سید ابوالاعلیٰ مودودی ، بانی جماعت اسلامی

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ (25ستمبر1903ء تا 22ستمبر1979ء)

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر ، بارہمولہ

مولاناسیدابولاعلیٰ مودودی ؒ کی بہت سی حیثیتیں ہیں؛ مفسرقرآن، سیرت نگار، اسلامی تہذیب وتمدن اور نظامِ سیاست و معیشت کے شارح، برعظیم کی ایک بڑی دینی و سیاسی تحریک کے موسس و قائد، ایک نام ور صحافی اوراعلیٰ پائے کے انشا پرداز۔ فکری اعتبارسے وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے متکلمِ اسلام تھے اورسب سے زیادہ موثر ترین’آواز‘بھی۔

انیسویں صدی میں مسلم اقوام اور ممالک پر مغرب کی یلغار اپنی نوعیت کے اعتبار سے صرف فوجی، سیاسی اور اقتصادی ہی نہیں، ثقافتی اور معاشرتی یلغار بھی تھی۔ مغربی غلبے کے دیرپا اثرات مسلم ممالک سے غاصب فوجوں کی واپسی کے بعد بھی برقرار ہیں۔ مادی و اخلاقی نتائج کے اعتبار سے مغرب کی اتنی ہمہ گیر یلغار کے خلاف جدوجہد کرنا ہی ، انیسویں صدی کی اسلامی فکر اور تحریکوں کا اصل مقصد رہا ہے۔

عرب دنیا کے مختلف خطوں جیسے شمالی افریقہ میں محمد بن علی سنوسی، سوڈان میں محمد احمد مہدی، اور متعدد ممالک میں سرگرم عمل جمال الدین افغانی کی صورت میں عظیم رہنماؤں نے اس سلسلے میں شاندار کردار ادا کیا۔ خالص فکر و دانش کی سطح پر فلسفی شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے اثرات صرف اپنے وطن برعظیم ہند و پاک تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ انہوں نے درجہ بدرجہ کئی اور خطوں کے مسلمانوں بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے کو متاثر کیا۔

اسلامی احیائی تحریکوں اور مفکروں نے سب سے پہلے مسلمانوں کو مغربی یلغار کے خلاف متحرک کرنے کی کوشش کی، اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ مغربی طاقتوں اور تہذیب کے ان نمایاں عناصر سے استفادہ کریں جنھیں اسلامی ذرائع سے حاصل کرکے نشوونما دی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کی اشرافیہ اور عوام پر مغربی تہذیب کے تباہ کن اثرات نہ صرف ظاہری اور بالائی سطح پر نمایاں تھے بلکہ دلوں اور دماغوں میں بھی راسخ ہو رہے تھے۔

اس صورت حال کو دیکھ کر احیائے اسلامی کی جدوجہد میں مصروف بہت سے مسلمان مفکروں نے بحیثیت مجموعی بے شمار محاذوں پر مغربی تہذیب کے خلاف آواز اٹھائی اور اسے مسترد کیا، سوائے اس کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تحریروں میں مغربی تہذیب کو دنیا میں اُبھرتی ہوئی جدید جاہلیت کے روپ میں پیش کیا۔ انہوں نے اس مسئلے پر نہایت واضح، ٹھوس اور معروضی انداز میں بحث کی، جو اپنے استدلال، نفس مضمون اور ابلاغی سطح پر بہت موثر ہے۔ وہ مغربی تہذیب کے بارے میں اپنے تاریخی، نفسیاتی اور معاشرتی مشاہدات بیان کرتے وقت، اپنے تعلیم یافتہ قارئین اور مخاطبین کی ذہنی و علمی دیانت کا احترام پوری طرح ملحوظ رکھتے ہیں۔

مغربی تہذیب کے متعلق سید مودودیؒ کا یہ تجزیہ بہت منفرد اور نمایاں ہے کہ جدید جاہلیت کے نشو و ارتقاء میں مغربی تہذیب ایک موثر عامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا یہ تجزیہ نام نہاد جدید پسندوں اور قدامت پسندوں، دونوں سے مختلف ہے۔

مغربی تہذیب کا پوری طرح تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے اور اس کے ساتھ اس کا تجزیہ بھی۔ مغربی سماجی زندگی کو یقیناً مسترد کر دینا چاہیے لیکن ’خُد ما صَفا وَدَع ماکدر‘ کے اصول کے تحت مسلمانوں کو اس کی سائنس، ٹیکنالوجی اورتنظیم و انتظام کے بہتر تکنیکی طریقوں کو ضرور اپنا لینا چاہیے۔

درحقیقت یہ بنی نو ع انسان کا اجتماعی ورثہ ہے جس کی تعمیر میں مسلمانوں سمیت سب قوموں نے حصہ لیا ہے۔ اور اس اقدام کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ عصر حاضر کے تبدیل شدہ حالات میں پوری نوع انسانی کی زندگی کو اسلامی تصورات کے مطابق ڈھالا جاسکے اور اسے ایک زندہ حقیقت بنا دیا جائے۔

سید مودودی ؒ نے اپنے قارئین کو جرمن فلسفی فریڈرک ہیگلؔ کے فلسفہ تاریخ، برطانوی سائنس داں چارلس ڈارونؔ کے نظریہ انسانی ارتقاء اور جرمن نژاد اشتراکی مفکر کارل مارکسؔ کی تاریخ مادیت سے متعارف کرایا۔ یہی وہ مغربی مفکرین تھے جن کے افکار و تصورات نے اخلاقی اقدار، معاشرے اور سیاست پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے اور جس کے نتیجے میں افادیت پسندی، لذت پرستی اور انتہا پسندانہ قوم پرستی اور سیکولرازم کوغلبہ حاصل ہوا۔

اس طریقے سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے مغربی تہذیب محض غیروں یا غیر مسلموں اور اسلام کے دشمنوں کے ذہن کی پیداوار کے طور پر پیش نہیں کیا، بلکہ اسے اس نقطۂ نظر سے نقد و جرح کا نشانہ بنایا ہے کہ یہ پوری انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ انھوں نے یہ ثابت کیا کہ یہ تہذیب محکوم مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، حکمراں مغربیوں کے لیے بھی ضرر رساں ہے۔

اس کے منفی اثرات انسانی زندگی کے اخلاقی، تہذیبی، اقتصادی، قانونی اور سیاسی ہر شعبے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کے تہذیبی زوال اور اس کے اسباب کا گہرا مطالعہ کرنے اور اسی طرح مغربی تہذیب اور اس کے مثبت پہلوؤں کامطالعہ کرنے کی دعوت دی۔

سید مودودیؒ نے ایک طرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تصور کو واضح کیا اور بتایا کہ اسی تصور کے تحت انسان زمین پر اس کا نائب ہے، تاکہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا قانون جاری کرکے اسلام کا نظام عدل قائم کرے۔ دوسری طرف مولاناؒ نے یہ نشان دہی بھی کی کہ اللہ کی حاکمیت اور اس کی ہدایت کو فراموش کرنے کے باعث، جو انسانی معاشرہ وجود میں آ رہا ہے، وہ سخت انتشار کا شکار ہے اور مغربی تہذیب اپنی زبردست مادی خوشحالی کے باوجود نفسیاتی، اخلاقی اور معاشرتی ہیجان اور فساد کا مظہر بن رہی ہے۔ یوں سید مودودیؒ نے سادہ، عام فہم اور واضح اسلوب میں مر ض اور اس کے علاج کی نشاندہی کی۔

مولانا نے اسلام کو ایک منجمد، قدیم نسلی فریب کے بجائے ایک انقلابی نظریۂ حیات اور ایک تحریک کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے سب سے بڑا استدلال خود اسلام کے نظامِ فکر کے اندر سے اندرونی شہادت کے طور پر فراہم کیا ہے۔

اس دعوت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اسلام کے چہرے کو بالکل نکھارکر پیش کیا ہے۔ اسلام کے گوشے گوشے پر روشنی ڈالی اور اسے موجودہ حالات پر منطبق کرکے دکھایا۔ فریب کے خلاف موجودہ سائنسی دور کے تمام ممکنہ اعتراضات کا مدلّل جواب دیا اور اسلامی نظام کا ایک مکمل فکری اور عملی محل تیار کر دیا ہے۔

تیسری خصوصیت یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے یہ بات حتمی طور پر ثابت کر دی ہے کہ اسلام کوئی پوجا پاٹ کا فریب نہیں ہے کہ سیاست اس سے آزاد ہو بلکہ زندگی کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جو اسلام کی گرفت سے آزاد ہو۔ اسلام مکمل نظامِ زندگی ہے اور سیاست زندگی کا ایک شعبہ۔

چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دعوت کوئی اندھی بہری قوت نہیں ہے جو زور، فتوے یا کسی عقیدے کے بل پر بڑھتی چلی گئی ہو بلکہ یہ سب سے پہلے مخاطب کے فہم کو مطمئن کرتی ہے، اس کے ضمیر کو بیدار کرتی ہے اور اس کے جذبات کو اپیل کرتی ہے۔

پانچویں اور بہت ہی اہم خصوصیت یہ ہے کہ مولانا مودودی اسلام کو صرف ’مسلمانوں‘ سے وابستہ نہیں سمجھتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جس طرح سورج کی روشنی اور بارش کا پانی تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اسی طرح اسلام کی دعوت اور محمدعربی ﷺ کی بعثت تمام انسانوں کے لیے ہے۔ مولانا نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے آخری سانس تک جدوجہد کی۔ اس راہ میں پھانسی کے پھندے تک پہنچ گئے لیکن پائے استقامت میں لرزش پیدا نہ ہوئی؎

وہ شدت قید تنہائی کی، وہ گرمی، وہ تاریکی
مگراس پر بھی تیرا غنچہ ٔ خاطر نہ مُرجھایا

(ماہرالقادریؔ)

مولانا نقدِ مغرب اور احیاء اسلام کے انہی کارناموں کی بدولت اپنے زمانے کی عالمِ اسلام سے متعلق عظیم شخصیتوں سے خراجِ عقیدت وصول کیے بغیر نہ رہ سکے۔ 5جنوری 1941ء کو مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ کے زیرصدارت ’انجمن اتحاد طلبہ دارالعلوم ندوۃ العلماء‘ لکھنؤ میں ایک جلسہ منعقدہوا۔ مولانا عبدالماجد دریابادی ؒ فرماتے ہیں :

’’ صاحب ترجمان القرآن (مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ) کا تعارف ناظرین سے کرانا تحصیل حاصل ہے۔ ان کی دقّت نظری، نکتہ سنجی بہترین خدمت دین کا ذکر بار بار آچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دور حاضر کے فتنوں کے سدِّباب میں ابوالاعلیٰ صاحب کا سینہ خاص طور پر کھول دیا ہے اور تجدّد زدہ گروہ کے حق میں ان کے قلم کی ایک ایک سطر آبِ حیات ہے۔ طبقۂ علماء میں مولانا کی ذات اس حیثیت سے بہت بلند و ممتاز ہے، وہ صحیح معنوں میں مفکّرِ ملّت ہیں‘۔

اس جلسہ میں مولانا سیدسلیمان ندویؒ، مولانا مودودیؒ کا تعارف کراتے ہوئے شدت جذبات سے آبدیدہ ہوگئے، آنسوؤ ں کا ایک ریلا تھا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور فرمایا :

’’میں اس وقت ایک نوجوان لیکن ایک بحرِ ذخّار کا تعارف آپ حضرات کے سامنے کرانے کھڑا ہوا ہوں۔ مولانا مودودیؒ صاحب سے علمی دنیا پورے طور پر واقف ہوچکی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ آپ اس دور کے متکلمِ اسلام اور بلند پایہ عالمِ دین ہیں۔

یورپ سے الحاد و دہریت کا سیلاب جو ہندوستان میں آیا تھا قدرت نے اس کے سامنے بند باندھنے کا انتظام بھی ایسے ہی مقدس اور پاک طینت ہاتھوں سے کرایا جو خود یورپ کے قدیم و جدید خیالات سے نہایت اعلیٰ طور پر کماحقّہ واقفیت رکھتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی قرآن و حدیث کا گہرا اور واضح علم رکھتا ہے کہ موجودہ دور کے تمام مسائل پر اس کی روشنی میں تسلی بخش گفتگو کرسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ملحدوں اور دہریوں نے اس شخص کے دلائل کے سامنے ڈگیں ڈال دی ہیں اور یہ بات واضح طورپر کہی جاسکتی ہے مودودی صاحب سے ہندوستان (غیرمنقسم) اور عالمِ اسلام کے مسلمانوں کو بہت ہی توقعات وابستہ ہیں۔‘‘

مولانا سید مودودیؒ نے عالم اسلام اور دنیائے انسانیت کے سلسلہ میں ان توقعات کو کس حد تک پورا کیا، اس کا اندازہ پوری دنیا خصوصاً عالمِ اسلام میں ہونے والے تغیّرات کے جائزہ سے لگایا جاسکتا ہے جو اسلام کے حق میں آج برصغیر اور مشرق وسطیٰ میں رونما ہو رہے ہیں۔

آج اگر مولانا سیدسلیمان ندویؒ اور مولانا عبدالماجد دریابادیؒ حیات ہوتے تو یہ دیکھ کرانہیں حسرت ہوتی کہ ان کو اس نوجوان سے جو امیدیں اور آرزوئیں وابستہ تھیں؛ اس کی تکمیل کے لیے وہ زندگی کے آخری لمحات تک مصروفِ عمل رہا، یہاں تک کہ اس کی وفات کے بعد زمانے کو اس کے جنازے میں شرکت کرکے اور اس کی لحد پر حاضری دے کر اس بات کی گواہی دینا پڑی کہ اس نے شہادت حق کا فریضہ جس طرح انجام دیا، موجودہ دورمیں زمانہ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے؎

وہاں خود دعوتِ حق لے کے کر تیرے خوشہ چیں پہنچے
جہاں کچھ روشنی دیکھی، جہاں سوزِ جگر پایا
تیرے دل کا سفینہ کیا مسکوں ناآشنا نکلا
کبھی طوفان سے اُلجھا، کبھی ساحل سے ٹکرایا

(ماہرالقادریؔ)

دراصل مولانا سید ابوالاعلٰی مودودیؒ ایک طویل المیعاد، بنیادی، تدریسی اور تشدد سے پاک تبدیلی میں یقین رکھتے تھے اور اس لائحہ عمل کے ذریعے احیائے اسلام، اسلامی قوانین کے نفاذ اور نظام زندگی کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کے قائل تھے۔ یہی وہ واحدراستہ ہے جس پرچل کر معاشرے اور ریاست دونوں میں حقیقی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ اسی کے ذریعے انھیں اللہ تعالیٰ کے احکامات و ہدایات کے سامنے جھک جانے والے افراد معاشرہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں