ملائشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم اور امریکی صدر جوبائیڈن

ایپک اجلاس: ملائشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم امریکی صدر جوبائیڈن پر برس پڑے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے بہادری سے امریکی صدر جو بائیڈن کے سامنے انھیں کھری کھری سنا دیں، ایشیا پیسیفک اکنامک کواپریشن (ایپیک) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم ملائشیا انور ابراہیم نے کہا کہ آپ تمام لوگوں کو انصاف اور ہمدردی کی کوئی فکر نہیں ہے، آپ ہمیں روس کی مذمت کرنے کو کہتے ہیں لیکن غزہ میں خواتین اور بچوں کے قتل پر اسرائیل کے مظالم پر خاموش رہنے کا درس دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ انور ابراہیم گزشتہ برس نومبر میں ملائشیا کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ وہ ایک طویل عرصہ اپوزیشن رہنما بھی رہے ہیں۔ وہ سابق وزیراعظم مہاتر محمد کے طالب علمی دور کے ساتھی تھے، ان کے ساتھ حکومت میں شامل رہے اور ڈپٹی وزیراعظم کے منصب تک پہنچے۔ تاہم بعدازاں مہاتر محمد اور انوار ابراہیم کے دوران اختلافات پیدا ہوگئے جس کے بعد مہاتر محمد نے ان پر مختلف الزامات عائد کرکے جیل میں قید کردیا۔

2 روز قبل ایشیا پیسیفک اکنامک کواپریشن کا اجلاس ہوا جس میں امریکی صدر جوبائیڈن اور امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے بھی شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملائیشیا کے صدر انور ابراہیم نے امریکی صدر جو بائیڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یوکرین کے معاملے پر آواز اٹھانے جبکہ غزہ میں خواتین اور بچوں کے قتل عام پر چپ رہنے کو کہتے ہیں، آپ کو ان کے ساتھ انصاف اور ہمدردی کی کوئی فکر نہیں ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن ملائشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کی کڑوی کسیلی باتیں سن رہے ہیں

انور ابراہیم نے کہا ’ یہ واضح طور پر کتنا اچھا ہو جائے کہ ہم سب مل کر گم شدہ فلسطینیوں کی زندگیوں، بچوں اور غزہ کی عورتوں کے ساتھ انصاف کے عمل کو برقرار رکھنے میں ثابت قدم رہیں۔ جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے ہیں، ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور مزید بچے مرتے جا رہے ہیں۔

یہ ظلم بند کیا جائے، عورتوں اور بچوں کو مارنا بند کریں‘۔

ملائشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم کی طرف سے تنقید سن کر امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کا چہرہ دیکھنے والا تھا

انہوں نے کہا’میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ جب مجھے جیل بھیجا گیا تھا تب آپ سب لوگ یہی کہا کرتے تھے کہ جو بھی ہو رہا ہے بالکل ہیومن رائٹس قانون کے مطابق ہے لیکن اب جب فلسطینیوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے تو یہاں بھی ہیومن رائٹس کے قانون کو مد نظر رکھنا چاہیے اور اس ظلم کو بند کرنا چاہیے‘۔

انور ابراہیم نے کہا’ اس سارے معاملے کا کوئی تو حل ہوگا، ایپیک کی اہمیت کا اندازہ لگایا جائے تو یہ ایپیک کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایپیک ممبران کی طرف سے کی جانے والی اس طرح کی تمام کوششیں دنیا کے لیے بہترین ثابت ہوں گی لیکن اگر ہم اس کو روکنے میں ناکام ہوگئے تو یوکرین اور فلسطین میں امن قائم نہیں ہوگا اور دنیا آگے نہیں بڑھ سکے گی‘۔

’یہ ساری عالمی برادری کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔‘

انہوں نے اس معاملے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے تمام ایپیک ممبران پر زور دیا کہ فلسطین میں بچوں اور خواتین کے قتل عام کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے، ہم سب کو اس معاملے پر ایک ہونا چاہیے، یہی ہم سب کے لیے بہتر ہے۔

واضح رہے کہ ایپیک کے ممبران میں امریکا ، آسٹریلیا، برونائی دارالسلام، کینیڈا، چلی، چین، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا، میکسیکو، نیوزی لینڈ، پاپوا نیوگنی، پیرو، فلپائن، روسی فیڈریشن، سنگاپور، چینی تائپے اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں