عبیداعوان
اقوامِ متحدہ کے ادارے ’ورلڈفوڈپروگرام‘ نے مجموعی طور پر پوری دنیا کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایاہے کہ ناقص غذا کے سبب دنیا میں ہر تین میں سے ایک شخص کی صحت کو خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 2 ارب آبادی کو جسم کے لیے ضروری وٹامن اور معدنیات میسر نہیں جو انھیں صحت مند رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتے ہیں، نتیجتاً عالمی آبادی مختلف امراض سے دوچار ہورہی ہے جن میں امراضِ قلب، بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دیگر بیماریاں بھی شامل ہیں، ان بیماریوں کی وجہ سے دنیا کا معاشی اور معاشرتی نقصان ہورہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پروسیسڈ غذا اگرچہ امیر ممالک میں بیماریوں کی وجہ بن رہی ہے تاہم اب ان کے اثرات کم ترقی یافتہ اور غریب ممالک میں بھی عام ہورہے ہیں۔ ماہرین نے خبردارکیاہے کہ آئندہ 20 برس میں یہ صورتحال مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے اگر اس مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو یہ بھی ملیریا اور ایڈز کی طرح عالمی بحران بن جائے گا۔ یادرہے کہ دنیا میں 80 کروڑ افراد کو روزانہ کی بنیاد پر بھوک اور کھانے کی کمی کا سامنا ہے، بھوک کی شکار خواتین ایسے بچوں کو جنم دے رہی ہیں جو عمر بھر بیماریوں کی زد میں رہتے ہیں۔
اگرغذائی کمی کے اسباب کا جائزہ لیاجائے تو معاشی استطاعت میں کمی سب سے بڑی وجہ معلوم ہوتی ہے ، ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق دنیا میں 80 کروڑ افراد کو روزانہ کی بنیاد پر بھوک اور کھانے کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کی شکار خواتین ایسے بچوں کو جنم دے رہی ہیں جن کے امراض زندگی بھر ان بچوں سے چمٹے رہتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بھوک اور اس سے جڑی بیماری اقوام کی معیشت کو شدید نقصان پہنچارہی ہے یعنی صرف افریقا اور ایشیا میں ہی جی ڈی پی کا 3 سے 16 فیصد ضائع ہورہا ہے۔
دراصل ہماری انتڑیوں میں لاکھوں، کروڑوں، اربوں نہیں بلکہ کھربوں چھوٹے چھوٹے جرثومے پائے جاتے ہیں؟ مگر ہماری انتڑیوں میں اتنے جرثومے کیوں ہوتے ہیں اور یہ کیا کرتے ہیں؟یہ جرثومے دراصل ہمارے جسم میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان جرثوموں کی وجہ سے ہم اپنی خوراک سے طاقت اور غذائیت حاصل کرتے ہیں اور خوراک کی قلت کے باعث ہمارے جسم میں انتڑیاں اپنا یہ عمل درست طور پر ادا نہیں کر پاتیں اور غذائی قلت ہی کے باعث ہماری انتڑیوں میں موجود یہ جرثومے ختم ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہوتو یہ مسئلہ گھمبیر صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ یادرہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ناقص غذا یا غذائی قلت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
واشنگٹن یونیورسٹی سے منسلک مائیکروبائیولوجسٹ، جیفری گورڈن جیسے ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقص غذا سے بہت سے پیچیدہ اور طویل المدتی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔جیفری گورڈن کا کہنا ہے کہ، ’ناقص غذا کے باعث قوت ِمدافعت کمزور پڑ جاتی ہے اور بعض اوقات تو ختم بھی ہو جاتی ہے؛ آئی کیو لیول میں نمایاں کمی ہوتی ہے اور دیگر بہت سے مسائل بھی لاحق ہو سکتے ہیں‘۔ ماہرین کے مطابق، ایسے بچے جو ایک عرصے تک ناقص غذا کھاتے ہیں، انہیں مستقبل میں کئی عوارض لاحق ہو سکتے ہیں اور وہ بہت سی مستقل بیماریوں میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں۔جیفری گورڈن اور ان کے ساتھیوں نے بنگلہ دیش میں DNAاستعمال کرتے ہوئے، انتڑیوں میں موجود جرثوموں پر تحقیق کی۔ ان جرثوموں کو microbiota کہا جاتا ہے، جو بچے کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ہیئت بدلتے رہتے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلا کہ جو بچے ناقص غذا کھاتے تھے ان میں یہ جرثومے پوری طرح بنے نہیں تھے یا بہت کمزور تھے۔ ان بچوں میں اینٹی باڈیز اور فوڈ سپلیمنٹس کے باوجود، ان جرثوموں کو بہتر نہیں کیا جا سکا تھا۔ جیفری گورڈن کا کہنا ہے کہ ناقص غذا کے اثرات ختم کرنے کے لیے محض اچھی اور صحت بخش غذا کافی نہیں، بلکہ ایسی آنت بھی ضروری ہے جس کے جرثومے صحت بخش ہوں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق اور اس کے نتائج ایک طرف، مگر ناقص غذا کھانے والے بچوں کو ان اثرات سے نکالنا ایک مشکل امر ہوگا جس میں اچھے بیکٹیریے والی خوراک کے ساتھ ساتھ اچھی اور صحت بخش غذا ضروری ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں کو سب کچھ میسرہوتاہے لیکن وہ محض اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے سے لاپروائی برتتے ہیں حالانکہ اپنی غذا کا خیال نہ رکھنا انسان کو جان لیوا حد تک بیمار کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کینیڈا کی میک ماسٹر یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ناقص غذا جسم کے اندر ورم بڑھنے کا باعث بنتی ہے جو مختلف جان لیوا امراض کا باعث بنتی ہے، جن میں فالج اور ہارٹ اٹیک قابل ذکر ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ چینی اور چربی سے بھرپور غذائیں معدے کے بیکٹیریا کا توازن بگاڑ دیتی ہیں جس کے نتیجے میں انتڑیوں کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا ہونے پر انتڑیوں سے ایسے بیکٹریا خارج ہوتے ہیں جو امراض کے خلاف جسمانی دفاعی نظام کو کمزور کرکے خلیات کی عمر تیزی سے بڑھا دیتے ہیں جبکہ موت کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق کے دوران چوہوں پر تجربات کیے گئے جن سے معلوم ہوا کہ غذا کس حد تک جسم میں تباہی کا باعث بنتی ہے۔ تحقیق کے مطابق جسم میں ورم بڑھنے سے ذیابیطس، کینسر، امراض قلب اور دیگر امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔ دہی، کیلے اور بلیو بیریز وغیرہ معدے کے بیکٹیریا کے لیے فائدہ مند غذائیں ہیں جس کی وجہ ان میں وٹامنز، منرلز، پوٹاشیم اور میگنیشم کی مقدار کی موجودگی ہے۔ اس کے مقابلے میں چینی سے بھرپور غذا ہیضے، گیس اور کھچاؤ کا باعث بنتی ہے۔ تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ناقص غذا سے ہونے والے انفیکشن ڈیمینشیا اور خون کی شریانوں میں مسائل کا باعث بھی بنتی ہے۔
تحقیق کے مطابق ناقص غذائی عادات کے نتیجے میں خواتین کے مقابلے میں مردوں میں فالج، دل کے امراض یا ذیابیطس کے نتیجے میں اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور ان میں بھی نوجوانوں کی اکثریت ہے جو جنک فوڈ کے شیدائی ہوتے ہیں۔
ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر گھرانہ اپنی اوسط آمدن کا 50فیصد سے زائد خوراک کے حصول پر صرف کردیتاہے ، اس قدرخطیر بجٹ رکھنے کے باوجود پاکستانیوں کی اکثریت مضرصحت غذا استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں صحت مند غذائیں صرف طبقہ اشرافیہ ہی کو میسر ہیں جو مکمل طور پر قدرتی اندازمیں میں اگائی جاتی ہیں، جس زمین پر وہ اگائی جاتی ہیں وہاں کسی قسم کی کوئی مصنوعی کھاد استعمال نہیں ہوتی نہ ہی دوران کاشت کسی بھی مرحلے پر ان پر کیمیائی چھڑکاؤ ہوتاہے۔
اس طبقہ کو جو دودھ میسر ہے، وہ بھی ایسے مویشیوں کا ہوتاہے جو کیمکلز اور اس کے اثرات سے بہت دور ہوتے ہیں۔ تاہم کروڑوں پاکستانیوں کو میسرغذاؤں میں کوئی ایک بھی چیزایسی نہیں ہوتی جو مضرصحت نہ ہو۔ ا ٓئے روز بعض صوبوں میں فوڈاتھارٹی کا عملہ کبھی کبھار چھاپے مارتاہے اور کھانے کے چند ایک مراکز سیل کرکے باور کراتاہے کہ حکومتیں اس بات کو یقینی بنارہی ہیں کہ عوام کو صحت مند خوراک ملے۔ حالانکہ ایسا ہرگزنہیں، پاکستان میں مضر صحت خوراک اس قدر بڑے پیمانے پر فروخت ہورہی ہے کہ چاروں صوبوں میں فوڈاتھارٹیز کا عملہ متحرک کیاجائے تو بھی اس سنگین مسئلہ پر قابو پانے میں ناکامی کا سامنا کرناپڑے گا کیونکہ لوگوں کو سنگین بیماریوں میں مبتلا کرنے والی غذائی اشیا بہت بڑے پیمانے پر فروخت کی جارہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کرے؟
انسانی صحت کا مسئلہ ریاست میں سب سے اہم ہوتاہے، اس لئے اسے سب سے پہلی ترجیح کے طور پر رکھنا ہوگا۔صوبہ پنجاب میں فوڈاتھارٹی سن 2011ء میں قائم ہوئی، سندھ میں گزشتہ برس قائم ہوئی،خیبرپختونخوامیں سال رواں کے اوائل میں یہ ادارہ قائم ہوچکا جبکہ بلوچستان میں فوڈاتھارٹی قائم کرنے کا قانون 2014ء میں منظورہوا تاہم ابھی تک ایسا کوئی ادارہ معرض وجود میں نہیں آیا۔ اطلاعات ہیں کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی جلد ہی فوڈاتھارٹی قائم ہوجائے گی۔ امید واثق ہے کہ پاکستان میں قائم مذکورہ بالا ادارے پاکستان میں صحت مند خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے تمام تر ضروری اقدامات کریں گے۔ تاہم اس موقع پر چندپہلوؤں کا یاد کرانا ازحدضروری ہے۔
٭حکومت فوڈاتھارٹی کے عملہ پر کڑی نظر رکھنے کا ایک نظام قائم کرے تاکہ اوقات کار کا بہترین استعمال کرے، کم ازکم وقت میں زیادہ سے زیادہ کھانے کے مراکز کی چیکنگ کرے۔
٭کھانے کا ایک مرکز جب سیل ہوجائے تو اس کی دوبارہ بحالی کسی بھی قیمت پر نہ ہو۔ عموماً دیکھاگیاہے کہ محکمہ فوڈاتھارٹی کے ساتھ سازباز کرکے وہی مرکز دوبارہ مضرصحت اشیا فروخت کرنا شروع کردیتاہے۔
٭صرف چند ایک بیکریوں یا ریستوانوں پر چھاپے مارنا کافی نہیں ہے، فوڈاتھارٹی والے بازارمیں فروخت ہونے والی سبزی ، پھل سمیت کھانے پینے کی ہرچیز کو چیک کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسا ہوجائے تو ان اقدامات کے پاکستانی قوم کی صحت پر شاندار اثرات مرتب ہوں گے۔ یاد رہے کہ ایک صحت مند پاکستانی قوم ہی پاکستان کا شاندارمستقبل تعمیر کرسکتی ہے۔
٭عوام کو شعور فراہم کرنے کا بھی بڑے پیمانے پر انتظام ہوناچاہئے تاکہ وہ جہاں بھی مضرصحت چیزفروخت ہوتے دیکھیں، فوراً اس کی اطلاع متعلقہ حکام تک پہنچائیں۔ اس کے لئے نہایت آسان طریقہ کار ہوناچاہئے جسے ایک عام اور ان پڑھ فرد بھی اختیار کرسکے۔
٭ اس کے ساتھ ہی ساتھ حکومت نظر رکھے کہ فوڈاتھارٹی والے رشوت بٹورنے کے چکر میں کسی بے گناہ کو تنگ نہ کریں، اگرایسا کوئی کیس سامنے آئے تو متعلقہ حکام کو کڑی سزا دی جائے۔