دس درویش سفر پر روانہ ہوئے۔ صحرا کا سفر تھا اور قیامت خیز گرمی۔ اس پر غضب یہ ہوا کہ مسافر صحرا کے بگولوں میں راستہ بھی بھول گئے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ذرا ٹھہر کر سستا لیا جائے تاکہ اوسان کی بحالی کے بعد سفر کا دوبارہ آغاز کیا جا سکے۔
ایک مناسب جگہ پر انھوں نے قیام کیا۔ سب ہی پیاسے تھے لیکن دوران سفر تقریباً سارا پانی ختم ہو چکا تھا۔ ایک مسافر نے بچا کھچا پانی مشکیزے سے انڈیلا اور دوسرے ساتھی کو پیش کر دیا۔
پیالہ انھوں نے بہ صد شکریہ وصول کیا، پینے کی خواہش بھی تھی۔ اپنے منھ کی طرف لے کر بھی گئے لیکن انھوں نے پیالہ ہونٹوں سے لگانے کے بہ جائے قریب بیٹھے ساتھی کو پیش کر دیا۔
دوسرے ساتھی نے بھی ان کی پیروی کی۔ حتیٰ کہ پیالہ آخری ساتھی تک پہنچ گیا۔ دوسری طرف ساتھیوں کے لیے ایثار کر کے پانی آگے بڑھانے والے پیاس کی شدت سے آہستہ آہستہ دم توڑنے لگے۔ یہاں تک کہ صرف وہی مسافر زندہ بچا، پیالہ سب سے آخر میں جس کے پاس پہنچا تھا۔
اس کے تمام ساتھی ایک ایک کر کے دم توڑ چکے تھے۔ بے سرو سامانی کے عالم میں جاں بہ حق ہو جانے والے ساتھیوں کی طرف اس نے دیکھا تو دکھ سے اس کی آنکھیں بھر آئیں پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس نے پانی کی طرف توجہ کی اور بسم اللہ کر کے اسے پی لیا۔
اس نے پانی پیا اور اللہ نے اس کی جان بچا لی۔ وہ بہ حفاظت اپنی منزل پر پہنچنے میں بھی کامیاب ہوا جہاں اس نے وہ سب کہہ سنایا جو اس پر اور اس کے ساتھیوں پر گزری تھی۔ یہ ماجرا سن کر لوگ افسردہ ہوئے۔ ان افسردہ لوگوں میں سے ایک نے کہا:
‘ اے فلاں! کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ تم بھی پانی نہ پیتے؟’
درویش نے جواب دیا:
‘ اے جان برادر! میں بھی پانی نہ پیتا تو بالیقین مر جاتا۔ شریعت کی نگاہ میں یہ خود کشی ہوتی۔’
یہ بات سن کر معترض نے کہا کہ پھر تو وہ نو جنھوں نے پانی نہیں پیا، وہ بھی خود کشی کے مرتکب ہوئے۔
اس نے جواب دیا کہ ہر ایک مرنے والے نے دوسروں کے لیے ایثار کیا۔ ان کا مرتبہ الگ ہے اور بلند ہے۔ میں جو زندہ بچ رہا تھا، مجھ پر پانی پینا شرعاً واجب ہو چکا تھا لہٰذا میں نے شریعت کی پابندی کی۔
۔۔۔۔۔
اس حکایت میں تصوف کے نوری مسلک کے مطابق ایثار کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ سالک کو جذباتی انداز فکر اختیار کرنے سے روک دیا گیا ہے اور اسے حکمت کا دامن تھامنے کی تلقین کی گئی ہے۔
اس حکایت میں صدمے کی انتہائی کیفیت میں بھی اپنی جان کی حرمت کی تعلیم دی گئی ہے۔
ایک روایت کے مطابق غزوہ احد کے موقع پر بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں زخموں سے چور صحابہ کرام نے خود پانی پینے کے بہ جائے اپنے دوسرے ساتھی کو ترجیح دی یہاں تک کہ تمام زخمی صحابہ شہید ہو گئے۔
ان ہی صحابہ کی شان میں قرآن پاک میں ایک آیت بھی نازل ہوئی تھی جس میں فرمایا گیا ہے کہ وہ جو حاجت مند ہونے کے باوجود خود کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں۔
(انتخاب، تہذیب و تحریر: ڈاکٹر فاروق عادل۔ ماخوذ از کشف المحجوب)