عاصمہ شیرازی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 13 جولائی کی شام تھی۔ جہاز کی کھڑکی سے چمکتا دمکتا لاہور انتہائی خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔ سڑکوں پر جھلملاتی روشنیاں زندگی کا تاثر دو چند کر رہی تھیں۔
یقیناً جولائی کا سخت گرم دن تھا، لگ بھگ ساڑھے سات بجے۔۔۔ یوں بھی سڑکوں پر ہیجان خیز ٹریفک شہر والوں کی خوشگوار شام کی تلاش کی عکاس تھی۔ کوئی غیر معمولی کیفیت لاہور شہر میں نظر نہیں آ رہی تھی۔
بین الاقوامی ایئر لائن کے اس طیارے نے جس میں سابق وزیراعظم اور اُن کی صاحبزادی سوار تھے اور اپنی گرفتاری دینے پاکستان آرہے تھے۔ نے لاہور شہر پر ایک چکر اضافی لگایا۔ شاید جہاز گراؤنڈ پر کی جانے والی تیاریوں کا منتظر تھا۔ مجھے دفتر کی جانب سے اس ’تاریخی‘ واقعے کی کوریج کے لیے بھیجا گیا تھا۔
میں کھڑکی سے لگی بیٹھی تھی جو مبلغ 940 درہم کے عوض بڑی تگ و دو کے بعد ابو ظہبی ایئر پورٹ پر حاصل کی تھی۔
ابھی میں لاہور ایئر پورٹ کے اطراف کا طائرانہ جائزہ لے ہی رہی تھی کہ احساس ہوا کہ جہاز کے درمیان کی نشست پر براجمان میاں نواز شریف بھی میری کھڑکی سے نیچے جھانکنے کی کوششش کر رہے ہیں۔
جیسے ہی میں نے پلٹ کر دیکھا تو میاں صاحب نے اشارتاً پوچھا جہاز سے باہر کی صورت حال کیا ہے؟
میں نے بلند آواز میں کہا، ’ایک چھوٹا جہاز اور ایک ہیلی کاپٹر‘۔ پھر بھی سوال وہیں تھا تو میں نے جواب دیا کہ ’نیچے کوئی نہیں ہے‘۔ میاں صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور آ کر گزر گیا۔
نواز شریف اُس دن شاید لاہور اُترے ہی اس لیے تھے کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ایئر پورٹ تک ضرور آئے گا۔ شاید انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اُن کی جماعت کے سرکردہ رہنما عوام کو لاہور کی سڑکوں پر ہی گھما کر واپس لے جا چکے تھے۔
نواز شریف اور مریم نواز جیل چلے گئے جبکہ شہباز شریف ’مذاکرات‘ کی باتیں کرنے لگے۔
یوں تو موقع بھی تھا اور دستور بھی کہ کمان شہباز کے ہاتھ آئی۔ آخر نواز لیگ کو نئے قائد اور نئی حکومت کو نئے ڈراوے کی ضرورت تھی لیکن یہاں کپتان نے وہ سیاست کی جس کا اندازہ کسی کو نہ تھا۔
کپتان اپنی پچ پر اپنے موسم کے مطابق کھیل کو تیار تھے۔ یہ کیسے ہوتا کہ پچ کسی اور کی ہو اور کھیل کسی اور کا؟ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ بہت سے مقتدر لوگوں کو شہباز کی پرواز کو بند کرنے کا فیصلہ ناپسندیدگی کے باوجود قبول کرنا پڑا۔
اب شہباز شریف جیل میں ضرور ہیں مگر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بننے کے بعد سپیکر کے پروڈکشن آرڈرز کے محتاج بھی نہیں رہے۔ جب چاہیں گے اجلاس بلائیں گے اور ایوان میں آئیں گے۔ یہ ’رعایت‘ بہر حال کپتان کی رضامندی کے بغیر ملی ہے۔
مریم نواز خاموشی توڑ چکی ہیں اور میاں نواز شریف ایک بار پھر جیل جا چکے ہیں۔
تب میں اور اب میں فرق یہ ہے: تب مریم جیل میں تھیں اور اب مریم ’آزاد‘ ہیں۔ کتنی آزاد ہیں، اس کا اندازہ اُن کی ’ممکنہ تحریک‘ سے لگایا جا سکے گا جس کا انھوں نے خاموشی توڑتے ہوئے عندیہ دیا ہے۔
ایسے آثار نہیں ہیں کہ سڑکوں پر کوئی احتجاجی تحریک بہت جلد شروع ہو پائے گی۔ احتجاج صرف پارلیمنٹ تک ہی محدود رہے گا۔
اپوزیشن وہیں اپنی بھڑاس نکالے گی کیونکہ اب ’ن‘ لیگ ’ش‘ لیگ میں بدل چکی ہے اور ایک بڑی تعداد تا حال مریم کو چُپ رہنے کی استدعا بھی کر رہی ہے۔
آنے والے دنوں کا منظر نامہ کچھ بھی ہو لیکن مصلحت پسندی کا شکار اپوزیشن اور خاص کر ن لیگ تصادم کے بجائے کسی نئے معاہدے کی تلاش میں ہو گی اور یوں جو سلسلہ پچھلی دہائیوں میں شروع ہوا وہ اپنے دائرے میں گھوم کر پھر شروع ہو جائے گا۔