سسٹین ایبل پالیسی ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ (ایس پی ڈی آئی) نے ایک جرمن ادارے ’ہینرچ بول فاؤنڈیشن‘ کے تعاون سے پاکستان میں عام انتخابات 2013ء سے چند ماہ قبل رائے عامہ کا ایک جائزہ لیا جس کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ ان میں سے کون صاف وشفاف ہے؟
27فیصد کا جواب تھا:’’تحریک انصاف‘‘ جبکہ 21 فیصد نے پیپلزپارٹی اور21 فیصد ہی نے مسلم لیگ (ن) کا نام لیا۔ اسی جائزے میں بتایاگیا کہ ملک میں سب سے مقبول جماعت ’پیپلزپارٹی‘ ہے جسے 18سے35 سال کی عمر کے ووٹروں میں سب سے زیادہ یعنی27 فیصد حمایت حاصل ہے۔
اس کے بعد مسلم لیگ (ن)24فیصد اور تحریک انصاف 23فیصد ووٹ حاصل کریں گی۔ جائزے میں کہاگیا کہ 36سے50برس کی عمر کے لوگوں میں بھی پیپلزپارٹی ہی سب سے زیادہ مقبول ہے، اسے32فیصد عوامی حمایت حاصل ہے جبکہ دوسرا نمبر مسلم لیگ ن(22فیصد(، تیسرا نمبر تحریک انصاف (19فیصد) کا بتایاگیاتھا۔51سال سے 70برس تک کی عمرکے لوگوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو یکساں مقبول قراردیاگیا، دونوں میں سے ہر ایک کو28فیصد حمایت حاصل تھی جبکہ تحریک انصاف کی حمایت 18فیصد بتائی گئی۔70برس سے زائد عمر کے لوگوں میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت46 فیصد، پیپلزپارٹی 28فیصد اور تحریک انصاف کی آٹھ فیصدبتائی گئی۔ جائزے کے نتائج ظاہرکرتے ہوئے کہاگیا کہ پیپلزپارٹی ایک بارپھر برسراقتدارآئے گی۔
اب ایک دوسرے پول سروے کا قصہ پڑھ لیجئے، انتخابات 2013ء ہی کے لئے’انٹرنیشنل ریپبلیکن انسٹی ٹیوٹ‘ نے نو مبر2012ء میں ایک سروے رپورٹ جاری کی جس میں بتایاگیا کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) وفاقی حکومت بنائے گی، رپورٹ کے مطابق32فیصد پاکستانیوں نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا ارادہ ظاہر کیا جبکہ18فیصد نے تحریک انصاف اور 14فیصد نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کی بات کی۔سروے کے مطابق مسلم لیگ (ن) پنجاب میں49 فیصد حمایت کے سبب سب سے زیادہ مقبول اور دوسرے نمبر پر تحریک انصاف تھی۔کہاگیا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی 32فیصد پہلے اور ایم کیوایم 16فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے گی جبکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو32 فیصد ، بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کو 13فیصد عوامی حمایت ظاہرکی گئی۔
جب مئی 2013میں عام انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو ایس پی ڈی آئی کی سروے رپورٹ بُری طرح پٹ گئی، پیپلزپارٹی برسراقتدارنہ آسکی البتہ ’انٹرنیشنل ریپبلیکن انسٹی ٹیوٹ‘ کے کچھ اندازے درست اور کچھ غلط ثابت ہوئے ۔ مسلم لیگ ن نے 32فیصد، تحریک انصاف نے 17فیصد جبکہ پیپلزپارٹی نے15فیصد ووٹ حاصل کئے۔ یہ اندازے درست نکلے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن نے41 فیصد اور تحریک انصاف نے18فیصد ووٹ حاصل کئے، یہ پیش گوئی بھی درست ثابت ہوئی البتہ مقبولیت کی شرح میں فرق نظرآیا۔
سندھ میں پیپلزپارٹی 33فیصد اورایم کیوایم نے 26فیصد ووٹ حاصل کئے۔ سندھ کی حد تک بھی اندازہ درست نکلا البتہ ایم کیوایم کو اندازے سے کہیں زیادہ ووٹ پڑے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو 19فیصد اور جمعیت علمائے اسلام کو14فیصد ووٹ ملے۔ یہاں تحریک انصاف کی مقبولیت بھی ’انٹرنیشنل ریپبلیکن انسٹی ٹیوٹ‘ کے اندازوں سے کہیں کم نکلی، بلوچستان میں مسلم لیگ ن 10فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ یہاں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو 13فیصد ووٹ ملے۔ یہاں موخرالذکر جماعت نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے سروے پول کو غلط ثابت کیا۔
’سسٹین ایبل پالیسی ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ‘ کی رپورٹ مکمل غلط ثابت ہونے پر پاکستان میں بعض حلقوں نے جرمن ادارے ’ہینرچ بول فاؤنڈیشن‘ پر الزام عائد کیاگیا کہ اس نے پیپلزپارٹی کے حق میں جانبدارانہ رپورٹ جاری کی تاہم ادارے نے اپنے وضاحتی بیان میں کہاکہ سروے پول کا ذمہ دار ’سسٹین ایبل پالیسی ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ‘ تھا، اس نے محض تعاون کیاتھا۔
یقیناً دنیا میں ایسے بھی معاشرے ہیں جہاں بیشتر رپورٹس بدنیتی اور تعصب کی بنیاد پر جاری کی جاتی ہیں نتیجتاً سروے پول کرانے والے اداروں کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتاہے مثلاً مصر کے صدارتی انتخابات 2012ء سے پہلے رائے عامہ کے تمام جائزوں میں عصر حاضر کی سب سے قدیم اسلامی تحریک ’اخوان المسلمون‘ کے سیاسی بازو’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ سے تعلق رکھنے والے صدارتی امیدوارڈاکٹرمحمد مرسی کا ذکر تک نہیں کیاگیا تھا لیکن جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو ڈاکٹرمحمد مرسی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔
مختلف اداروں کی طرف سے جاری کردہ 30سروے رپورٹس میں سے کسی ایک نیبھی ڈاکٹرمحمد مرسی کو بہترمقبولیت والا امیدوار قرار نہ دیا۔ ان اداروں میں مصری ادارے بھی شامل تھے اور مغربی ادارے بھی۔ 18اداروں نے عمروموسیٰ (سابق سیکرٹری جنرل عرب لیگ) کو سب سے مقبول امیدوار ظاہرکیا اور ان کی مقبولیت کی شرح 31سے49 فیصد بتائی۔
بعض اداروں نے حازم صلاح ابو اسماعیل کو زیادہ مقبول قراردیا، پانچ اداروں کے مطابق اخوان المسلمون کے سابق رہنما عبدالمنعم ابوالفتوح سب سے زیادہ مقبول نکلے، پانچ اداروں نے احمد شفیق اور دو اداروں نے سابق صدر حسنی مبارک کے ساتھ طویل عرصہ بطور نائب صدر کام کرنے والے عمرسلیمان کو سب سے مقبول امیدوار قراردیا۔ تاہم جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو ڈاکٹرمحمد مرسی نے52 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ یادرہے کہ تیس جائزہ رپورٹوں میں سے ایک رپورٹ میں ڈاکٹرمرسی کی مقبولیت 14فیصد بتائی گئی تھی جبکہ 16اداروں نے 0.9 فیصد سے 9.5فیصد تک بتائی ۔
یوں یہ تمام ادارے اپنے سروے پولز کے ساتھ بری طرح ناکام رہے۔ بعض ماہرین کا کہناتھا کہ ڈاکٹرمحمد مرسی کے بارے میں رائے عامہ کے جائزوں میں ڈنڈی ماری گئی جس کی بنیاد مخصوص تعصبات تھے۔ مصری تاریخ کے پہلے آزادانہ اور صاف وشفاف صدارتی انتخابات کے نتائج نے ظاہرکیا کہ رائے عامہ کے جانبدارانہ جائزوں کو سیاسی پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیاجائے تو ان کے بطن سے کامیابی نہیں ملتی ، عوام میں مقبول رہنماؤں کو رائے عامہ کے کسی جائزے کی ضرورت نہیں پڑتی، ورنہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ مصری انتخابات میں 30اداروں کی سروے رپورٹس یکسر غلط ثابت ہوجاتیں!
ترکی میں صدارتی انتخابات2018 ء سے قبل 26 سروے پول کرائے گئے جن میں سے ہر ایک نے ترک صدر رجب طیب ایردوان ہی کو سب سے زیادہ مقبول رہنما قراردیا، ان کی مقبولیت کی شرح39.7سے52.7 فیصد بتائی گئی۔ نو اداروں کی جائزہ رپورٹس میں بتایاگیا کہ وہ پہلے ہی مرحلے میں ایک بار پھر صدرمملکت کے عہدے کے لئے منتخب ہوجائیں گے تاہم 17اداروں کے مطابق انھیں رن آف الیکشن کے لئے دوسرے مرحلے میں جانا پڑے گا لیکن دوسرے راؤنڈ میں کامیابی انہی کو ملے گی۔ 24جون 2018ء کوانتخابی نتائج سامنے آئے توطیب ایردوان 52.6 فیصد ووٹ حاصل کرکے نئے سیاسی(صدارتی) نظام کے تحت پہلے صدرمنتخب ہوگئے۔
رائے عامہ کے ان چھبیس جائزوں میں بتایاگیاتھا کہ اتاترک کی قائم کردہ سیاسی جماعت’ری پبلیکن پیپلزپارٹی‘ کے محرم اینجہ دوسرے نمبر پر رہیں گے، مختلف رپورٹس میں ان کی مقبولیت کی شرح 21.9سے لے کر32.2 فیصد تک ظاہر کی گئی۔ جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو محرم اینجہ دوسرے نمبر پر ہی رہے اور ان کی مقبولیت کی شرح بھی 30.6 فیصد نکلی۔23 جائزوں میں بتایاگیاتھاکہ نیشنلسٹ جماعت ’حزب الخیر‘ کی بانی سربراہ میرال آکشنر تیسرے نمبر سب سے زیادہ مقبول امیدوار رہیں گی جبکہ تین جائزوں میں کہاگیا کہ پانچ کرد سیاسی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار صلاح الدین دیمرتاس تیسری پوزیشن حاصل کریں گے۔
میرال آکشنر کی شرح مقبولیت آٹھ فیصد سے 22.7 فیصد تک بتائی گئی جبکہ صلاح الدین دیمرتاس کی مقبولیت 8.2 فیصد سے 12.8فیصد تک ظاہر کی گئی۔ تاہم جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو صلاح الدین دیمرتاس8.4 فیصد لے کر تیسرے اور نیشنلسٹ جماعت ’حزب الخیر‘ کی بانی سربراہ میرال آکشنر 7.3فیصد ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہیں۔ یوں 23اداروں کی رپورٹس تیسری اور چوتھی پوزیشن کی بابت غلط ثابت ہوئی۔
بحیثیت مجموعی ترک ادارے دنیا بھر کے(رائے عامہ کے جائزے لینے والے) اداروں کے لئے رہنما اور قابل تقلید ہیں۔ ترکی میں گزشتہ کئی برسوں سے منعقد ہونے والے پول سروے، رائے عامہ کا جائزہ لینے والے اداروں کو سبق دیتے ہیں کہ دیانت داری اور غیرجانبداری سے پول سروے مرتب کیاجائے تو ایسے ادارے معتبر ہوتے ہیں ورنہ دنیا کے سب سے قدیم جمہوری معاشروں میں بھی انھیں رسوائی کا سامنا کرناپڑتاہے۔
دنیا بھر میں رائے عامہ کے غلط اندازوں کی تاریخ بھی خاصی پرانی ہے، تین نومبر1948ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ہیری ٹرومین صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے اپنے ہاتھ میں اخبار ’شکاگو ٹریبیون‘ اٹھایاہوا تھا جس میں ان کی شکست کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ انھوں نے اس اخبار کا خوب مذاق اڑایا۔ برطانیہ میں1992ء کے عام انتخابات سے پہلے زیادہ تر اداروں نے لیبرپارٹی کی فتح کے امکانات ظاہرکئے تاہم جب نتائج سامنے آئے تو کنزرویٹوپارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی۔
اس سے پہلے1970ء میں بھی رائے عامہ کے جائزے غلط ثابت ہوئے اور کنزرویٹوپارٹی جیت گئی تھی۔ اگلی بار یعنی1974ء میں بیشتر برطانوی اداروں نے کنزرویٹو پارٹی کی جیت کا دعویٰ کیا لیکن کامیابی لیبرپارٹی کو مل گئی۔ یادرہے کہ برطانیہ میں 1945ء کے عام انتخابات سے قبل ’گیلپ‘ نے رائے عامہ کا جائزہ لیا اور لیبرپارٹی کی فتح کا امکان ظاہر کیا جبکہ دیگرتمام برطانوی مبصرین اور تجزیہ نگار ونسٹن چرچل کی زیرقیادت کنزویٹوپارٹی کی کامیابی کے دعوے کررہے تھے، انتخابی نتائج سامنے آئے تو ’گیلپ‘ کی جائزہ رپورٹ درست ثابت ہوئی۔
انتخابات سے قبل رائے عامہ کے جائزوں کا ایک مقصد رائے عامہ پر اثرانداز ہونا ہوتاہے۔ برطانوی مصنف پیٹرجوناتھن ہیچنز اپنی کتاب ’ The Broken Compass‘ میں ان جائزوں کو ایک انتخابی ہتھیار قراردیتے ہیں۔مختلف سیاسی جماعتیں اور گروہ اپنی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لئے مختلف اداروں کو باقاعدہ رقوم ادا کرکے سروے پولز کراتے ہیں اور ان کے نتائج کو میڈیا میں خوب مشتہر کرتے ہیں۔
دوسری طرف یہی جماعتیں اور گروہ اپنے امیدواروں کے چناؤ میں انہی اداروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں، ان کی رپورٹس کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں کہ ان کا امیدوار کس کو ہوناچاہئے۔ بہت کم ہوتاہے کہ ایک پول سروے پوری دیانت داری سے مرتب کیاجائے اور وہ غلط ثابت ہو۔ ہمیشہ درست خطوط پر اور غیرجانبداری سے رائے عامہ کا جائزہ لیاجائے تو وہ درست ہی ثابت ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں اپنی پالیسیوں کی بابت عام لوگوں کی رائے جاننے کے لئے بھی یہی راستہ اختیار کرتی ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کے اثرات سے ووٹرز کو بچانے کے لئے دنیا کے بعض ممالک میں قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ ترکی کے انتخابی قوانین کے مطابق یوم انتخاب سے دس روز پہلے رائے عامہ کا کوئی بھی جائزہ ظاہرنہیں کیاجاسکتا۔ کینیڈا میں یوم انتخاب سے تین دن پہلے ایسی سروے رپورٹس پر پابندی عائد کی جاتی ہے جن میں کسی خاص شخصیت یا جماعت کی کامیابی یا ناکامی کا دعویٰ یا امکان ظاہر کیاجائے۔ بھارت میں ووٹنگ سے دو دن پہلے رائے عامہ کے جائزے شائع کرنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے ۔بعض مغربی ممالک انتخاب سے ایک دن پہلے اور بعض چند گھنٹے پہلے پابندی عائد کردیتے ہیں تاہم زیادہ تر مغربی جمہوریتوں میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔
انسانی فطرت ہے کہ وہ وقت سے پہلے اپنے سوالات کے جوابات چاہتاہے۔ آنے والے انتخابات میں کون جیتے گا؟ یہ کسی فرد یا قوم کی سیاسی زندگی کا اہم ترین سوال ہوتاہے۔تاہم ایک ایسی دنیا میں ،جہاں کہیں مطلق العنانیت ہو اور کہیں بدعنوانی اور رشوت ستانی کا بازام گرم ہو، رائے عامہ کے جائزوں پر یقین کرتے ہوئے خوب احتیاط برتنی چاہئے۔
خود مغربی معاشروں میں لوگوں کی اکثریت انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے پہلے رائے عامہ کے جائزوں پر دھیان دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔گزشتہ برس امریکا میں منعقدہ ایک سروے پول کے مطابق امریکیوں کی اکثریت رائے عامہ کے جائزوں پر اعتماد نہیں رکھتی۔ ’ہفنگٹن پوسٹ‘ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں37 فیصدرجسٹرڈ ووٹرز سروے پولز پر دھیان دیتے ہیں جبکہ 60 فیصد ایسے جائزوں کو خاطرمیں نہیں لاتے۔
امریکی سیاسی جماعتوں میں سے47 فیصدڈیموکریٹس ان جائزوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن 53فیصد نہیں رکھتے، اسی طرح 73فیصد ری پبلیکنزبھی ان جائزوں پر یقین نہیں رکھتے۔ دیگر امریکی جماعتوں میں بھی اکثریت ان جائزوں کو غیراہم سمجھتی ہے۔ ایسے میں آپ بھی سروے پولز پر زیادہ دھیان دینے کی کوشش نہ کریں، ویسے بھی ایک چینی محاورہ ہے کہ دانا شخص اپنے فیصلے خود کرتاہے جبکہ ایک جاہل شخص رائے عامہ کے جائزوں دھیان دیتاہے۔