پاکستان پر تین بار حکمرانی کرنے والے نواز شریف چار برس کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد آج پاکستان آ رہے ہیں۔ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں، وہ پاکستان کی طرف مرحلہ وار سفر کرتے ہوئے دوبئی پہنچ چکے ہیں، اس سے قبل وہ لندن سے سعودی عرب پہنچے۔
نواز شریف کی واپسی سے جڑے موضوعات بہت سے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو ان موضوعات پر ایک، ایک کرکے بات کی جائے گی، فی الوقت اہم ترین سوال ہے کہ ان کے آنے سے پاکستانی قوم کو کیا فائدہ ہوگا؟
مسلم لیگی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق نواز شریف آج لاہور کے تاریخی مینارپاکستان گراؤنڈ میں ایک بڑے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے قوم کے سامنے ایک اہم بیانیہ پیش کریں گے۔ یہ بیانیہ پاکستانی معیشت سے متعلق ہوگا کہ وہ کیسے پاکستانی قوم کو بدترین معاشی بحران سے نجات دلائیں گے؟
یقیناً نواز شریف کی طرف لوگ تب ہی متوجہ ہوں گے، انھیں اپنی امیدوں کا مرکز و محور بنائیں گے جب وہ ایک واضح اور آسان فہم لائحہ عمل دیں گے۔ ورنہ پاکستانی قوم جہاں ہائیبرڈ رجیم کے انجینئرز سے سخت ناراض ہے، وہاں مسلم لیگ ن سے بھی ناخوش ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستانی قوم کے ساتھ جو ظلم ہوا، اس کا اندازہ پیٹرول قیمتیوں کے ایک مختصر تقابل سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ نواز شریف کو جب نااہل قرار دیا گیا تو اس وقت پیٹرول 71 روپے فی لیٹر تھا،عمران خان دور کے اختتام پر 150 روپے لیٹر تھا، شہباز شریف نے اقتدار چھوڑا تو اس کی قیمت 273 روپے تھی۔ پھر نگراں دور میں قیمت 333 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی۔ اسی طرح باقی تمام اشیائے ضروریہ بھی لوگوں کی رسائی سے دور ہوئیں۔
اب ایک اور انداز میں اس کہانی کو سمجھ لیتے ہیں۔ عمران خان نے پیٹرول قیمتوں میں دوگنا اضافہ کیا، شہباز شریف نے بھی دوگنا اضافہ کیا حالانکہ قوم کو شہباز شریف سے توقع تھی کہ وہ ہائبرڈ رجیم کے دیے ہوئے زخموں پر پھاہا رکھیں گے، لیکن انھوں نے بھی قوم کو مزید زخم دیے۔ اس کا جواز کچھ بھی پیش کیا جائے تاہم قوم اس قدر زخموں سے چور ہے کہ وہ شہباز شریف سے بھی سخت مایوس اور ناراض ہوئی، بہ الفاظ دیگر مسلم لیگ ن یا نواز شریف سے مایوس ہوئی۔ یہ ناراضی اب بھی قائم ہے۔
سوال یہ ہے کہ نواز شریف اس ناراضی کو کیسے ختم کریں گے؟ان کے لیے یہی ایک بڑا چیلنج ہے۔ مکرر عرض ہے کہ اس کے لیے ایک ایسے لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو قوم کو بہ آسانی سمجھ آ سکے اور قوم اس پر یقین بھی کرسکے۔
نواز شریف نے گزشتہ چار برس لندن میں گزارے۔ اس دوران انھیں خوب غور و خوض کا موقع ملا ہوگا کہ وہ ناراض قوم کو کیسے راضی کریں؟ کیسے اسے مایوسی سے نکال کر پُرامید بنائیں؟ کیسے اس کی زندگی آسان کریں؟ یقیناً وہ اب ایک نسخہ لے کر ہی واطن واپس آ رہے ہیں۔
دو روز قبل مسلم لیگ ن نے ایک ترانہ ریلیز کیا جو ایک اعتبار سے نواز شریف کے تین ادوار حکومت کی کارکردگی رپورٹ بھی ہے اور اگلے دور کا منشور بھی۔ اس ترانے میں بتایا گیا ہے کہ جب 2016 میں نواز شریف کو ایوان اقتدار سے نکالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا تھا، مہنگائی کی شرح 4 فیصد تھی جو 2003 کے بعد سب سے کم درجے پر تھی، زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر تھے جو پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ تھے، قومی ترقی کی شرح 5.3 فیصد تھی۔
2018 میں جب مسلم لیگ ن کا دور اقتدار ختم ہورہا تھا، بناسپتی گھی 900 روپے کا پانچ کلو ملتا تھا، آٹا 360 روپے کا 10 کلو ملتا تھا، چینی 54 روپے فی کلو تھی، چکن کا گوشت 184 روپے فی کلو تھا، چاول 60 روپے کلو ملتے تھے، انڈے 95 روپے فی درجن تھے، ایل پی جی کا 11 کلو والا سیلنڈر 1140 روپے میں ملتا تھا، دودھ 102 روپے فی لیٹر تھا بجلی کا ایک یونٹ ڈھائی روپے کا تھا جبکہ سیمنٹ کی بوری 530 روپے میں دستیاب تھی۔
نواز شریف کے دور میں جس تیزی سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا، اس کی نظیر پاکستانی تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملی۔ چار برسوں میں بجلی کی پیداوار 11952 میگاواٹ سے 23353 میگاواٹ تک بڑھ گئی تھی۔ پھر نواز شریف کی حکومت ختم کردی گئی۔
نواز شریف کا پچھلا دور حکومت ہی تھا، جب فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بٹوری گئی رقم قوم کو واپس کی گئی۔ پاکستانی تاریخ میں ایسا ایک ہی بار ہوا۔ مجھے یہ رقم تب واپس ملی جب میں ایک روز بجلی کا بل ادا کرنے گیا تو بینک کے کیشیئر نے بتایا کہ آپ کی اتنی رقم واپڈا کی طرف جمع ہے، اور پھر مجھے تین ماہ تک بل ادا نہ کرنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم چند افراد کو نہیں، پوری پاکستانی قوم کو واپس کی گئی تھی۔
مسلم لیگ ن کے حالیہ جاری ہونے والے ترانے میں ’مہنگائی کو کم کرنا ہے، مزدور کے گھر کو بھرنا ہے، غربت کا جینا مشکل ہے، ہمیں جینا سستا کرنا ہے‘ کے بول بھی ہیں جو دراصل قوم سے وعدے ہیں۔ صاف اور سیدھی بات ہے کہ نواز شریف اور ان کی پارٹی نے پاکستانی سیاست میں زندہ رہنا ہے تو انھیں سب سے پہلے ان وعدوں کی تکمیل کرنا ہوگی۔
فی الواقع ہائبرڈ رجیم اور اس کے بعد ڈیڑھ برس میں لوگوں کی زندگی بہت مشکل ہوچکی ہے، اس قدر زیادہ کہ اپر مڈل کلاس والے بھی چیخ اٹھے۔ غربت کی لکیر کے نیچے جینے والے 40 فیصد پاکستانیوں کا کچھ مت پوچھیے۔
یہ ہائبرڈ رجیم کی’برکات‘ ہیں کہ ہر پاکستانی فرد کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ مزید زندہ کیسے رہے؟ لوگ زندگی کے تقاضے پورے کرنے میں ناکامی پر اپنے بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں، نوجوان ملک کے مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اور پھر سمندر میں غرق ہو رہے ہیں۔
یہ ہے وہ پاکستان جہاں نواز شریف آ رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ 2008 میں جلاوطنی کاٹ کر واپس آئے تھے، تب بھی پاکستان مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ انھیں 2013 میں حکمرانی کا موقع ملا تو انھوں نے جو کچھ کیا، اس کا مطالعہ کسی بھی سرچ انجن کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ اب وہ کیا کریں گے؟ نواز شریف آج کی تقریر میں اس سوال کا جواب دیں گے، ممکنہ طور پر چوتھی بار وزیراعظم بن کر وہ آج کے وعدوں میں عمل کا رنگ بھریں گے۔
پاکستانی قوم اس اہم ترین موقع پر ان سے کہتی ہے کہ اسے اپنی زندگی میں معمولی نہیں، غیر معمولی ریلیف چاہیے۔ یہ ریلیف پانچ سال بعد نہیں، پہلے ہی دن چاہیے جیسے ترکیہ کے طیب ایردوان نے دیوالیہ ترکی کا اقتدار سنبھال کر پہلے ہی دن دیا تھا، جیسا بھارتی ریاست دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال نے وزارت علیا سنبھال کر پہلے ہی دن دیا تھا۔