مشکور علی
ورجینیا وولف ممتاز برطانوی ادیبہ تھیں۔ 1929ء میں اُن کا مضمون شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا {A Room of One’s Own} اِس میں اُنہوں نے ادب تخلیق کرنے والی خواتین کی زبوں حالی کی جانب متوجہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ گزر اوقات کے لیے مناسب پیسے اور رہنے کے لیے ایک الگ کمرہ دیا جائے تو خواتین کو بھی ویسی ہی کامیابیاں مل سکتی ہیں، جیسے کہ مرد ادیبوں کو ملتی ہیں۔
قرة العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینا وولف کہنے والے متفق ہیں کہ ان کے 1929ء میں اٹھائے گئے سوال کا کھرا جواب ’قرة العین حیدر‘ ہیں۔ ان کا دسمبر 1959 میں پاکستان میں لکھا اور شائع ہونے والا ناول ’آگ کا دریا‘ ورجینیا وولف کے سوال کی ٹھوس دلیل ہے۔
قرۃ العین حیدر برِصغیر کی وہ ناول نگار تھیں، جن کا نوبیل ادبی انعام پر حق تھا۔ اِس ناانصافی کے حوالے سے معروف ادیب آصف فرخی نے اپنی ایک تحریر میں تذکرہ کیا تھا کہ 2008ء میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی ادیبہ ’ماری لی کلیزیو‘ نے ایک سوئیڈش صحافی خاتون سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ’مجھ سے کہیں زیادہ اِس ادبی انعام کے مستحق بعض دوسرے ادیب تھے، جیسے فرانسیسی زبان کے ایڈورڈ گلیساں اور ہندوستانی ادیبہ قرۃ العین حیدر۔‘
قرۃ العين حيدر نے 20 جنوری 1926ء کو علیگڑھ میں آنکھ کھولی تھی۔ والد اور والدہ اردو کے نامور اور مستند افسانہ اور ناول نگار تھے۔ والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان اپنے وطن پاکستان آ گیا تھا۔
1959ء میں قرۃ العين حيدر کا ناول ’آگ کا دریا‘ منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں جان بوجھ کر بہت ہنگامہ برپا کیا گیا تھا۔ قرۃ العين حيدر ان دنوں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ تھیں۔ وہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز اور لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن سے بھی وابستہ رہیں لیکن انہیں ماحول سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہونے دیا گیا۔
قرۃ العين حيدر 1960 میں اپنی والدہ کے علاج کی غرض سے پاکستان سے لندن روانہ ہو گئیں، تاہم وہ وہاں سے بھارت چلی گئیں، انہوں نے بھرپور صحافتی اور ادبی زندگی گزاری۔ انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعلیٰ ترین سول اعزازات سے نوازا گیا۔
قرۃ العين حيدر بھارت میں سکونت کے باوجود پاکستان آتی جاتی رہیں، انہوں نے پاکستان کا آخری دورہ وفات سے ایک سال قبل 2006 میں کیا تھا۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو اترپردیش کے شہر نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
قدرت اللہ شہاب ’شہاب نامہ‘ کے صفحہ نمبر 747 پر ’صدر ایوب اور ادیب‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ:
’جب مارشل لاء نافذ ہوا تو اس کے ساتھ ہی اخبارات پر کڑا سنسر بھی قائم ہو گیا۔ افواہیں پھیلانا بھی جرم تھا۔ مارشل لاء لگتے ہی ایک روز صبح سویرے قرۃ العین حیدر میرے پاس آئی۔ بال بکھرے، چہرہ اداس، آنکھیں پریشان۔ آتے ہی بولی: ’اب کیا ہوگا؟‘
’کس بات کا کیا ہوگا؟‘ میں نے وضاحت طلب کی‘۔
’میرا مطلب ہے اب ادبی چانڈو خانوں میں بیٹھ کر Loose Talk کرنا بھی جرم ٹھہرا۔‘
’ہاں۔‘ میں نے کہا۔’گپ شپ بڑی آسانی سے افواہ کے زمرے میں آکر قابلِ گردن زنی قرار دی جا سکتی ہے۔‘
’تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے؟‘ عینی نے بڑے کرب سے پوچھا۔
میں نے مارشل لاء کے ضابطے کے تحت بھونکنے کے خطرات و خدشات کی کچھ وضاحت کی تو عینی کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ آنسو چھپانے کے لیے اس نے مسکرانے کی کوشش کی اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کسی قدر لاپرواہی سے کہا۔ ’ارے بھئی، روز روز کون بھونکنا چاہتا ہے لیکن بھونکنے کی آزادی کا احساس بھی تو ایک عجیب نعمت ہے۔‘
’میرا اندازہ ہے کہ قرۃالعین حیدر کے تحت الشعور نے اس روز اس لمحے پاکستان سے کوچ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‘
محقق و ادیب حمزہ فاروقی نے قدرت اللہ شہاب کی اس تحریر کے بارے میں اردو مرکز لندن میں قرۃ العین حیدر سے بات کی تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں انہیں بتایا تھا کہ قدرت اللہ شہاب کا یہ بیان غلط ہے انہوں نے کبھی ایسی کوئی بات کی ہی نہیں۔
قرۃ العین حیدر اپنی سوانح عمری ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں اس داستان کو یوں بیان کرتی ہیں:
’اتوار کی ایک صبح جمیل الدین کا فون آیا۔ آپ نے آج کا جنگ اور مورننگ نیوز دیکھے؟‘
’ہمارے پاس یہ دونوں اخبار نہیں آتے۔ کیا ہوا؟ خیریت؟‘
’اچھا میں ابھی آتا ہوں۔‘
چند منٹ بعد تشریف لائے۔ دونوں اخباروں میں ایک ہی صاحب جن کا نام پہلے کبھی نہیں سنا تھا، کا ایک طویل بیہودہ مضمون آگ کا دریا پر شائع ہوا تھا جو مکتبہ جدید لاہور سے 3 ماہ قبل چھپا تھا۔ 2 اخباروں میں یکساں مضمون بزبان اردو اور انگریزی ایک ہی روز چھپنا قابلِ غور معاملہ تھا۔ میں نے دونوں مضمون پڑھے۔
’یہ کون صاحب ہیں اور یہ کس کی سازش ہے، سمجھ نہیں آتا۔‘ عالی نے کہا۔
’میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ سازش وازش کیا ہوگی۔ اس قسم کے لوگوں کو اگنور کرنا چاہیے۔‘ میں نے کہا۔
’نہیں۔ یہ کافی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مفسدین کے فتنوں سے ہمیشہ خبردار رہیے۔‘
’لیکن اس فتنہ پردازی کی وجہ ہی کیا ہے؟‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’میں رائٹرز گلڈ کی طرف سے ان صاحب کو نوٹس بھیجتا ہوں۔ آپ نے مضمون سرسری طور پر پڑھا ہے ذرا غور سے پڑھیے۔‘ عالی نے مجھ سے کہا۔
دوسرے روز اردو مضمون کا بقیہ طویل حصہ جنگ میں شائع ہوا۔ ملک اور شہر میں خاصی سنسنی پھیلی، احباب اور بہی خواہوں نے گارڈ روڈ آ کر اس مضمون کی وہ اشاعت کی مختلف النوع تہلکہ خیز تاویلیں شروع کیں۔ مختار من نے اپنے قانونی مشورے پیش کیے۔ سب بے انتہا پریشان اور برا فروختہ تھے۔
یہ بھی پڑھیے
چندراوتی کا قصہ، جس نے کبھی قدرت اللہ شہاب کے ہاتھ کا چھوا پانی تک نہ پیا تھا
ڈاکٹر زواگو ( ناول، اردو ترجمہ)
ہری یوپیا۔۔۔۔ امن و آشتی کو ترستے انسان کا خواب
راولپنڈی سے ایک دوست نے مطلع کیا کہ معلوم ہوا ہے کہ یہ صاحب پہلے کسی صوبائی وزیر کے پی آر او تھے اور اس سے قبل چند لوگوں کو بلیک میل کر چکے ہیں۔ مضمون نگار کی معافی کے بعد قصہ رفع دفع ہوا لیکن بہت جلد پاکستان و ہند میں اس ناول کے متعلق ایک عجیب و غریب myth تیار ہونی شروع ہوگئی۔‘
امریکا میں مقیم معروف بھارتی ادیب ستیہ پال آنند لکھتے ہیں:’ عینی آپا سے آخری ملاقات دہلی میں ہوئی۔ میں پاکستان کے ایک ماہ کے دورے سے لاہور، پنڈی، میر پور، پشاور، سرگودھا، کراچی ہوتاہو ا لوٹا تھا۔ میں ان کے پاس 2 گھنٹے ٹھہرا۔ جن امور پر بات ہوئی، ان میں سر فہرست رہا پاکستان میں ’آگ کا دریا‘ کے تناظر میں ایک فضول قسم کی گرما گرمی، جس میں ان کے مخالفین نے یہ الزام لگایا کہ وہ پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتیں، اور ’آگ کا دریا‘ دراصل پاکستان نہیں بلکہ ’ہندو ستان یعنی بھارت‘ کی تاریخ کو کھنگالتا ہے۔‘
’وہ پاکستان میں بسنے کے ارادے سے گئی تھیں لیکن اس قسم کی گفتگو نے، جو بآواز بلند تقاریب میں اور اخباروں یا ادبی رسالوں کے اداریوں میں کی گئی، ان کے دل کو اچاٹ کر دیا تھا، اور وہ انڈیا لوٹ آئیں۔ کہنے لگیں ’کسی کا کیا قصور تھا؟ اس وقت ’ادب برائے اسلام‘ کے ریلے میں کچھ پرانے ترقی پسند ادیب بھی بہہ گئے تھے۔‘
میں نے کہا، ’لیکن یہ بات تو انتظار حسین نے کہی تھی کہ آپ نے ’آگ کا دریا‘ میں تقسیم ہند کو ہندو مسلم مشترکہ ورثے کی شکست قرار دیا ہے اور انتظار حسین تو ادب برائے اسلام کا حامی نہیں ہے۔‘ بولیں’یہ بات تو درست ہے لیکن جو کچھ اس نے کہا تھا اس کو صحیح تناظر میں سمجھا ہی نہیں گیا اور اس بات کو Taken for granted مان لیا گیا کہ میں اینٹی پارٹیشن ہوں۔‘
پھر کہنے لگیں، ’اچھا ہی ہوا، میں لوٹ آئی۔ وہاں بہت دوست احباب تھے، لیکن سبھی بے بس، یوں بھی اس معاشرے میں اکیلی عورت کے لیے، جو لکھتی بھی ہو اور مجلسی عادات رکھتی ہو، رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ۔یہاں میں ایک بھرپور زندگی جی سکتی ہوں۔‘
پاکستان کے 77ویں یوم آزادی کے مہینے میں 21 اگست کو قرۃ العین حیدر کی 16ویں برسی کے موقع پر یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ ’عینی آپا‘ تھیں تو پاکستانی۔