بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی آنکھ بند ہوتے ہی پاکستان جس طبقہ کے قبضہ قدرت میں چلا گیا، اس نے پاکستان کا جو حشر کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر سید ابوالاعلیٰ مودودی ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہوتی تو آج ہمیں ایک مختلف پاکستان دیکھنے کو ملتا، ترقی یافتہ اور مضبوط پاکستان۔
اس نتیجہ فکر کی بنیاد کیا ہے؟ اس کا جواب بہت سوں کے لیے چشم کشا ہوگا۔ اور بخوبی معلوم ہوگا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی فہم و فراست رکھنے والوں میں سب سے بلند مقام رکھتے تھے، وہ پاکستان کے تمام جمہوریت پسندوں سے زیادہ اور پختہ فکر جمہوریت پسند تھے۔
پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی دو بڑے مسائل کا شکار ہوا۔ اولاً وہ مسئلہ کشمیر میں الجھ گیا، ثانیاً غیر جمہوری لوگوں کے شکنجے میں آگیا۔ ان دونوں بنیادی مسائل نے پاکستان کی صحت پر نہایت برے اثرات مرتب کیے، ان دونوں مسائل نے مزید مسائل پیدا کیے، ہر مسئلہ کینسر بن کر ملک اور قوم کی جان کے لاگو ہوا۔
سب سے پہلے ایک واقعہ پڑھ لیجیے، جو ثبوت ہے کہ قائد اعظم علیہ الرحمۃ کے بعد طبقہ اشرافیہ نے کیسے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نہایت قابل اعتماد ساتھی اور سابق امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد نے بتایا۔ یہ صرف میاں صاحب کی بات نہیں ہیں، اس دور کے اخبارات بھی اس کے گواہ ہیں:
’ 3 جون 1947ء کو جب حکومت برطانیہ نے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا اعلان کیا تو میں نے یہ اعلان مرکز جماعت دارالسلام میں مولانا مودودی کے ہمراہ سنا تھا۔ ابتدائی اعلان میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ ضلع گورداسپور پاکستان میں شامل ہوگا جبکہ دونوں آزاد ریاستوں بھارت اور پاکستان کی قطعی حدود کا اعلان 14 اگست کو باؤنڈری کمیشن نے کرنا تھا‘۔
14اگست کو باؤنڈری کمیشن نے بھارت اور مغربی پاکستان کے درمیان سرحد کا اعلان کرتے ہوئے ضلع گورداسپور کو بھارت میں شامل کردیا۔ اس اعلان کو سنتے ہی مولانا مودودی نے کہا:’گورداسپور کی بھارت میں شمولیت کشمیر کے بھارت سے الحاق اور اس پر بھارت کے تسلط کی کھلی سازش ہے۔ پاکستان کو فوراً ایک آدھ بٹالین فوج بھیج کر ریاست کا تعلق بھارت سے منقطع کر دینا چاہیے ورنہ ایک مرتبہ بھارت ریاست میں گھس گیا تو اسے بے دخل کرنا آسان کام نہیں ہوگا‘۔
آج پون صدی کے بعد بھی موجودہ صورتحال مولانا مودودی کی دور اندیشی کی شہادت دے رہی ہے۔ پاکستا ن بننے کے 8، 10 روز بعد بھی جب کسی طرف سے کوئی اقدام نہ ہوا تو میاں طفیل محمد کے مطابق مولانا مودودی نہایت مضطرب ہوئے اور کہا’ اگر یہاں دارالسلام میں میرے پاس ایک سو بندوق بردار ہوتے تو میں لاہور جانے سے پہلے راوی پار کر کے ریاست کا تعلق بھارت سے منقطع کرنے کا انتظام کرتا، خدا معلوم پاکستان کے ذمہ دار کیا سوچ رہے ہیں‘۔
30 اگست 1947ء کی صبح ہم لوگ ایک فوجی کانوائے کے ذریعے دارالسلام سے لاہور پہنچے تھے۔ یہاں آتے ہی مولانا مودودی نے دوسرے روز وزیر اعلیٰ پنجاب نواب افتخار خان ممدوٹ سے ملاقات کی۔ معاملے کی نوعیت اس قدر نازک تھی کہ مولانا مودودی نے چند گھنٹے بھی ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا، اس ملاقات میں مولانا مودودی نے ان سے کہا :
’نواب صاحب! آپ کی ہمارے متعلق اور ہماری آپ کے بارے میں جو رائے بھی رہی ہو وہ اپنی جگہ، لیکن اب ہم سب لوگ اور پوری قوم ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ اگر خدانخواستہ اس کشتی کو کوئی نقصان پہنچا تو پوری قوم خطرے میں پڑ جائے گی۔ میرے نزدیک اس وقت پاکستان کو درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ اور سب خطرات سے عظیم خطرہ کشمیر کے بھارت میں زبردستی شامل کیے جانے کا ہے اور ریڈ کلف ایوارڈ نے در اصل بھارت کے لیے کشمیر کا راستہ کھول دیاہے‘۔
’میری دانست میں مسلمان اکثریت کا ضلع گورداسپور بھارت کو بلاوجہ نہیں دیا گیا بلکہ بھارت کو کشمیر ہڑپ کرنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ جب چاہے اس میں داخل ہو جائے، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ اول تو پاکستان بلاتوقف کشمیر پر قبضہ کرلے اور اگر ایسا کرنا بوجوہ ممکن نہ ہو تو کم از کم اس زمینی راستے کو کاٹ دیا جائے جس سے بھارت کا کشمیر میں فوجیں داخل کرنا ممکن نہ رہے‘۔
مولانا مودودی نے نواب افتخار ممدوٹ صاحب سے یہ بھی کہا’ پنجاب میں ملٹری کے لاکھوں سابق ملازمین موجود ہیں، انہیں منظم اور متحرک کرکے کشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ان لوگوں کو اسلحہ فراہم کرنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ کچھ نہ کچھ اسلحہ ان کے پاس موجود ہے، اس طرح مہاراجہ کشمیر سے کوئی سٹینڈ سٹل (stand still)معاہدہ بھی نہ کیا جائے‘۔
نواب ممدوٹ نے مولانا مودودی کے اس مشورے کا بڑی بے اعتنائی کے ساتھ بلکہ تضحیک آمیز لہجے میں یہ کہہ کر بات ختم کر دی:’ مولوی صاحب! آپ کا بہت بہت شکریہ، ہم اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں‘۔
افتخار ممدوٹ سے یہ ملاقات رانا اللہ داد کے ذریعے سے ہوئی تھی۔ گفتگو کے یہ الفاظ مولانا مودودی نے خود ادا کیے جو افتخار ممدوٹ اور چوہدری محمد علی مرحوم کی زندگی میں قومی اخبارات کے ریکارڈ پر لائے گئے تھے۔
اس مایوس کن ملاقات کے اگلے روز ہی مولانا مودودی نے چوہدری محمد علی سے رابطہ کر کے کہا’آپ وزیراعظم لیاقت علی خان تک میری یہ بات پہنچا دیجیے کہ وہ فی الفور کشمیر کی فکر کریں‘۔
ذرا سوچیے! نواب صاحب سید ابوالاعلیٰ مودودی کا مشورہ مان لیتے، تو مسئلہ کشمیر جنم ہی نہ لیتا، جموں و کشمیر سے لے کر کراچی کی بندرگاہ تک، پاکستان ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان ہوتا !
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ معاملہ فہم سمجھتے ہیں۔ پون صدی بیت چکی، قوم ان ’معاملہ فہموں‘ سے نجات حاصل نہ کرسکی۔ پہلے جاگیردار اور بیوروکریٹ تھے، بعد میں جرنیل بھی اس میں شامل ہوئے۔ جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف بلکہ ان سے بعد کے جرنیلوں تک، ایک سے بڑھ کر ایک اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا رہا اور ملک کا بیڑہ غرق کرتا رہا۔
اب ان عسکری معاملہ فہموں کے بارے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رائے جان لیجیے، اپنی کتاب’تفہیمات‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انہی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انہوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے اْلٹنے اور خود اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے اْن کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اْن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں رہا بلکہ اب اْن کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی مْلکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اْن کی قوموں نے اْن کو مدافعت کے لیے دیے تھے اْنہی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو غلام بنالیں‘۔
’اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں۔ اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں بلکہ ہر فوجی افسر اس تاک میں لگا ہْوا ہے کہ کب اْسے سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اْس کی جگہ لے لے۔ اِن میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیمِ انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے‘۔
’مشرق سے مغرب تک بیشتر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیر اندھیرے میں انقلاب کی کچھڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروں پر اْلٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی اْبھر کر آتا ہے وہ اپنے پیشرو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فِسق کا علمبردار ہوتا ہے‘۔
22 ستمبر 1979 کو انتقال کرنے والے سید ابوالاعلیٰ مودودی جب تک زندہ رہے، وہ اور ان کی جماعت اس ملک پر مسلط طبقہ اشرافیہ کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی۔ مولانا ہمیشہ جرنیلی سیاست کی راہ میں مزاحم رہے۔ اللہ نے انہیں ایسی بصیرت سے نوازا کہ وہ جرنیلوں کی بچھائی ہوئی بساط سے بہت دور رہتے تھے۔ ان کے جانشین اپنے قائد کے سکھائے ہوئے سبق کو بھولے تو انہیں طرح، طرح کے سبق سیکھنے کو ملے۔ شاید اب صبح کے بھولے شام کو لوٹ رہے ہیں کیونکہ ان پر حقیقت کھل رہی ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر ہی میں اس ملک اور قوم کے تمام مسائل کا حل مضمر ہے۔