔ سرکار کے اس شعبے کی انتظامیہ کو اتنا فعال ہونا چاہیے کہ ڈرائیورز اور سروس پر چیک رکھیں اور انہیں ٹائم کا پابند رکھیں۔
کروہ بس میں ایک اور مسئلہ یہ کہ ایک کارڈ ایک بار ہی سکین ہوسکتا ہے، اگر کسی کے پاس کارڈ نہیں ہے یا کارڈ میں پیسے ختم ہیں تو اس کے ساتھ جو ساتھی ہو وہ اپنے کارڈ سے دوبارہ سکین نہیں کرسکتا۔ یعنی آپ کسی مجبور کی مدد کرنا چاہیں اور اپنا کارڈ سکین کرنے دیں تو سسٹم اس کو قبول نہیں کرتا۔ جب کارڈ قابل قبول نہیں تو مسافر کو بس سے اتار دیا جاتا ہے۔ افریقی ڈرائیورز بااخلاق ہیں اور جہاں کسی کا کارڈ کام نہ کررہا ہو تو سختی سے بس سے نہیں اتارتے۔ جبکہ انڈین ڈرائیورز بہت بے دید اور بے شرم ہیں۔ وہ بس میں سوار ہی نہیں ہونے دیتے۔
یہی حال میٹرو لنک کی مفت بس سروس کا ہے، اس میں کروہ کارڈ سکین کرنا ہوتا ہے یا کیوآر کوڈ۔ اگر موبائل آف ہے یا کوڈ ایکسپائر ہوچکا ہے یا کروہ کا کارڈ گھر بھول آئے ہیں تو بس سے اتار دئیے جائیں گے۔ گرمی دھوپ کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا۔ بس سروس میں مجموعی طور پر سنگین انتظامی خامیاں ہیں۔ کبھی ایپ کام نہیں کرتی اور کئی دن ایپ بند رہے تو بھی انتظامیہ کو کوئی پروانہیں ہوتی۔ بس کا شیڈول یا قریبی بس سٹیشن کی معلومات لینا ہوں تو ایپ بند ہونے کی وجہ سے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مصداق روز مرہ کے سفری معاملات کافی پریشان کن ہوجاتے ہیں۔
ایک اور بڑا مسئلہ یہ کہ کروہ بس کے کارڈ میں پیسے ڈالنے ہوں تو چند مخصوص بس اسٹیشنوں پر ہی سہولت موجود ہے اور عام مارکیٹ، بڑے سپر سٹورز وغیرہ میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں۔ صرف ایک سٹیشنری کی دکان پر یہ سہولت موجود ہے۔ آن لائن کارڈ ری چارج کریں تو بیلنس 24 گھنٹے بعد ملتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فوراً آپ کا کارڈ ری چارج ہوجائے اور آپ استعمال کرسکیں۔
میٹرو لنک کے سٹاپ کہیں کہیں الگ ہیں اور زیادہ تر کروہ اور میٹرو لنک کے سٹاپ ایک ہی ہیں۔ اب یہ مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے کہ میٹرو لنک کے سٹاپ پر کوئی سست اور لاپروا شخص گاڑی کھڑی جائے تو بس کو رکنے کی جگہ نہیں ملتی اور سٹاپ پر کھڑے مسافروں کے لیے بس نہیں روکتے۔ یہ حرکت بھی انڈین یا فلپائنی ڈرائیورز کرتے ہیں۔ افریقی ڈرائیور گاڑی تھوڑی آگے جا کر روک کر سوار ہونے کا موقع دیتے ہیں۔
عوام کی تکلیف کا ذرا اندازہ کریں آپ کو کسی ضروری کام، یا ملاقات کے لیے جانا ہو اور آپ کو بس کا انتظار کرنے کے باوجود بس پہ سوار نہ ہونے دیا جائے تو کتنی کوفت اور غصہ آتا ہے۔
بعض اوقات بس ڈرائیور اتنی تیز گاڑی چلاتے ہیں کہ سٹاپ پر رکنے کا ان کو موقع نہیں ملتا۔ نیز بے احتیاطی اور تیزرفتاری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں جو کہ سراسر خطرناک ہے۔
کروہ بسیں تو بجلی پر چلتی ہیں مگر کچھ میٹرو لنک مفت بسیں ڈیزل انجن والی بھی ہیں۔
مرسڈیز کی کوسٹر نما بسیں اتنی نیچی ہیں کہ کئی بار سپیڈ بریکر پر کافی زور سے گاڑی نیچے سے روڈ پر ٹکراتی ہے۔
بسوں میں یو ایس بی پورٹ لگا کر موبائل چارج کرنے کی سہولت ہوتی ہے نیز سکرین پر نقشے میں بس کی لوکیشن نظر آتی ہے جس سے مسافر اپنے سٹاپ کا اندازہ بخوبی کرسکتے ہیں۔
زیر زمین میٹرو کے 37 سٹیشن ہیں، فاصلہ 76 کلومیٹر اور ٹرین کی رفتار 100 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ میٹرو کی تین لائینیں ہیں جو شہر کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ ہر سٹیشن پر میٹرو اڑھائی منٹ میں آتی ہے۔ میٹرو کارڈ سے سٹیشن پر داخلے کے دو ریال لیے جاتے ہیں اور اس میں مختلف کارڈز متعارف کروائے گئے ہیں جیسا کہ مستقل کارڈ، ماہانہ کارڈ، روزانہ کارڈ۔ ٹرین صاف ستھری اور خوبصورت ہوتی ہے، اس میں ایک حصہ عام افراد ، ایک فیملی والا حصہ اور ایک لگژری حصہ ہے۔
لوسیل سٹی میں ٹرام بھی چلتی ہے جس کی چارلائنیں اور 25 سٹیشن ہیں۔ روڈ پر چلتے ہوئے چالیس کاریں جتنی جگہ گھیرتی ہیں وہاں ایک ٹرام ٹرین باآسانی چل سکتی ہے۔ بجلی پر چلنے والی ٹرام چالیس پٹرول جلانے والی کاروں سے ہزار گنا زیادہ بہتر ہے۔