بادبان رپورٹ
یہ ایک نہایت دردناک منظر ہے۔
ایک معصوم بچہ استانی کے سامنے کھڑا ہے۔ سکول کے بچے استانی کے کہنے پر باری باری اٹھتے ہیں اور اس بچے کے منہ پر زور سے تھپڑ مارتے ہیں۔
مار کھانے والا بچہ مسلمان ہے، استانی ہندو اور تھپڑ مارنے والے بچے بھی ہندو۔
یہ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کا ایک سرکاری اسکول ہے، وائرل ہونے والی ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ ساڑھی پہنے ہوئے ادھیڑ عمر استانی جس کا نام ترپتی تیاگی بتایا جارہا ہے، کلاس کے دوسرے طلبہ سے کہہ رہی ہے کہ وہ مسلمان بچے کو تھپڑ لگائیں۔
ضلع مظفر نگر کے مجسٹریٹ اروند ملاپا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ اگر ویڈیو سچ ثابت ہوئی تو قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔
ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کلاس کے دوسرے ایک ایک کرکے اٹھتے ہیں اور مسلم بچے کو تھپڑ رسید کرتے ہیں۔ اس ویڈیو کے سامنے آنے پر خاتون ٹیچر کے رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
مسلم بچے پر محض اس بنا پر تشدد کہ وہ مسلمان ہے، کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ بھارت میں ایسے بے شمار واقعات رونما ہورہے ہیں جن میں مسلمانوں پر تشدد کیا جارہا ہے، انہیں قتل کیا جارہا ہے، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جارہا ہے۔ اور اس سب کچھ پر انتہا پسند ہندو جماعت ’ بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی حکومت کے سربراہ، وزیراعظم نریندر مودی خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ ایسے کسی بھی واقعہ پر کسی کسی قسم کا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔
اپوزیشن جماعت ’انڈین نیشنل کانگریس‘ کے رہنما راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ ’معصوم بچوں کے ذہنوں میں تعصب کا زہر بونا، سکول جیسے مقدس مقام کو نفرت کے بازار میں تبدیل کرنا، ایک استاد ملک کے لیے اس سے بڑا کچھ نہیں کر سکتا۔
راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر لکھا: ’یہ بی جے پی کا پھیلایا وہی مٹی کا تیل ہے جس نے انڈیا کے کونے کونے میں آگ لگا دی ہے۔ بچے انڈیا کا مستقبل ہیں، ان سے نفرت نہیں کرتے، ہم سب کو مل کر محبت سکھانی ہے‘۔
وائرل ویڈیو میں کیا ہے؟
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس ویڈیو میں ایک استانی کرسی پر بیٹھی ہیں جبکہ بچے سکول کے یونیفارم میں زمین پر بیٹھے ہیں۔ ایک مرد کی آواز آ رہی ہے جو شاید ویڈیو بنا رہا ہے یا اس کے پیچھے سے ویڈیو بنائی جا رہی ہے۔ وہ استانی کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔
اس شخص اور استانی کے درمیان ایک بچہ کھڑا ہے اور اس سے چھوٹے قد کا ایک بچہ اس کے گال پر تھپڑ رسید کرتا ہے جس پر ٹیچر کہتی ہیں کہ ’زور سے تھپڑ مارو۔‘ اس کے بعد دو لڑکے اُٹھتے ہیں اور اس مبینہ مسلم بچے کی جانب بڑھتے ہیں اور اس کے گال پر تھپڑ رسید کرتے ہیں جبکہ اس دوران ٹیچر اور کیمرے میں نظر نہ آنے والے شخص کی بات چلتی رہتی ہے۔
اس گفتگو کے دوران وہ شخص کچھ پوچھتا ہے جس پر ٹیچر کہتی ہیں کہ ‘میں نے ڈکلیئر کر دیا ہے۔۔۔ کہ یہ محمڈن بچے ہیں، ان کی ماں چلی جاتی ہے۔’
اس پر وہ شخص کہتا ہے ‘سہی کہہ رہی ہیں، پڑھائی خراب ہو جاتی ہے۔’ پھر وہ ہنستا ہے جبکہ استانی دوسری طرف بیٹھے بچوں سے کہتی ہے ’اے کیا مار رہا ہے تو اسے، زور سے مار نا۔ چلو اب کس کا نمبر ہے۔۔۔ چلو تو بھی کھڑا ہو جا۔۔۔’
اس کے بعد دو لڑکے کھڑے ہوتے ہیں اور بچے کی طرف بڑھتے ہیں اور اسے تھپڑ لگاتے ہیں۔ ایک بچہ گال پر زور سے تھپڑ مارتا ہے جس پر ٹیچر اطمینان کا اظہار کرتی ہیں جبکہ دوسرا بچہ پیٹھ پر تھپڑ رسید کرتا ہے اور اس دوران جس بچے کو تھپڑ لگایا جا رہا ہے وہ زار و قطار رو رہا ہے۔
متاثرہ مسلمان طالب علم کے والد ارشاد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میڈم نے بچوں کو آپس میں لڑا دیا۔ ہم نے آپس میں سمجھوتہ کر لیا ہے۔ میڈم نے ہماری فیس واپس کر دی ہے اور اب ہم اپنے بچے کو سکول نہیں بھیجیں گے۔’
سوشل میڈیا پر تنقید
بالی وڈ کی معروف اداکارہ اور کانگریس رہنما ارمیلا نے ایک پوسٹر شیئر کیا ہے جس پر انگریزی اور ہندی میں لکھا ہے ‘شیم آن یو ترپتا تیاگی، تم انسانیت پر کلنک ہو۔’
اس کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے کہ ‘یہ خاتون بہت بیمار اور ذہنی طور پر ہلی ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بچوں کے ارد گرد بھی نہیں ہونا چاہیے نہ کہ انھیں ٹیچر ہونا چاہیے۔’
روشن کمار رائے نامی ایک صارف نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ انھیں ابھی تک معطل کیوں نہیں کیا گیا۔
انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ‘دو استادوں کی کہانی۔ ایک نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ تعلیم یافتہ رہنماؤں کو ووٹ کریں تو اسے اپنی نوکری گنوانی پڑی۔ دوسری نے ایک مسلم بچے کو علیحدہ کیا، دوسرے بچوں سے اسے پیٹنے کے لیے کہا۔
’ابھی تک اسے معطل نہیں کیا گیا ہے، گرفتاری کی بات تو بھول ہی جائیں۔‘
اس کے ساتھ انھوں نے دونوں ٹیچروں کی ایک ساتھ تصویر بھی پوسٹ کی ہے۔
صحافی جیوتسنا موہن خاتون ٹیچر کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ’ میں اس مسلم بچے کے صدمے کو شیئر نہیں کرنے جا رہی ہوں لیکن ہمیں اس بات سے کوئی نہیں روک سکتا کہ ہم ترپتا تیاگی نامی عورت کا نام لیں، اسے شرمندہ کریں، اس کی تصویر کو شیئر کریں۔
’یہ ہیٹ کرائم ہے اور اس پر ہر بار آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔’
انڈیا کی معروف ریڈیو جاکی صائمہ نے لکھا کہ ‘ان بچوں کے والدین کو بھی پریشان ہونا چاہیے جن کو تھپڑ لگانے کے لیے کہا گیا تھا۔ آپ یقینا یہ نہیں چاہیں گے کہ آپ کے بچے عفریت بنیں۔ کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟’
محمد آصف خان نامی ایک صارف نے دو تصاویر پوسٹ کی ہیں ایک میں ٹیچر کی تصویر ہے دوسرے میں ٹائمز آف انڈیا کی خبر کا سکرین شاٹ ہے جس میں لکھا ہے کہ سکول کے ایک حصے کو حجاب کے تنازع میں گرا دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے کہ ‘چند ماہ قبل مدھیہ پردیش میں ایک سکول پر بلڈوزر چلایا گیا۔ کیا اترپردیش کی حکومت نیہا پبلک سکول اور ترپتا تیاگی کے گھر پر بلڈوزر چلائے گی؟’
اس واقعے نے انڈیا میں ایک بحث کو ہوا دیدی ہے کہ سماج کتنا زہر آلود ہو گیا ہے اور بقول صائمہ ‘بعض لوگوں کے لیے اسلاموفوبیا ان کی زندگی کا حصہ ہو گيا ہے۔’
بہت سے لوگوں نے اپنا سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور پوچھا ہے کہ اس ٹیچر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ہونا چاہیے۔
صحافی رویش کمار نے ایک لمبی پوسٹ لکھی ہے جس میں انھوں نے لکھا: ‘ٹیچر کے کہنے پر اپنی ہی عمر کے مسلمان بچے کو مارنے والے چھوٹے بچے کے والدین کو سامنے آکر مقدمہ درج کرانا چاہیے کہ ترپتی تیاگی ان کے معصوم بچے کو ہندو کے نام پر فسادی بنا رہی ہیں۔’
انہوں نے مزید لکھا کہ ‘فرقہ واریت بچوں کو انسانی بم بنا دیتی ہے۔ جو بچہ مارا گیا ہے وہ اس صدمے کے ساتھ اپنی زندگی کیسے گزارے گا یہ سوچنے کی بات ہے۔۔۔ تمام والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلم دشمنی کے نام پر ان کے بچوں کو فسادی بنانے کی کوشش کس سطح پر کی جا رہی ہے۔
‘یہ زہر کہاں تک پہنچ چکا ہے، ہر روز اس کا شرمناک نمونہ سامنے آتا ہے۔ گودی میڈیا اور واٹس ایپ انکلوں نے اپنے ہی بچوں کو فسادی بنانے کا جال بچھا رکھا ہے۔ یہ بات بھی دکھ کی بات ہے کہ مذہب کے نام پر قتل ہونے والے بچے کے باپ کو یقین نہیں ہے کہ انصاف ہو گا۔ چیف جسٹس بار بار عدلیہ پر اعتماد کی بات کرتے ہیں۔ کیا عدلیہ اس باپ میں اعتماد بھر کر سکتی ہے؟’
کانگریس رہنما ششی تھرور نے اس پر حیرت اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ‘یہ ناقابل یقین ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے اور اس میں شامل لوگ جیل میں نہیں ہیں۔ ہم تمام ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔’
ایک تبصرہ برائے “بھارت: ’زور سے تھپڑ مارو محمڈن بچے کو‘، مسلمان بچے پر تشدد کی ویڈیو وائرل”
جی یہ خبر کافی وائرل ھے، لیکن بادبان نے اسے زیادہ تفصیل سے cover کیا ھے۔۔۔۔ تکلیف تو بہت چھوٹا لفظ ھے جو اس خبر کو پڑھ کر ھوتی ھے۔۔۔۔۔ اس معصوم بچے کا دماغ کبھی بھی اس trauma سے نہیں نکلے گا۔۔۔ والدین کو اس استانی پر مقدمہ درج کروانا چاہئے۔۔۔