امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پیر کی صبح ترکیہ ایک اہم ترین دورہ پر پہنچے، وہ کیا توقعات اور ایجنڈا لے کر گئے تھے، بدلے میں انھیں کیا ملا، یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔
انٹونی بلنکن ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ پہنچے، تو انھیں ترک حکومت کی طرف سے سرد مہری دیکھنے کو ملی۔
امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کا ہوائی اڈے پر کسی اعلیٰ ترک سفارت کار نے استقبال نہیں کیا جبکہ ان کے لیے کسی اعلیٰ سطحی ملاقات کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق صدر اردوغان کی انٹونی بلنکن سے ملاقات بھی طے نہیں تھی۔ عام طور پر جب کوئی امریکی وزیر خارجہ ترکیہ کا دورہ کرتا ہے تو اس کی ترک صدر سے ملاقات ہوتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے دورہ ترکیہ کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عمومی طور پر ترک وزیرخارجہ حقان فیدان، وزرائے خارجہ کی آمد سے دو منٹ قبل گاڑی پر دفتر خارجہ آتے ہیں، اندر داخل ہونے کی بجائے گاڑی میں انتظار کرتے ہیں۔ مہمان کی گاڑی جب گیٹ پر پہنچتی ہے تو انہیں اطلاع دی جاتی ہے اور وہ گاڑی سے اٹھ کر دفتر خارجہ کے دروازے پر پہنچتے ہیں۔
اب بھی ایسا ہی ہوا، وہ دروازے پر پہنچے، امریکی وزیر خارجہ یعنی اسٹیٹ سیکرٹری بلنکن کی گاڑی بھی پہنچی تو بلنکن گاڑی سے نہ اترے اور گاڑی ہی میں بیٹھے رہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہ فون کال پر تھے۔ ترک وزیرخارجہ حقان فیدان مزید انتظار کیے بغیر عمارت کے اندر چلے گئے۔
اسی اثنا میں امریکی اسٹیٹ سیکرٹری بلنکن بھی ان کے پیچھے پیچھے پہنچ گئے۔ حقان فیدان نے استقبال کے دوران گلے لگنے سے انکار کر دیا، حالانکہ بلنکن گلے لگ کر ملنا چاہتے تھے۔ ان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہو گئی۔
امریکی اسٹیٹ سیکرٹری کی کرسی کے بالکل ساتھ، ایک ایسا آرائشی نمونہ رکھا گیا تھا جس میں مسجد اقصیٰ، ترک پرچم کے چاند تارے کے حصار میں دکھائی دے رہی تھی۔
ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات کے آغاز میں ترک وزیرخارجہ حقان نے سیکرٹری بلنکن سے استفسار کیا کہ وہ ترکیہ میں کس حیثیت سے تشریف لائے ہیں؟ امریکن سیکرٹری خارجہ ہونے کی حیثیت سے یا پھر ایک یہودی ہونے کی حیثیت سے؟
بلنکن نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ وہ بطور انسان یہاں پر آئے ہیں۔
سیکرٹری خارجہ بلنکن نے ایجنڈا پر انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفہ کی بات کی۔ جبکہ وزیر خارجہ حقان فیدان نے اس کے مقابلے میں جنگ بندی کی بات کی اور کہا کہ اسرائیل کو نہ صرف غزہ سے نکلنا ہو گا بلکہ ان علاقوں سے بھی نکلنا ہو گا جہاں وہ 1967ء کے بعد پہنچا ہے۔ اسرائیل کے یہ دونوں اقدام ہی حماس کو جنگ بندی پر راضی کر سکتے ہیں۔
ایجنڈا میں اسرائیل کی غزہ پر بمباری، معصوم انسانوں کے قتل عام، بنیادی انسانی حقوق، جنگی جرائم اور انسانی امداد کی ترسیل کے موضوعات پر بھی بات چیت کی گئی۔ اس کے علاوہ سویڈن کی نیٹو ممبرشپ پر بھی بات ہوئی۔ جس پرترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے امریکی وزیر خارجہ کو بتایا ’یہ معاملہ ترک پارلیمنٹ میں پہنچ چکا ہے، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں، آپ کو بھی انتظار کرنا ہو گا‘۔
یہ صورت حال امریکی وزیر خارجہ کے لیے نہایت مایوس کن تھی۔ چنانچہ انھیں بخوبی اندازہ ہوگیا کہ انھیں ترکیہ سے مزید کچھ بھی نہیں ملنے والا۔ نتیجتاً ملاقات کے فوری بعد وقفہ میں، امریکی سفارت خانے کے تھرڈ سیکرٹری کی جانب سے ترک دفتر خارجہ کو اطلاع دی گئی کہ سیکرٹری آف اسٹیٹ بلنکن مشترکہ پریس کانفرنس نہیں کریں گے۔
یوں امریکی اسٹیٹ سیکرٹری بلنکن ملاقات کے بعد ترکیہ چھوڑنے کے لیے ہوائی اڈے پر پہنچ گئے جہاں پر انہوں نے جہاز پر بیٹھنے سے قبل میڈیا کے نمائندوں سے مختصر گفتگو کی۔
پیرس سے شائع ہونے والے فرانسیسی اخبار ’ لی فگارو‘ نے لکھا ہے’ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کی امید پوری نہ ہوسکی، نتیجے کے طور پر، انھیں ترک وزیر خارجہ حقان فیدان کے ساتھ بات چیت کرنے پر راضی ہونا پڑا اور پھر ترکیہ پہنچنے کے چند گھنٹے بعد ہی واپس اڑ جانا پڑا۔
بات یہ ہے کہ ترکیہ مشرق وسطیٰ میں غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے اور امریکا کی امن کوششوں کو ناکافی سمجھتا ہے۔ لہذا، بلنکن کے دورے کے بارے میں جان کر، ترک صدر اردغان نے اپنے منصوبے میں ذرا برابر تبدیلی نہ کی اور اپنے طے شدہ دورے پر چلے گئے۔
لی فگارو لکھا ہے ’جو لوگ یوکرین اور روس کے درمیان تنازع میں ہلاک ہونے والے شہریوں کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہاتے تھے، وہ اب خاموشی سے ہزاروں معصوم بچوں کے قتل کا مشاہدہ کر رہے ہیں‘۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ کے ترکیہ دورے کے خلاف ترک شہری سڑکوں پر نکل آئے ، مظاہرین نے شہر آدانا میں امریکی فوجی اڈے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔مظاہرین نے امریکی فوجی اڈے کی حفاظتی باڑ توڑ دی، پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلیے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔