عمران خان، وزیراعظم پاکستان

تحریک انصاف کی حکومت خوفناک صورتحال کا شکار، آئندہ چند ہفتے اہم

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد……….
وفاقی وزیراطلاعات اور پنجاب کے وزیراطلاعات کی دھاڑ بھی کبھی کبھار سنائی دیتی ہے ورنہ جنگل سائیں سائیں کررہا ہے، اسی پُراسرار خاموشی کو کسی طوفان کا پیش خیمہ کہاجاتاہے، جب ہر کوئی ہرلمحہ انتظار کرنے لگتاہے کہ اگلے لمحہ کیا ہونے والا ہے.

اندازہ نہیں تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اس قدر جلد اس قدر خوفناک صورت حال کا شکار ہوجائے گی. وزیراعظم عمران خان کے فکری مربین میں سے ایک کا کہنا ہے کہ "آئندہ چند ہفتے فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک آدھ نہیں ممکن ہے کہ کئی شہسوار ڈوب جائیں”۔ وہ ایک غیرملکی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کی نہایت خوفناک تصویر پیش کررہے تھے.ایک انکشاف بھی فرمایاتھا کہ "اوپر” والے عمران خان کی حکومت کو مانیٹر کررہے ہیں. اب وہ اعتراف کررہے ہیں کہ صوبہ پنجاب کا اعتبار پی ٹی آئی کو حاصل نہیں. ساتھ ہی یہ اعتراف بھی "جنوب میں ارکانِ اسمبلی ہانک کر لائے گئے اور تحریکِ انصاف میں شامل کر دیئے گئے۔” خیر! یہ کوئی بڑا انکشاف نہیں ہے،اس کی خبر پہلے ہی سے لوگوں کے پاس ہے.

حالات اس قدر خراب ہورہے ہیں کہ حکومت بھی عوامی بے چینی کو محسوس کرنے لگی ہے. بجلی کے نرخ آئے روز بڑھ رہے ہیں، منی لانڈرنگ کا سلسلہ روکنے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے بلکہ اس سے بھی بری خبر ہے کہ منی لانڈرنگ بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، بازارِ حصص مسلسل دبائو میں ہےاور ڈالر بھی بڑھتا ہی چلاجارہا ہے۔ ایسے میں اندیشہ ہے کہ عوامی بے چینی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اسے محض ایک چنگاری دکھانے کی دیر ہے کہ آگ بھڑک اٹھے گی. اس کے بعد کیا ہوگا، ایک طفل مکتب بھی خوب سمجھتا ہے. حکومت جو مسائل پرقابو پانے پرناکام ہوچکی ہے، اپنے وعدے پورے کرنے کے بجائے ایک جھوٹ کے بعد دوسرا جھوٹ بول کر وقت گزار رہی ہے، لیکن آخر کب تک! لوگ اب تک اس خوش گمانی میں مبتلا رہے کہ شاید 100 دنوں کے بعد ہی حکومت کوئی چمتکار دکھادے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا.

اگر یہ سلسلہ چھ ماہ تک یونہی چلتا رہا تو تحریک انصاف کے لئے ہانکا کرنے والے، اسے حکومت دلانے والوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوجائے گا. وہ صرف چھ ماہ تک کا وقت دینا چاہتے ہیں. اس کے بعد مسلم لیگ ن کو موقع دیاجائے گا کہ آپ ہی معاملات سنبھالو، ہم تو انھیں بہت لائق اور باصلاحیت سمجھتے تھے لیکن یہ تو گھامڑ ہی نکلے. تحریک انصاف اور "راولپنڈی” والوں کے انتہائی قریبی ذرائع کہتے ہیں کہ عمران کے پاس عوامی نامقبولیت سے نجات پانے کا واحد راستہ معیشت کی بحالی ہے‘ جس کا فی الحال دور دور تک اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔

کہا جاتا ہے کہ کابینہ کے حالیہ اجلاسوں میں بحث اس پر ہوتی رہی کہ وقتی طور پر قوم کو مطمئن رکھنے کے لیے کیا، کیا چمتکار ممکن ہیں۔ کسی "دانشور” نے تجویز پیش کی کہ قوم کو کھیل تماشوں میں لگادیاجائے،حیران کن طور پر یہ تجویز وزیراعظم نے منظور کرلی اور فرمان جاری کیا کہ لاہور میں بسنت منانے کا اہتمام کیا جائے. سچ کہا کسی نے کہ وزیر اعظم کو نالائق لوگوں نے گھیر رکھا ہے۔

خدشہ ظاہر کیا گیا کہ پتنگ بازی سے جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ہے ، اس پرعمران خان کے ایک پرانے دوست یوسف صلاح الدین بولے کہ تہوار صرف دن کی روشنی میں منایاجائے اور موٹر سائیکل سواروں کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی جائے۔ خود تحریک انصاف کے فکری مربی کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود اگر حادثہ ہو گیا، ایک آدھ جان بھی چلی گئی‘ جس کا اندیشہ ہے‘ تو نتائج اتنے خطرناک ہوں گے کہ نا مقبول ہوتی ہوئی حکومت آسانی سے بوجھ اٹھا نہ سکے گی۔ اپوزیشن پوری طرح تیارہوچکی ہے، وہ ایسے ہی کسی لمحہ کا انتظار کررہی ہے ، اس کے بعد عمران خان کے پاس پچھتاوے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں