آج 7 اکتوبر ہے، 65 برس قبل اسی روز ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے پاکستان پر ایک طویل رات مسلط کردی، اس سے جڑے ایک واقعہ جو چار ماہ قبل رونما ہوچکا تھا، کے بارے میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ وہ واقعہ نہ ہوتا تو پاکستان کی تقدیر کا ستارہ جس انداز سے چمکتا، اس کا زائچہ تیار کرنے کے لیے کسی خاص علم نجوم کی ضرورت نہ ہوتی‘۔ اور یہ واقعہ تھا بری فوج کے سربراہ کی ایکسٹینشن کا۔
1958 کے چار، پانچ ماہ کے دوران رونما ہونے والے ان واقعات کے دو ہی کردار تھے۔ ایک اسکندر مرزا اور دوسرے جنرل محمد ایوب خان۔
اول الذکر یعنی اسکندر مرزا کے اندر ایک طرف اپنے پڑدادا’میر جعفر‘ کا خون ابلتا تھا، وہی میر جعفر جنھوں نے نواب سراج الدولہ سے غداری کرکے انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔ اور دوسری طرف وہ شاہ ایران اور شاہ افغانستان جیسے بادشاہ بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ ثانی الذکر بھی کرسی اقتدار کے لیے کم باؤلے نہیں تھے۔
اسکندر مرزا نے جون 1958 میں ایک دو سطری نوٹ کے ذریعے جنرل ایوب خان کو بری افواج کے کمانڈر انچیف کے طور پر 2 سال کی توسیع دی۔ یہ ایک ساز باز تھی، جس کے اگلے مرحلے میں انہوں نے سات، آٹھ اکتوبر کی درمیانی شب ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کردیا۔
اس وقت تک جنرل ایوب خان ملک پر حکمرانی کیسے کرتے ہیں؟ کے سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے کافی کتب پڑھ چکے تھے۔ چنانچہ 20 دن بعد یعنی 27 اکتوبر1958 کو انہوں نے اسکندر مرزا کو زوردار لات ماری اور خود اقتدار کی کرسی پر اچھل کر بیٹھ گئے۔
معروف بزرگ صحافی، دانش ور، تجزیہ نگار اور کالم نگار جناب ڈاکٹر فاروق عادل نے مذکورہ بالا دونوں کرداروں کی ایک داستان عبرت نہایت تفصیل سے اپنی کتاب’ جو ہم نے بھلا دیا‘ میں لکھی ہے:
’ گھڑی کی سوئیوں نے اِدھر دس بجنے کا اعلان کیا اُدھر رات کے اندھیرے میں ایوب خان کا سُرخ و سپید چہرہ چمکا، انہوں نے صدر مملکت اسکندر مرزا کو سیلوٹ کیا اور کہا ’سب ٹھیک ہے سر، آپریشن مکمل ہو چکا ہے۔‘
اس اعلان کے ساتھ ہی ماحول پر چھایا تناؤ چھٹ گیا اور اسکندر مرزا نے خوش دلی کے ساتھ اشارہ کیا جسے دیکھتے ہی چار، پانچ خدمت گار چھلکتے ہوئے جام ٹرے میں سجائے نمودار ہوئے اور محفل جوان ہو گئی۔
ان ہی چسکیوں کے دوران اسکندر مرزا کے دل میں جانے کیا خیال آیا کہ وہ یک دم سنجیدہ ہوئے، ایوب خان کا بازو پکڑ کر انہیں قریب کیا اور منہ اُن کے کان کے قریب لے جا کر سرگوشی کی ’ایوب، کیا میں صبح کا سورج دیکھ سکوں گا؟‘
ایوب خان مسکرائے لیکن خاموش رہے اور آگے بڑھ کر اُن کی کمر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
اسکندر مرزا بتاتے ہیں کہ اس کے ٹھیک 20 دن بعد رات کے اُسی پہر بیرے نے اُن کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا، وہ گاؤن پہن کر باہر نکلے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایوان صدر کی راہداریوں اور باغ کی روشوں میں سٹین گن اور دوسرے اسلحہ سے لیس بڑی تعداد میں فوجی کھڑے تھے۔
اسکندر مرزا سیڑھیاں اُتر کر باہر آئے تو ان کا سامنا چار جرنیلوں، جنرل شیخ، جنرل برکی، جنرل اعظم خان اور میجر جنرل شیر بہادر، سے ہوا۔ ان میں سے کسی ایک نے اُن سے بات کی اور اسکندر مرزا کے اپنے الفاظ میں یہ پیغام دیا ’انہوں نے کہا، مجھے پاکستان چھوڑنا پڑے گا۔‘
میں نے پوچھا ’کیوں؟‘ جواب ملا ’ملک کا مفاد اسی میں ہے۔‘
اس کے بعد اسکندر مرزا نے بتایا کہ بندوق کے زور پر میرا استعفیٰ لینے کے بعد تین جرنیل واپس چلے گئے اور میجر جنرل شیر بہادر کو وہیں چھوڑ گئے، جس نے اُن کے اور اُن کی اہلیہ ناہید مرزا کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔
ایک گھنٹے کے اندر اندر ایوان صدر کے مکین اپنا سامان باندھ کر چلنے کے لیے تیار تھے۔ انہیں ماڑی پور ایئر پورٹ پہنچا دیا گیا جہاں امریکی سفیر انہیں خدا حافظ کہنے کے لیے موجود تھے۔ ایئرفورس کے سربراہ ایئرمارشل اصغر خان بھی موجود تھے اور دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ اس صورتحال سے خوش نہ تھے۔
ان مسافروں کو ایک بار بردار جہاز میں سوار کروا کر کوئٹہ پہنچایا گیا، جہاں آئندہ کچھ دن تک انہیں بلوچستان انتظامیہ کے ایک افسر کے گھر قیام کرنا تھا۔
کیا معزول صدر یہ سفر ایک قیدی کے طور پر کر رہے تھے؟
اسکندر مرزا نے اپنی یاداشتوں میں ایسا کوئی لفظ تو استعمال نہیں کیا لیکن ایوان صدر اور اس کے بعد کوئٹہ میں قیام کے دوران انہوں نے اپنے ارد گرد اسلحہ برداروں کی بہتات کا ذکر کیا ہے جس سے یہی تاثر ملتا ہے، لیکن ایوب خان دوسری بات کہتے ہیں۔
اپنی یاداشتوں میں انہوں نے لکھا ہے کہ اسکندر مرزا کی معزولی کی اطلاع ملنے پر آسٹریلیا کے ہائی کمشنر ملنے کے لیے اُن کے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا وہ اسکندر مرزا سے مل سکتے ہیں؟ اس پر ایوب خان نے بتایا کہ یہ ملاقات بالکل ممکن ہے۔ یہ مکالمہ نقل کرنے کے بعد ایوب خان نے اپنا ایک تبصرہ لکھا ہے ’وہ کوئی قیدی تھوڑا ہی تھے۔‘
ایوب خان کا یہ تبصرہ اسکندر مرزا کے ساتھ کیے جانے والے سلوک اور اس سلسلے میں ان کے ذہنی احساسات کو بڑی خوبی سے بیان کرتا ہے۔
ایوب خان ہوں یا اسکندر مرزا، آئین کی منسوخی اور مارشل لا کے نفاذ کے بارے میں دونوں کے خیالات میں کوئی فرق نہ تھا۔ دونوں نے یہ مہم اکٹھے ہی سر کی تھی لیکن صرف تین ہفتے کے دوران ایسے کیا اختلافات پیدا ہو گئے جن کے باعث مارشل لا کے ناظم اعلیٰ ایوب خان کو یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا؟
ایوب خان اس کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ آئینی اور قانونی نظام کو لپیٹ کر ملک کو ایک نئی اور انجانی منزل تک پہنچا دینے والی ان دونوں شخصیات کے درمیان نفاق کا پہلا بیج ایوب خان ہی کے ایک مطالبے سے پھوٹا، جب انہوں نے اسکندر مرزا سے کہا کہ وہ دو خط تحریر کریں، ایک وزیر اعظم فیرز خان نون کے نام جس میں بتایا جائے کہ یہ ماورائے آئین قدم کیوں اٹھایا گیا اور دوسرا خود ایوب خان کے نام جس میں مارشل لا کے تمام اختیارات بلاتردد ان کے سپرد کر دیے جائیں۔
اسکندر مرزا نے پہلا خط تو فوری طور پر لکھ دیا لیکن دوسرا خط لکھنے میں انھیں تامل تھا لیکن تین دن کی مزاحمت کے بعد یہ کام بھی انہوں نے بالآخر کر دیا، گویا دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
اسکندر مرزا تو یہ کہتے ہیں کہ مارشل لا کے نفاذ کے فوراً ہی بعد ایوب خان کے انداز بدل گئے۔ اُن کے بقول ایوب خان اتنے شاطر تھے کہ میکاولی بھی ان سے دھوکا کھا جاتا۔ ان دو خطوط کے لکھے جانے کے بعد معاملات درست ہو جانے چاہئیں تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ اسکندر مرزا کے بقول ایوب خان نے ان سے نگاہ ملا کر بات کرنا بند کر دی۔
اس کے برعکس ایوب خا ن الزام لگاتے ہیں کہ مارشل لا کے نفاذ کے بعد میاں بیوی کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور بیگم ناہید مرزا اور اسکندر مرزا کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کی آواز باہر تک سنائی دیتی۔ وہ کہا کرتیں کہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے تمام تر اختیارات ایوب خان کے پاس چلے گئے ہیں، یوں گویا انہوں نے اپنے ہاتھ خود اپنے ہاتھوں سے کاٹ لیے ہیں اور اب ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ ایوب خان کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ ایوب خان نے ختم کرنے کے الفاظ استعمال کیے گئے، اس سے قتل کرنے کی مراد بھی لی جاسکتی ہے۔
ایوب خان الزام لگاتے ہیں کہ اپنی بیوی کی باتوں میں آ کر اسکندر مرزا اسی راستے پر چل پڑے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے انٹیلیجنس کے ذریعے فوجی دستوں کی نقل و حرکت اور ان کی پوزیشن کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کی جب کہ ایئر فورس کے ذریعے کئی اہم جرنیلوں کر گرفتار کرانے کی کوشش کی۔
ایوب خان کے بقول یہ ایک ایسی خطرناک کوشش تھی جس کے نتیجے میں مسلح افواج کے درمیان تصادم ہو جاتا۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ اسکندر مرزا نے ایئر کموڈور رب کو ٹیلیفون پر ہدایت دی تھی کہ وہ بری فوج کے تین جرنیلوں جنرل یحییٰ خان، جنرل شیر بہادر اور جنرل حمید کو گرفتار کر لیں۔اسکندر مرزا کا مؤقف اس کے بالکل برعکس ہے۔
ایوب خان کے بقول اسکندر مرزا ایئر کموڈور رب کے ہاتھوں جن جرنیلوں کو گرفتار کرانے کی بات کرتے ہیں، اسکندر مرزا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان میں سے دو تو کراچی میں موجود ہی نہ تھے بلکہ سات سو میل دور راولپنڈی میں تھے، لہٰذا ان کی گرفتاری کی بات محض افسانہ ہے۔ دوسری بات اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایئر کموڈور رب جن کے ایک بیان پر جرنیلوں کی گرفتاری کی کہانی کھڑی کی گئی، اس لیے بھی قابل اعتماد نہیں ہیں کہ وہ اسکندر مرزا سے پہلے سے ہی ناراض تھے اور انھیں نقصان پہنچانے کے لیے کسی موقع کی تاک میں تھے۔
اسکندر مرزا کے بقول اس کا سبب یہ تھا ایئر کموڈور رب ایئر فورس کا سربراہ بننے کی خواہش رکھتے تھے لیکن ان کی غیر ذمے داری اور کھلنڈرے پن کی وجہ سے انہیں نظر انداز کر کے اصغر خان کو یہ عہدہ دے دیا گیا تو وہ ان کے خلاف ہو گئے اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے اس منصوبے میں شریک ہو گئے۔
ایوب خان لکھتے ہیں کہ اس سازش کے بے نقاب ہونے کے بعد انہوں نے اسکندر مرزا سے ملاقات کی۔ اس موقع پر دونوں شخصیات کے درمیان ہونے والے مکالمے سے واضح ہو جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا منظر ظہور میں آنے والا تھا:
ایوب خان: آپ کا ارادہ کیا ہے؟ میں نے سُنا ہے کہ آپ فوجی افسروں کی گرفتاری کے احکام دیتے رہے ہیں۔
اسکندر مرزا: آپ کو غلط اطلاع ملی، اس میں ذرا بھی سچ نہیں ہے۔
ایوب خان: دیکھیے، یہ عیاری اور چال بازی ختم کیجیے، ہوشیار رہیے، آپ آگ سے کھیل رہے ہیں، حالانکہ اس کی کچھ ضرورت نہیں ہے، ہم سب آپ کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں پھر آپ ایسی شرارتیں کیوں کر رہے ہیں؟
ایک ایسے صدر کے ساتھ گفتگو میں، ایوب خان جس کی وفاداری کا دم بھرنے کا دعویٰ بھی کرتے تھے، عیاری، چال بازی، آگ سے کھیلنا اور شرارت جیسے الفاظ کا استعمال ظاہر ہے کہ ایک وارننگ کی حیثیت رکھتے تھے۔
ایک ہی راستے کے مسافروں یعنی مارشل لگانے والی دو طاقتور شخصیات کے درمیان تیزی سے بڑھنے والی یہ دوریاں کچھ ایسی غیر فطری بھی نہیں تھیں۔ اس کا سبب صدر مملکت کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب بیان کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ مارشل لا کے نفاذ کے بعد اگلے روز میں ایوان صدر پہنچا تو صدر مملکت یعنی اسکندر مرزا وہاں کٹی ہوئی پتنگ کی طرح پھر رہے تھے۔ سبب اس کا یہ تھا کہ آئین کی منسوخی کی صورت میں انہوں نے وہ شاخ ہی کاٹ ڈالی تھی جس پر ان کا یعنی صدر مملکت کا آشیانہ تھا۔ آئین کے خاتمے کے بعد صدر مملکت کا منصب اضافی اور غیر ضروری ہو چکا تھا جس کے مناظر مارشل لا کے نفاذ کے اگلے ہی روز دکھائی دینے لگے۔
کچھ ایسی ہی بات ایوب خان نے بھی لکھی ہے۔ ان کے مطابق فوج کے شعبہ قانون نے انہیں مشورہ دیا کہ مارشل لا کے نفاذ کے بعد صدر کا منصب اضافی ہو چکا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس سے نجات حاصل کر لی جائے۔
یہ مسئلہ فوری طور پر ’حل‘ کرنے کی نوبت کیوں آئی؟ ایوب خان کی بتائی ہوئی اس وجہ پر اعتبار کیا جائے کہ اسکندر مرزا سازشوں پر اتر آئے تھے یا اسکندر مرزا کے جوابی الزامات پر، ان دونوں کے دعوؤں میں اپنی اپنی جگہ وزن ہو گا لیکن اصل بات یہی تھی کہ ایک نیام میں دو تلواروں کا سمانا چونکہ ممکن نہ تھا، اس لیے کسی ایک کو جانا ہی تھا اور جانا اسی کو تھا جو طاقت سے محروم تھا۔
پاکستان کا سیاسی نظام اس زمانے میں جیسا کیسا بھی تھا، ایک زمانہ تھا کہ اس میں صدر اسکندر مرزا اتنے مضبوط تھے کہ پورے ملک کی سیاست ان کی انگلیوں پر ناچتی تھی، حکومتیں بنتی اور بگڑتی تھیں اور لوگ ان کی نظر عنایت کے منتظر رہا کرتے تھے۔ اتنا طاقتور حکمران اتنی کسمپرسی کی کیفیت کا شکار کیسے ہو گیا تو اس کا دو لفظی جواب یہی ہے کہ مارشل لا۔
اسکندر مرزا نے مارشل لا لگا کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں ماری؟ ایوب خان ہوں یا اسکندر مرزا، دونوں مارشل لا کے نفاذ کی ایک جیسی وجوہات ہی بیان کرتے ہیں کہ سیاستدان ملک کے وفادار نہ تھے اور اپنی ہوس اقتدار میں ملک کو تباہ کرنے کے درپے تھے۔
اسکندر مرزا بھی یہی کہتے ہیں، اضافی بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ سیاست دان ایوان صدر کے سامنے جلسے کرتے تھے اور انھیں دھمکیاں اور گالیاں دیا کرتے تھے۔ حزب اختلاف کے لوگ حکمرانوں کے لیے سخت زبان استعمال کیا ہی کرتے ہیں لیکن مارشل لا جیسا بڑا قدم اٹھانے کے لیے اس سے کچھ بڑی وجہ درکار ہونی چاہیے۔
خان آف قلات میر احمد یار خان بلوچ کا خیال ہے کہ اسکندر مرزا آئندہ عام انتخابات سے خوفزدہ تھے اور سمجھتے تھے کہ محترمہ فاطمہ جناح اور حسین شہید سروردی جیسے قد آور رہنماؤں کے مقابلے میں ان کی دال گلنے والی نہیں، اس لیے انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کرنے کے لیے انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔
قدرت اللہ شہاب اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ وہ اگلی مدت کے لیے بھی صدر بننے کی خواہش رکھتے تھے لیکن 1956 کے آئین کے مطابق ایک صدر، صدر رہتے ہوئے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں تھا، آئندہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے انہیں مستعفی ہونا پڑتا لیکن وہ اس کے لیے تیار نہ تھے، لہٰذا مارشل لا کے نفاذ میں انہیں زیادہ آسانی دکھائی دی۔
پاکستان جیسے نوزائیدہ ملک کے اقتدار کے ایوانوں میں جس وقت یہ کھیل چل رہے تھے، دنیا میں مارشل لا نافذ کر کے حکومتوں کو رخصت کرنے کا چلن ابھی شروع نہیں ہوا تھا، اس لیے ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ اس مقصد کے لیے عالمی برادری، خاص طور پر امریکا کو ہم خیال بنایا جائے تاکہ کوئی بڑی رکاوٹ درمیان میں پیدا نہ ہو۔
اس مقصد کے لیے دو دلائل تراشے گئے، پہلی دلیل یہ تھی کہ پاکستانی عوام ابھی پارلیمانی جمہوریت کو سمجھتے نہیں اور دوسرے یہ کہ اگر عام انتخابات ہو گئے تو اس کے نتیجے میں ملک پر کیمونسٹ غالب آ جائیں گے۔
اسکندر مرزا نے امریکیوں کو قائل کرنے کی یہ ذمہ داری ایوب خان کو سونپی جن کے ذہن میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی خواہش پہلے سے ہی انگڑائی لے رہی تھی، اسکندر مرزا نے منصوبے میں شامل کر کے ان کا راستہ خود بخود آسان کر دیا لیکن ایک وجہ اس کے علاوہ بھی ہے۔
تقریباً دو سو برس قبل انگریزوں کی مدد سے نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال میں اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کرنے والے میر جعفر کی اولاد اسکندر مرزا کے مزاج میں بوئے سلطانی ابھی تک موجود تھی۔ پاکستان کے گرد و پیش میں اس زمانے میں دو بادشاہتیں موجود تھیں، ایک افغانستان کی اور دوسری ایران کی۔
اسکندر مرزا جب ان بادشاہوں کے جاہ وجلال کو دیکھتے تو ان کے دل میں بھی ایسی ہی خواہشات سر اٹھاتیں۔اس نوعیت کے کچھ آنکھوں دیکھے واقعات قدرت اللہ شہاب نے بیان کیے ہیں۔ان میں سے ایک واقعہ کابل کے شاہی محل دل کشا کا ہے جس کی چکا چوند دیکھ کر اسکندر مرزا کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور دوسرا واقعہ ایران کا ہے۔
بیگم ناہید مرزا نے ایک شاہی ضیافت کا منظر یاد دلاتے ہوئے شہاب صاحب سے کہا کہ ان دعوتوں میں دو، دو جرنیل شاہ ایران کے پیچھے کھڑے رہتے ہیں اور یہاں دیکھو، میجر رینک کے اے ڈی سی ہمارے برابر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، اس پر تم لوگوں کو کچھ سوچنا چاہیے۔
پاکستان کی ابتدائی سیاست کی اس الف لیلہ میں کسے کیا سوچنا چاہیے تھا، بس سوچ کے اسی بحران نے اس ملک ہی نہیں بلکہ اچھے بھلے طاقتور حکمران کو زوال سے دوچار کر دیا۔ زوال کا جو سفر سات، آٹھ اکتوبر کی درمیانی شب مارشل لا سے شروع ہوا تھا، 27 اکتوبر کو صدارت کے منصب سے ان کی معزولی اور دو نومبر 1958 کو ان کی ملک بدری کا باعث بنا اور اسی دربدری میں ہی موت کے منہ تک جا پہنچا‘۔
حرص و ہوس کی کہانی پاکستان میں بالکل اسی انداز میں بار بار دہرائی گئی، ہر دس سال بعد ایک نیا اسکندر مرزا اور ایوب خان آیا، اس نے پرانے اسکندر مرزا اور ایوب خان والے مکالمے دوہرائے۔
جنرل یحییٰ خان، جنرل محمد ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی اسکندر اور ایوب والا جملہ ہی بولا کہ ’سیاستدان ملک کے وفادار نہ تھے اور اپنی ہوس اقتدار میں ملک کو تباہ کرنے کے درپے تھے‘ اور پھر اپنے اپنے مارشل لا کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں قرار دیا۔
کرسی اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے ہلکان ہونے والے ہر جرنیل نے اپنے حکمران سے کہا’ہم سب آپ کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں‘ اور پھر اسی سانس میں حکمران کو حکم دیا ’یہ عیاری اور چال بازی ختم کیجیے، ہوشیار رہیے، آپ آگ سے کھیل رہے ہیں، آپ ایسی شرارتیں کیوں کر رہے ہیں؟‘
خدا ہی جانے پاکستان میں حرص و ہوس کا یہ کھیل کب ختم ہو! 75 برس تو ضائع ہوچکے، پون صدی کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ تاہم اب بھی کچھ عقل آجائے، درست سمت پر سفر شروع ہوجائے تو غنیمت ہے۔
ڈاکٹر فاروق عادل نے اپنی کتاب میں مزید بہت سی کہانیاں نہایت تفصیل سے لکھی ہیں۔ یہ کتاب دراصل تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق ہیں۔ اور یہی اصل تاریخ پاکستان ہیں۔ کتاب ’قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل‘( موبائل نمبر 03000515101 ) نے شائع کی ہے۔