فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ ’القسام بریگیڈز‘ کے ترجمان ابوعبیدہ عرب دنیا کی سب سے مقبول شخصیت بن گئے۔
عرب میڈیا چینلز کی طرف سے یوٹیوب پر اپ لوڈ ہونے والی ابوعبیدہ کی ہر ویڈیو اپ لوڈ ہوتے ہی بہت جلد لاکھوں ویوز حاصل کرلیتی ہے۔ نہایت اہم بات یہ بھی ہے کہ اس قدر زیادہ مقبولیت کسی بھی دوسری عرب شخصیت کو حاصل نہیں ہے۔
ابوعبیدہ کون ہیں؟
اس بلند پایہ شخصیت کے بارے میں مزید بات کرنے سے پہلے، ان کی شناخت کے بارے میں بتانا ضروری ہے۔ وہ ایک ایسی پراسرار شخصیت کے مالک ہیں جن کے بارے میں ان کے دشمن مسلسل اندازے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ اب تک ناکام رہے ہیں۔
ابوعبیدہ حقیقی نام نہیں ہے، انھوں نے اپنے لیے یہ نام صحابی رسول حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے متاثر ہوکر منتخب کیا جنھوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا۔
ہم ابوعبیدہ کے اصل نام سے واقف نہیں اور ہم نے کبھی ابوعبیدہ کا چہرہ بھی نہیں دیکھا، وہ ہمیشہ کوفیہ (سرخ اور سفید رومال) سے اپنے چہرے کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ایک دنیا کو محبوب ہیں اور بہت سے لوگ ان سے خوفزدہ بھی ہیں۔
گفتگو کے دوران ان کے دکھائی دینے والے ہاتھ اور سنے جانے والے واضح اور فصیح الفاظ دشمن کو کانپنے پر مجبور کردیتے ہیں اور بہت سے دلوں کو خوشی بھی عطا کرتے ہیں۔
ابو عبیدہ اور مزاحمت جس چیز کی نمائندگی کرتے ہیں، اسے کم اہم نہ سمجھا جائے۔ وہ نفسیاتی جنگ کا استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس کھیل میں ابوعبیدہ کا دشمن اعلیٰ مہارت کا حامل ہے اور وہ اکثر اسی کا سہارا لیتا ہے۔
ابوعبیدہ کا دشمن میڈیا کے ذریعے جھوٹے پراپیگنڈا میں لامحدود وسائل جھونکتا ہے، لیکن وہ پچھلے دو عشروں سے ایک شخص ایسے شخص کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہے ، جس کا چہرہ چھپا ہوا ہوتا ہے اور جو چند محافظوں کے گھیرے میں غزہ میں نقل و حرکت کرتا ہے۔ بظاہر یہ بہت عجیب سی بات ہے لیکن یہ ہے حقیقت۔
2005 میں جب دوسری تحریک انتفاضہ کا اختتام ہوا اور جب دشمن فوج کا غزہ سے انخلا ہوا، مزاحمت کا ایک نیا باب لکھا گیا۔ اس کے بعد مزاحمت کے نئے چہرے سامنے آئے، ان میں سے ایک ابوعبیدہ بھی تھے۔ انہوں نے مزاحمتی میڈیا کو بھی کھڑا کیا۔
دوسری تحریک انتفاضہ کے بعد 16 ماہ کی طویل جنگ بندی تھی جس کی اسرائیل نے غزہ کے ایک خاندان کے قتل عام کے ذریعے خلاف ورزی کی۔ یہ عمل واضح طور پر تقاضا کرتا تھا کہ اسرائیل کے اس عمل کا ردعمل ایک سے زیادہ طریقوں سے دیا جانا چاہیے۔
چنانچہ ردعمل میں آپریشن شیٹرڈ الیوژن ہوا، جس میں 2 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ ایک فوجی گرفتار ہوا جس کا نام گیلاد شالیت تھا۔ یہ ردعمل عسکری نقطہ نظر سے بہت زیادہ نہیں تھا تاہم یہ پہلا آپریشن تھا جس کا اعلان ابوعبیدہ نے کیا تھا جو اس تصویر میں چلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
اس کے بعد 5 ماہ تک طویل وحشیانہ جنگ ہوئی جس میں اسرائیلی اپنے گرفتار فوجی گیلاد شالیت کو واپس حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکامی سے دوچار ہوئے۔ چنانچہ وہ غزہ سے واپس چلے گئے۔ذیل میں دی گئی تصویر میں ابو عبیدہ کو اسی جگہ کھڑے دیکھا جاسکتا ہے جہاں چند گھنٹے قبل اسرائیلی فوجی قابض تھے۔
تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ابوعبیدہ ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کے شناختی کارڈ دکھا رہے ہیں۔ یوں اسرائیل کو نہ صرف میدان میں بھی شکست ہوئی بلکہ میڈیا کے محاذ پر بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ فلسطینیوں کے دل خوشی اور امید سے بھر گئے۔
اس وقت محمود عباس کی جماعت ’فلسطین اتھارٹیٗ نے، جو غزہ میں حماس کے ساتھ مل کر حکومت کر رہی تھے، حماس کے مزاحمت کاروں پر حملے میں اسرائیلی فوج کی مدد کی۔ اس سے واضح ہوگیا کہ اب فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر نظام نہیں چلایا جاسکتا، اور دونوں جماعتوں میں لڑائی ناگزیر ہوچکی ہے۔ یہ لڑائی بھی حماس نے جیتی۔
محمود عباس کی جماعت فلسطین اتھارٹی کو اسرائیل اور امریکا کی طرف سے بہت زیادہ مدد ملی تاکہ وہ مضبوط ہو اور حماس کمزور۔ اور اس کے نتیجے میں اسرائیل پر حملے رک سکیں لیکن انھیں حماس کے ہاتھوں زبردست شکست ہوئی۔
اس کے بعد بہت سے ایسے آپریشنز ہوئے جن کا اعلان ابوعبیدہ نے کیا۔ تاہم انھوں نے سب سے اہم اعلان 2020 میں کیا جب اسرائیل نے مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو ضم کرنے کا اعلان کیا، اس کے جواب میں ابوعبیدہ نے اسے ’اعلان جنگ‘ قرار دیا۔
ابوعبیدہ کے اعلانات محض خالی الفاظ یا خالی دھمکیاں نہیں ہوتے بلکہ وہ جو بھی کہتے ہیں، کرکے دکھاتے ہیں۔
2021 میں سیف القدس کا معرکہ شروع ہوا تو ابو عبیدہ کا یہ اعلان بہت مشہور ہوا تھا کہ تل ابیب، یروشلم، دیمونا، اشکلون، اشدود اور بیر شیبہ پر بمباری اس قدر آسان ہے جیسے پانی پینا۔
حالیہ جنگ نے ثابت کیا کہ غزہ میں مزاحمت کس قدر مضبوط ہے۔ اس نے غزہ، مغربی کنارے حتیٰ کہ اسرائیل کے بعض مقبوضہ حصوں کو بھی باہم جوڑ دیا۔ لد اور مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں نے غزہ والوں کی طرح مزاحمت کی۔
گزشتہ دوبرسوں کے دوران میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور فلسطینی قیدیوں پر بھی پہلے سے زیادہ مظالم ڈھاتا رہا۔ دنیا کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ غزہ والے اس پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کریں گے۔ لیکن پھر سات اکتوبر کی صبح ردعمل ظاہر ہوگیا۔
اگرچہ ابو عبیدہ نے آپریشن ’طوفان اقصیٰ ‘ کا اعلان نہیں کیا تھا لیکن اس جنگ کے دوران میں ان کی اہمیت مسلمہ رہی ہے۔ ایک ایسی جنگ میں جب دشمن نے غزہ پر وحشیانہ انداز میں نسل کشی کے لیے بمباری شروع کی، پھر زمینی جارحیت کی۔
دشمن کا خیال تھا کہ وہ غزہ والوں کے حوصلے پست کر دے گا تاہم نقاب پوش شخص نے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ اس نے نہ صرف حملہ آور دشمن کے تباہ کن نقصانات کا اعلان کیا بلکہ اس کے الفاظ کے بعد اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین فوٹیج سامنے آئی جس پر ہماری آنکھیں بہ مشکل یقین کر سکیں۔ ہمیں اس کی اشد ضرورت تھی۔
ابوعبیدہ کی وجہ سے صرف حوصلے ہی نہیں بڑھتے بلکہ وہ جنگ کے دھارے بھی بدل دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ابو عبیدہ نے کہا تھا کہ مغربی کنارے میں تباہ کن کارروائیاں کی جائیں گی اور آنے والے دنوں میں خطے میں 3 مختلف آپریشنز دیکھے گئے۔
حال ہی میں ابو عبیدہ نے اردن کے لوگوں سے اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی، اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ عمان میں اس قدر بڑی ریلی منعقد ہوئی کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتے۔ ریلی میں لوگ ابوعبیدہ کے نعرے لگا رہے تھے۔