22 نومبر کی صبح، قطر نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ اسرائیل اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا، اس معاہدے کے نتیجے میں اب تک تیرہ اسرائیلی اور انتالیس فلسطینی رہا ہوچکے ہیں جبکہ چار روز کے لیے جنگ بندی بھی ہوئی ہے۔ حماس نے تھائی لینڈ کے دس اور فلپائن کے ایک شہری کو بھی رہا کیا ہے۔
حماس نے اسرائیل سے کہا کہ مزید اسرائیلی قیدی رہا کروانے ہیں، تو ہر دس قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں تیس فلسطینی رہا کرنا ہوں گے جبکہ مزید ایک دن کے لیے جنگ بندی میں توسیع کرنا ہوگی۔
گزشتہ روز اسرائیل نے فلسطینیوں کو غزہ کے شمالی علاقے میں واقع اپنے گھروں میں جانے سے نہ صرف روکا بلکہ ان پر تشدد بھی کیا۔ جس کے نتیجے میں حماس نے مزید اسرائیلیوں کی رہائی کا عمل روک دیا ہے۔ یاد رہے کہ معاہدے کے مطابق پہلے مرحلے پر تیرہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی عمل میں آنا تھی، دوسرے مرحلے میں بارہ اسرائیلی قیدی رہا ہونا تھے۔
معاہدے کی دستیاب تفصیلات کے مطابق یہ معاہدہ بڑی حد تک حماس کی طرف سے کئی ہفتے قبل پیش کی گئی تجویز کی عکاسی کرتا ہے جسے اسرائیل نے ابتدائی طور پر مسترد کر دیا تھا۔ لیکن بالآخر اسرائیل کو حماس ہی کی شرط پر معاہدہ کرنا پڑا۔
معاہدے کا اعلان غزہ شہر کے الشفا ہسپتال کے احاطے میں اسرائیلی ٹینکوں اور فوجیوں کے حملے کے ایک ہفتے بعد کیا گیا۔ الشفا ہسپتال پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر غم و غصہ پیدا ہوا۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ وہاں حماس کا کمانڈ سینٹر موجود ہے اور بار بار اسے تباہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ پھر ہوا یہ کہ کمپاؤنڈ کے اندر ہسپتال کے علاوہ کچھ بھی نہ ملا۔
امریکا نے الشفاء ہسپتال کے تقدس کی پامالی پر اسرائیل کا مکمل ساتھ دیا، یہاں تک کہ ’آزادانہ انٹیلی جنس‘ کا حوالہ دے کر دعویٰ کیا کہ الشفاء ہسپتال کے نیچے فلسطینی پینٹاگون ہے لیکن اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
اس وقت، یہ قیاس آرائیاں بھی ہوئیں کہ یہ واقعات امریکا اور اسرائیل کے غیر رسمی معاہدے کی پیداوار ہو سکتے ہیں، جس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ الشفاء پر اسرائیلی قبضے کی حمایت کرے گی، اس کے جنگی جرم کو سیاسی اور سفارتی طور پر اپنے ہی جھوٹ سے چھپائے گی۔ لیکن جب یہ واضح ہو جائے گا کہ الشفاء کے احاطے میں عسکری اہمیت کی کوئی چیز نہیں ہے، تو امریکا حماس کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے آگے بڑھے گا، یوں اسرائیل کو اس پر عمل درآمد کے لیے رضامند ہونا پڑے گا۔
واقعی ایسا لگتا ہے کہ امریکی حمایت کے بل بوتے پر اسرائیل نے ایک منظم طور پرغزہ کی پٹی میں صحت کا شعبہ تباہ کرنے بعد اب حماس کے ساتھ ایک معاہدہ کرلیا گیا ہے۔
یہ معاہدہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔ شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل جو بار بار حماس کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے تھے، اب فلسطینی مزاحمتی تحریک کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کر رہے ہیں۔ قطری، مصری ثالثی ضروری تھی تاہم اس کی حیثیت رسمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل قطر، مصر سے نہیں بلکہ غزہ کی پٹی میں حماس کے سربراہ اور 7 اکتوبر کے حملوں کے منصوبے کے خالق یحییٰ سنوار کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں اسرائیلی اخباری رپورٹس میں تسلسل سے کہا جاتا رہا ہے کہ حماس غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے جارحانہ حملوں میں وقفہ لینے کے لیے بے چین ہے، وقفہ خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہو، وہ کسی بھی قیمت پر ایسا چاہتی ہے۔ تاہم معاہدے کی دستیاب تفصیلات ظاہر کرتی ہیں کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔
اسرائیل کو فلسطینیوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ قید خواتین اور بچوں کو رہا کرنے کا وعدہ کرنا پڑا ہے۔ قیدیوں کے تبادلے میں کوئی اسرائیلی فوجی شامل نہیں ہوگا۔ ایندھن سمیت مزید انسانی امداد غزہ کی پٹی تک پہنچ جائے گی۔ اسیروں کے تبادلے پر عمل درآمد چار دن کی مسلسل جنگ بندی کے دوران کیا جائے گا جس میں ہلاکت خیزی رک جائے گی۔ اسرائیلی جیٹ طیاروں اور ڈرونز کو غزہ کی پٹی کی فضائی حدود استعمال کرنے سے روک دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ وہ اب تک کئی گھنٹوں تک غزہ کی فضائی حدود میں رہتے تھے۔
ایک بار پھر یہ بتاتے چلیں کہ یہ معاہدہ کئی ہفتے قبل حماس کی جانب سے ابتدائی طور پر پیش کی گئی ڈیل کے عین مطابق ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حماس کے زیادہ تر مطالبات اسرائیل اور امریکا کو ماننا پڑے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مذاکرات زمینی حقیقت کے عکاسی ہوتے ہیں۔ حماس جو اسرائیل کا اصل ہدف رہی ہے، مایوسی سے بہت دور دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بجائے، وہ اپنے مطالبات پر پوری ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی رہی حتیٰ کہ اس کے مطالبات امریکا اور اسرائیل نے تسلیم کرلیے۔
معاہدے کے مطابق حماس نے امریکا اور اسرائیل کو غزہ کی پٹی میں بڑی مقدار میں ضروری انسانی سامان کی فراہمی کے لیے راضی ہونے پر مجبور کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں، حماس نے گزشتہ ماہ کے دوران غزہ کے فلسطینی شہریوں کے لیے انسانی امداد کو محفوظ بنانے کے لیے امریکی سفارت کاری کے مقابلے میں انسانی ہمدردی کے محاذ پر تیزی سے کامیابی حاصل کی ہے۔
اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ امریکا کی پوری کوشش اسرائیل کو بڑے پیمانے پر قتل عام جاری رکھنے، غزہ کی پٹی کو ایک بنجر زمین اور ذبح خانے میں تبدیل کرنے کے قابل بنانے کے لیے تھی۔ لیکن پھر حماس نے امریکا اور اسرائیل کو غزہ کی شہری آبادی تک خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن خاطر خواہ مقدار میں پہنچنے کی اجازت دینے پر مجبور کردیا۔ حالانکہ حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے جبکہ اسرائیل دنیا کی سب سے زیادہ جائز فوجی قوت اور قوموں کے لیے روشنی کا مینار بنا ہوا ہے- رہی بات امریکا کی وہ دنیا کی ایسی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جو پورے کرہ ارض میں آزادی اور انسانی حقوق کو پھیلانے کے لیے وقف ہے۔
یہ یقین کرنا مشکل ہوگا کہ اسرائیلی قیادت ایک ایسی عارضی جنگ بندی کو قبول کرے گی جو غیر معینہ مدت میں تبدیل ہوجائے۔ واضح طور پر اسرائیلی وزیراعظم کے ذاتی اور سیاسی مفاد میں ہے کہ وہ اس تنازعے کو جاری رکھیں جبکہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی 7 اکتوبر کے داغ کو مٹانے کے لیے بے چین ہے۔ حکومت کے اتحادی بھی اس موقع کو سنہری سمجھتے ہوئے چاہتے ہیں کہ یہ تنازعہ ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھے۔
اگرچہ غزہ کی پٹی کافی حد تک تباہ ہوچکی ہے، لیکن اسرائیل کے لیے بڑے اہداف باقی ہیں، ابھی اسے حماس کو نمایاں طور پر کمزور کرنا ہے، اسرائیلی فوج کو بھی اقوام متحدہ کے عملے کے بجائے حماس کے کمانڈروں کو ہلاک کرنا ہے۔
اگر اسرائیل کو اپنے آپ پر اعتماد ہے کہ وہ ایک بار پھر امریکی پالیسی کو نتیجہ خیز ثابت ہونے سے پہلے ہی ناکام بنا سکتا ہے، تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ وہ جنگ بندی کو سبوتاژ کرسکتا ہے، وہ ایک بار پھر جارحیت کرسکتا ہے تاکہ جنگ بندی میں توسیع نہ ہوسکے۔
دوسری طرف اسرائیل لبنان محاذ بھی تیزی سے گرم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے خطے میں تنازعہ بڑھنےکا خدشہ ہے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے نتیجے میں وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو عوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے اور اسے حکمران اتحاد کے داخلی اختلافات میں بھی الجھنا پڑے، یوں حکومت گر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کی اتحادی حکومت میں شریک لیڈرز نہ صرف ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے سے نفرت بھی کرتے ہیں۔
اس سارے منظرنامے میں امریکی قیادت پر بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔ علاقے میں لڑائی ہونے سے خطے اور اس سے باہر امریکی مفادات پر اس بحران کے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تاہم امریکی صدر جو بائیڈن کو اس کی کوئی پرواہ نہیں، شاید سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن بھی امریکی مفادات پر پڑنے والے برے اثرات سے واقف نہیں جبکہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن افسردہ نظر آتے ہیں۔ اس سارے منظر نامہ میں، مستقبل میں کس امریکی گروہ کو بالادستی حاصل ہوتی ہے، یہ ایک کھلا سوال ہے۔
ایک نتیجہ جو پہلے ہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکا ایکو چیمبر کے ذریعہ تیار کردہ مختلف ممکنہ منظرناموں کو واضح طور پر مسترد کرسکتا ہے کیونکہ وہ حماس کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کے بجائے، اس کے خاتمے کا تقاضا کرتے ہیں۔