رائے صابرحسین……….
جواد کے ہمراہ ہارون آباد جاتے ہوئے ڈونگہ بونگہ میں کچھ دیر رکنے کا فیصلہ کیا، پروفیسر اختر رسول کی زیارت کرنا مقصودتھا۔ پروفیسر پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود فلسفہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، ڈونگہ بونگہ ضلع بہاولنگر کا ایک قصبہ ہے۔ بہاولنگر ماضی کی شاندار ریاست بہاولپور کا اہم ضلع ہے، جسے رقبے کے لحاظ سے پنجاب کا سب سے بڑا ضلع ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، باغات کی سرزمین کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی، سرسبز کھیت سیم و تھور کا شکار ہوگئے، سب سے خوشحال ریاست اب اپنی شناخت بھی کھو چکی ہے، سوچیں زبردستی دماغ میں گھسی آ رہی تھی، سڑک کنارے کھڑی رکی تو خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا، جواد نے مسکراتے ہوئے کہا: ٹی ہاﺅس آ گیا ہے، ڈونگہ بونگہ کے اہل علم نے دو دکانوں پر مشتمل چائے خانہ کو ’ٹی ہاﺅس‘ کا نام دے رکھا تھا، چند بنچ اور میزیں باہر سڑک پر بھی سجائی گئی تھیں، ہم نے پروفیسر صاحب کے بارے میں پوچھا، ان کی ٹیبل پر پہنچے، سلام کیا اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ہمارے بیٹھتے ہی دو پیالے چائے لبالب بھرے ہمارے سامنے دھر دیے گئے۔ پروفیسر ساٹھ کے پیٹے میں تھے، چہرے ہی سے متانت جھلکتی تھی۔ آنے کا سبب پوچھا، ہم نے بتایا: ’جناب کی بہت شہرت سن رکھی تھی، زیارت کی خاطر رک گئے۔‘
ٹیبل پر کئی لمحے خاموش چھائی رہی، پروفیسر صاحب سگریٹ کے کش لگاتے رہے اور دھوئیں کے چھلے بناتے رہے۔ ایک عرصہ سے دماغ میں اٹکا سوال اچانک لبوں پر آ گیا۔ سر! کامیابی کسے کہتے ہیں؟ وہ بولے:’ بچے! ہر ایک کے نزدیک کامیابی کا تصور مختلف ہے‘۔ چند لمحوں کے بعد پھرگویا ہوئے:’کوئی دولت کی ریل پیل کو کامیابی سمجھتا ہے، کسی کے خیال میں اپنے اہداف کو حاصل کرنا کامیابی ہے تو کوئی غربت سے نکل آنے کو کامیابی گردانتا ہے‘۔
’ آپ کے مطابق کامیابی کیا ہے؟‘ میں نے دریافت کیا۔
وہ مسکرائے اور بولے:’ انسان پیدا ہوتا ہے تو روتا ہے، مرتا ہے تو روتا ہے، میرے نزدیک کامیابی یہ ہے کہ انسان روتے ہوئے آئے اور مسکراتے ہوئے جائے‘۔ انہوں نے خاصا لمبا کش لیا، دھوئیں کا چھلہ بنایا اور چھت کو دیکھنے لگے۔ کامیابی کا نیا تصور لیے ہم اپنی منزل کو چل دیے۔