کراچی کے روزنامہ “جسارت” نے گزشتہ روز ایک جرات مندانہ اداریہ لکھا ہے، ایسی جرات رندانہ کی توفیق آج کےدور میں کسی کو اخبار کو نہیں ہوتی۔ اس اداریہ میں کیاا ہے، خود ہی پڑھ لیجئے:
“عدالت عظمیٰ نے برطانوی شہری ذوالفقار حسین عرف زلفی بخاری کو وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی کے طور پر کام کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ اس سے قبل عدالت عظمیٰ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے معاون خصوصی شجاعت عظیم کو دوہری شہریت رکھنے پر عہدے سے فارغ کر چکی ہے ۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ اس حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ دہری شہریت کا حامل فرد انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا تو پھر ایسے شخص کو کابینہ کا رکن کیسے بنایا جا سکتا ہے اس پر بینچ کے معزز رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اراکین پارلیمنٹ کی نا اہلی سے متعلق قوانین کا زلفی بخاری پر اطلاق نہیں ہو سکتا ۔
بہر حال اب تو فیصلہ ہو گیا ہے کہ زلفی بخاری وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی رہ سکتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے اس کی دلیل یہ دی ہے کہ عدالت عظمیٰ بیرون ملک پاکستانیوں کی قدر کرتی ہے کیونکہ انہوں نے ڈیم کے لیے قابل قدر فنڈز دیے ہیں ، ملکی امور چلانا وزیر اعظم کی ذمے داری ہوتی ہے اس کے لیے معاون خصوصی مقرر کرنا وزیر اعظم کا اختیار ہے ۔ عدلیہ ان کے اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی ۔ درخواست گزار کے کہنے پر زلفی بخاری کو نہیں ہٹا سکتی ۔ اس سماعت کے دوران ایک وقفہ ہوا اور وقفے کے بعد درخواست مسترد کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے تبصرہ کیا ہے کہ زلفی بخاری کان میں کھسر پھسرتو کر سکتے ہیں لیکن وزیر مملکت کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتے ۔
حکومت نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور کرنا بھی چاہیے ، وزیر اعظم کا اختیار ہے اور عدالت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔۔۔ لیکن مسلم لیگی پوچھ رہے ہیں کہ شجاعت عظیم کو مشیر کے عہدے سے ہٹایا پھر معاون خصوصی کے عہدے سے بھی سبکدوش ہونا پڑا۔۔۔ یہ کیا تھا۔۔۔ اس فیصلے کے پس پشت جو سب سے طاقتور دلیل ہے وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی خدمات ہیں ۔۔۔ اور انہوں نے ڈیم کے لیے قابل قدر فنڈ دیا ہے ۔
یہ فنڈ یقیناً چیف جسٹس کی نگاہ میں قابل قدر ہو گا ۔۔۔ لیکن بیرون ملک اور بھی بہت سے پاکستانی ہیں جن کی خدمات کا انہیں صلہ ملنا چاہیے۔۔۔ ڈاکٹر سعید اختر اس صلے کے سب سے زیادہ مستحق ہیں لیکن انہیں تو عدالت میں بلاکر رسوا کیا گیا ۔ شاید ان کا یہی صلہ ہو ۔۔۔ لیکن ڈیم کے لیے انہوں نے خود فنڈ نہیں دیاان سے جرمانہ لیا گیا تھا۔۔۔
عدالت عظمیٰ نے یہ ریمارکس بھی دیے ہیں کہ اگر زلفی بخاری وزیر مملکت کے اختیارات استعمال کریں تو درخواست دیں ہم اس معاملے کو دیکھ لیں گے اور ہم پارلیمنٹ کو مشورہ دے سکتے ہیں لیکن یہ تبصرہ بہر حال قابل غور ہے کہ زلفی بخاری کان میں کھسر پھسر کر سکتے ہیں ، وزیر مملکت کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتے۔۔۔ عدالتی تاریخ میں ایسا فیصلہ یا کھسر پھسر کی اجازت دینے والا تبصرہ شاید پاکستان ہی میں ہو سکتا ہے ۔
تبصروں سے قطع نظر یہ خرابی کا آغاز ہے اور آغاز سے بھی آگے بات جا چکی ہے ۔ جب استثناء دیے جانے لگیں تو پھر قانون کی وقعت نہیں رہتی۔ آئین کو ایک طرف رکھ دیا جانا چاہیے ۔ استثنا نے تو اس ملک کے سیاسی نظام کا بیڑا غرق کیا ۔جسٹس منیر نے ایوب خان کو پہلی مرتبہ نظریہ ضرورت کے تحت استثنا دیا اور اس کے بعد سے ملک کبھی پٹری پر نہیں آ سکا ۔۔۔جنرل ضیاء ، جنرل پرویز ان سب کو استثناء ہی تو ملا تھا پھرخرابیاں بڑھتی گئیں ۔ ایک استثناء کے نتیجے میں خرابیوں کے بڑے دروازے کھلتے ہیں ۔ یہ استثناء حکمران بھی لیتے ہیں ۔ عدلیہ کے جج بھی لیتے ہیں فوجی و سول بیورو کریٹس بھی لیتے ہیں ،
بہت سے قوانین کا اطلاق غریب اور عام شہری پر ہوتا ہے اور مذکورہ بالاافراد و ادارے مستثنیٰ ہوتے ہیں ۔ پھر عوام اور خواص میں دوریاں بڑھتی ہیں ایسے کاموں سے پرہیز بہتر ہے ۔ لہٰذا آئینی اور حکومتی امور میں استثناء دینے کی روایت ختم ہونی چاہیے ممکن ہے زلفی بخاری کی جو خرابیاں بیان کی جاتی ہیں ان کی اچھائیاں اس سے زیادہ ہوں گی لیکن آئینی پابندیاں اچھائیوں اور برائیوں سے قطع نظر کسی فرد کی اہلیت سے بحث کر رہی ہیں ۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ نواز شریف بھی وزیر اعظم تھے اور عمران خان بھی وزیر اعظم اختیار دونوں کا یکساں ہے ۔ ایک کے اختیار میں مداخلت اور دوسرے کے اختیار میں مداخلت سے گریز۔۔۔ یہ کیا ہے ۔۔۔