ڈاکٹر شہناز محسن-1

ایک بلند ہمت خاتون کی کہانی جنھوں نے کینسر کو شکست دی

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شہناز محسن گورنمنٹ کالج برائے خواتین کی پرنسپل ہیں اور ایک معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ جغرافیہ میں پی ایچ ڈی ہیں۔ نہایت با صلاحیت اور بلند ہمت خاتون ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں، انھوں نے اللہ کے فضل و کرم سے اس بیماری کا مقابلہ اس انداز سے کیا، جیسا کہ مقابلہ کرنے کا حق ہے اور پھر انھوں نے اسے شکست دی۔ آج وہ ماشااللہ صحت مند زندگی گزار رہی ہیں۔

ڈاکٹر شہناز محسن کا کینسر کا شکار ہونا اور پھر اس سے شفایاب ہونا، یہ ایک ہمت عطا کرنے والی کہانی ہے۔ اس کہانی میں ہر اس فرد کے لیے بہت سے سبق موجود ہیں جنھیں ہمت کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھا کہ جب انھیں پتہ چلا کہ کینسر کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے، تب ان کے فوری طور پر کیا احساسات تھے؟

وہ کہنے لگیں ’ میں اس بیماری کو نہ ہی یاد کروں تو اچھا ہوگا۔ ان تلخ لمحات نے میری زندگی بدل کے رکھ دی تھی۔ کینسر مجھے پچاس سال کی عمر کے بعد ہوا ہے۔ اس وقت جو میری حالت تھی، وہ ناقابل بیان ہے۔ صرف میری ہی نہیں بلکہ سب گھر والوں کی۔ میرے بہن، بھائی، سسرال، بھانجے، بھانجیاں سب روتے تھے۔ میرے شوہر بھی میرے بارے میں سخت متفکر تھے۔ الحمدللہ ! میرے اندر ایک طاقت تھی، اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کے بے پایاں فضل پر یقین تھا کہ وہ رحیم و کریم ہے۔ سب کی دعائیں تھیں، میرے رشتہ داروں کی، دوستوں کی، میری رفقائے کار اور طالبات کی۔ اور پھر میں نے اپنی آنکھوں سے تقدیر بدلتے دیکھی۔ اب مجھے اللہ تعالیٰ پر ایسا یقین آچکا ہے کہ آپ اس سے مانگو تو وہ آپ کو قبر سے واپس نکال کر لے آتا ہے‘۔

’جب میں ڈاکٹرز کے پاس گئی تو انھوں نے مجھے بتایا کہ کینسر کی دوسری سٹیج ہے۔ جب آپریشن مکمل ہوگیا تو ڈاکٹرز نے بتایا کہ یہ بڑا مشکل آپریشن تھا۔ میں اللہ تعالیٰ کے بعد عمران خان کی بھی شکرگزار ہوں کہ اس نے شوکت خانم ہسپتال بناکر میرے جیسے لوگوں کو زندگی دی ہے۔ شوکت خانم کی بدولت زندگی واپس ملی ہے ورنہ ایسا ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں شوکت خانم کی صورت میں امید کی کرن بخشی‘۔

’ڈاکٹرز نے کہا کہ آپ نے فکر نہیں کرنا۔ آپ کا تعاون ستر فیصد ہوگا اور ہمارے علاج کا حصہ صرف تیس فیصد۔ زیادہ انحصار آپ کے تعاون پر ہے۔ اگر آپ تعاون کریں گی تو آپ بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گی لیکن اگر آپ پریشان ہوگئیں کہ میرے بال گر گئے ہیں تو یہ اچھا نہیں ہوگا۔ انھوں نے میری کونسلنگ کی کہ آپ کے ساتھ ایسے اور ایسے ہوگا لیکن آپ نے پریشان نہیں ہونا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے جہاں میری آزمائش کی وہاں اس نے مجھے اپنی رحمت سے بھی نوازا‘۔

’جب میں نے سنا کہ میں کینسر میں مبتلا ہوگئی ہوں توایک عورت ہونے کے ناتے میں پریشان تو تھی۔ تاہم میں شکرگزار ہوں اپنی دوستوں کی، فیملی ممبرز کی، بہن اور بھائیوں کی، اپنے شوہر کی، جنھوں نے اس مشکل ترین وقت میں میرا ساتھ دیا۔ بلاشبہ یہ لوگ اُس وقت مجھے نظرانداز کرتے، میرا باقاعدہ علاج نہ ہوتا تو ممکن ہے کہ میں آج کہیں اور ہوتی۔ جب انسان کو ایسی پیچیدہ بیماری لاحق ہوجائے تو گھر والوں کا دوستانہ تعلق بہت ضروری ہوتا ہے‘۔

ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھا کہ کینسر کے دوران زندگی کے معمولات کیا تھے؟

 انھوں نے بتایا ’دوران علاج میری سرگرمیاں مکمل طور پر تعطل کا شکار ہوگئیں، میں بستر پر چلی گئی، مجھے جب انفیکشن ہوا اور ایک بڑا آپریشن ہوا تو اس وقت میں خاصی پریشان تھی۔ میں تین، چار ماہ کالج بھی نہیں جا سکتی تھی۔ اسی دوران اللہ کا یہ بھی فضل ہوا کہ موسم گرما کی چھٹیاں ہوگئیں۔ میرے ڈیپارٹمنٹ نے بھی بہت تعاون کیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ مکمل طور پر ریلیکس رہیں، ملازمت کی بالکل فکر نہ کریں۔ اگر آپ آنے کے قابل ہیں تو ٹھیک، ورنہ آپ آرام کریں‘۔

یہ بھی پڑھیے

نادیہ جمیل کی نیکیاں جو یقیناً کیسنر کے خلاف لڑائی میں کام آئی ہوں گی

بریسٹ کینسر یعنی چھاتی کا سرطان: وجوہات،علامات اور علاج

کیا آپ ہر قسم کے کینسر سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں؟

فلسطینی لڑکی نے کینسر کے خلاف لڑائی کیسے جیتی؟ حیران کردینے والی کہانی

’میں نے اپنی بیماری کے دوران دیکھا ہے کہ ابھی لوگوں میں احساس باقی ہے۔ میرے ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ اور دیگر رفقائے کار نے میرا اس قدر خیال کیا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ میری سرگرمیاں میرے بیڈروم تک ہی محدود ہوگئی تھیں۔ میں پریشان تھی، کمزوری بھی بہت زیادہ تھی۔ سرجری سے پہلے کیموتھراپی ہوئی تھی۔ یہ انسان کو صحیح معنوں میں ختم کرکے رکھ دیتی ہے، ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیتی ہے۔ اس کے مابعد اثرات جو ہوتے ہیں، الامان الحفیظ۔ ! میں کہتی ہوں کہ دشمن کو بھی ایسی بیماری لاحق نہ ہو، جس کا میں نے سامنا کیا۔ اللہ تعالیٰ کا فضل میرے شامل حال تھا اور میں نے اس بیماری کا اپنی ہمت سے مقابلہ کیا اور ایک پیچیدہ بیماری کو شکست دی۔ میرا ایمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے کچھ کرنا ہوتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے’ کن‘ اور پھر وہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس قدر سنگین بیماری میں ڈالا اور پھر مجھے اس بیماری سے نکال لیا۔ ہم انسان آزمائش کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہیں، چھوٹی سی مصیبت پر چیخنے چلانے لگتے ہیں کہ ہائے! یہ ہوگیا، وہ ہوگیا۔

وہ جو مرزا غالب نے کہا تھا نا

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ اب مجھے کوئی بخار یا درد محسوس ہی نہیں ہوتا‘۔

’اس بیماری کی وجہ سے میں نے اس قدر زیادہ دکھ دیکھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھیں کہ اسی بیماری کے دوران میں کالج کی پرنسپل بن گئی، میرا پی ایچ ڈی کا وائیوا ہوگیا، مجھے انیسواں گریڈ مل گیا۔ اس بیماری کے دوران سب سے زیادہ صبر، ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے عطا کیا اور میں نے اس بیماری کا مقابلہ کیا‘۔

پوچھا کہ آپ نے اس بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دینے کے لیے کیا تدابیر اختیار کیں؟

ڈاکٹر شہناز محسن کہنے لگیں ’کینسر انسان پر حاوی ہوجاتا ہے، انسان پوری کوشش کرے تو بھی یہ حاوی ہوجاتا ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ ہمت دیتا ہے تو انسان اس کا مقابلہ کرتا ہے۔ جب میری تین کیموتھراپیز ہوگئیں اور اس کے بعد میں نے کالج کی پرنسپل شپ جوائن کی تو میرے معمولات میں کچھ تبدیلی آئی۔ اس کے بعد اکتوبر، نومبر آگئے۔ موسم سرما میں جو کیموتھراپی ہوتی ہے، وہ زیادہ تکلیف نہیں دیتی۔ موسم گرما میں بہت تکلیف ہوتی ہے، مریض اے سی کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا، ایسے لگتا ہے جیسے آگ لگ جائے گی۔ سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ میری پہلی کیموتھراپی بارہ جولائی کو ہوئی تھی۔ اور پھر جب  دسمبر، جنوری اور فروری میں ہوئی، تب کم از کم مجھے سانس کے مسئلے اور بخار سے کچھ ریلیف ملا‘۔

’میرے پاس لوگ آتے جاتے تھے، میری سہیلیوں نے مجھے کمپنی دی، میرے شوہر میرے پاس رہے، میرا بھتیجا میرے پاس رہا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بچے عطا نہیں کیے، اس لیے میرا بھتیجا میرے پاس رہتا ہے۔ انھوں نے مجھے بہت زیادہ حوصلہ دیا۔ میرے ایک بھتیجا انیس احمد وکیل ہے، وہ سارا وقت میرے ساتھ رہتا تھا۔ کیموتھراپی میں دس، گیارہ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ گھر والوں کے ساتھ نے اس بیماری کو مجھ پر حاوی نہیں ہونے دیا‘۔

میرے سسرال کا پیار اور تعاون ہر جگہ میرے شامل حال رہا۔ مہر صاحب ( میرے شوہر) کے بڑے بھائی جو ہر وقت میرے لیے دعاگو رہتے تھے خود اچانک ہارٹ اٹیک کے ہاتھوں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ مجھے سسرال میں اتنا پیار ملا ہے کہ میں بتا نہیں سکتی، اس کے لیے میں دل کی گہرائیوں سے ان کی شکر گزار ہوں۔ میرے بہن بھائی ماشا اللہ سب میرے لیے دعاگو رہے اور انھوں نے میرا ساتھ دیا۔ میری بھابھی جو میری ماں بھی ہیں، ان سب کی دعاؤں کا اثر ہے اور اللہ کریم کی رحمت ہے کہ میں اب پھر سے زندگی کی رعنائیوں میں لوٹ آئی ہوں۔

’ڈاکٹروں نے مجھے کہا کہ جس طرح دل کی بیماریاں، ٹی بی، پھیپھڑوں اور جلد کی بیماریاں عام ہوچکی ہیں، اسی طرح کینسر بھی ہر تیسرے فرد کو ہو رہا ہے۔ اس لیے آپ ذرا بھی پریشان نہ ہوں۔  میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب میں خود کینسر کا شکار ہوئی تو مجھے پتہ چلا کہ ہر گھر میں کسی نہ کسی کو کینسر ہوا ہے۔ میری یونیورسٹی فیلوز، میری شاگردوں کو بھی کینسر ہوچکا ہے، میری ایک دوست ایف سی کالج لاہور میں پڑھاتی ہیں، وہ بھی کینسر کا شکار ہوگئی تھیں، میری ایک دوسری دوست جو بیرون ملک مقیم ہیں، وہ کینسر کی مریضہ رہ چکی ہیں۔ جب مجھے کینسر ہوا تو ان سب کے کینسر کا پتہ چلا، اس سے پہلے علم نہیں تھا‘۔

’ڈاکٹروں نے مجھے کہا کہ آپ نے اپنے آپ کو خوش رکھنا ہے، مصروف رکھنا ہے۔ پھل کھانے ہیں، گھر کا ماحول اچھا رکھنا ہے، الحمدللہ یہ سب کچھ کیا تو حالت بہتر ہوتی چلی گئی۔ مجھے جھنگ سے شوکت خانم اسپتال لاہور جانا ہوتا تھا۔ یہ تین، ساڑھے تین گھنٹے کا سفر ہوتا تھا۔ لاہور میں میرے بھائی جان کا گھر تھا۔ واپسی پر میں وہاں آرام کرتی تھی‘۔

’مطالعہ کا شوق مجھے بچپن ہی سے ہے۔ ہمارے گھر میں اخبار آتا تھا۔ میرا ابا جی کواپریٹو ڈیپارٹمنٹ سے بطور افسر ریٹائر ہوئے۔ وہ مجھ سے اخبار سے اردو سے انگلش لکھوایا کرتے تھے۔ مجھے تب سے مطالعہ کی عادت پڑی۔ مجھے حالات حاضرہ سے متعلق پڑھنے کا شوق ہے۔ فکشن کا بھی شوق ہے، شاعری کا بھی۔  شاعری پڑھنا مجھے پسند ہے۔ میں دوران طالب علمی سیکنڈ ائیر تک بیت بازی میں حصہ لیتی تھی۔ میں ڈیبیٹر بھی تھی، حتیٰ کہ یونیورسٹی میں بھی۔ میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کیا، ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی بھی پنجاب یونیورسٹی ہی سے کی‘۔

’میں فیض، احمد فراز کو پڑھتی ہوں۔ امجد اسلام امجد، شبنم شکیل، پروین شاکر کو پڑھتی ہوں۔ شہاب نامہ پڑھا ہے۔ ممتاز مفتی کی کتب پڑھی ہیں۔ بانو قدسیہ کو بھی پڑھا ہے، قرۃ العین حیدر کو پڑھا ہے۔ منٹو کو بھی پڑھا ہے۔ اس کے علاوہ امرتا پریتم کی شاعری پڑھی ہے۔ نیلسن منڈیلا کے بارے میں جو بھی مل جائے، پڑھتی ہوں‘۔

’بنیادی طور پر مجھے سفرنامے، آپ بیتیاں پسند ہیں۔ عطاالحق قاسمی کے سفرنامے پسند ہیں۔ میں کالم پڑھتی ہوں۔ مجھے عرفان صدیقی کا طرز تحریر پسند ہے۔ حسن نثار کے تجزیے سنتی تھی لیکن وہ بعض اوقات اخلاقیات کا دامن چھوڑ جاتے ہیں۔ سوچتی ہوں کہ ہم اس قدر مشتعل ہوکرآنے والی نسلوں کو کیا سبق دے رہے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ آپ کا پیغام جس قدر زیادہ نرم ہوگا، اسی قدر زیادہ وہ اثر انداز ہوگا۔

اقبال کی شاعری لاثانی ہے اور لافانی ہے۔ اس نے کہا تھا

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

’میرا اپنا مضمون جغرافیہ ہے۔  میں جب جغرافیہ پڑھاتی ہوں تو خود کو بھی وہاں موجود محسوس کرتی ہوں۔ یورپ، شمالی امریکا، جنوبی امریکا، آسٹریلیا۔ انشااللہ ان علاقوں میں جاؤں گی اور پھر سارا احوال زیر تحریر بھی لاؤں گی۔ مجھے جغرافیہ کے بارے میں مطالعہ کرنا ہوتا ہے کیونکہ وہ میری جاب سے متعلق ہے۔ باقی گھر کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ میرے شوہر سیاست میں ہیں۔ اس لیے مجھے لوگوں کی خوشیوں اور غمیوں میں بھی جانا پڑتا ہے‘۔

 ’میرے شوہر مہر محسن خضر بھروانہ سابقہ ناظم ہیں چنڈ بھروانہ سے، یہ ان کا آبائی حلقہ ہے۔ وہ مخدوم فیصل صالح حیات کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب انشااللہ لوکل باڈیز کے الیکشن ہوئے تو پھر چیئرمین کے امیدوار ہوں گے۔

انھوں نے اپنے ارادوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا’ الحمدللہ عمرہ کرچکی ہوں، سن دو ہزار اٹھارہ سے  حج کا منصوبہ بنا رہی ہوں لیکن بات نہیں بن رہی۔ میری قوت مدافعت زیادہ مضبوط نہیں ہوئی کہ میں اس قدر مشقت طلب سفر کرسکوں۔ انشااللہ میں عمرہ پر ضرور جاؤں گی، اس کے بعد حج بھی کروں گی‘۔

کینسر کے عارضہ سے مکمل شفایابی کے بعد محترمہ شہناز محسن کے اندر ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا۔ انھوں نے بہت کم عرصہ میں بعض ایسے منصوبے شروع کرکے مکمل کیے جنھیں برسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں:

میری والدہ کو انتقال کیے ہوئے 24 واں سال ہے، اور اباجی کو فوت ہوئے 21 برس مکمل ہونے والے ہیں۔ ان کا کردار،’ محبت اور اعتماد وہ ساری زندگی، کامیابیوں اور کامرانیوں  میں میرے شامل حال رہا۔ مجھے اپنے اباجی کا اس قدر اعتماد حاصل تھا کہ جب میں یونیورسٹی میں تھی، انھوں نے کبھی مجھے نہیں کہا کہ بیٹا ! آپ نے یہ نہیں کرنا اور یہ کرنا ہے۔ عموماً والدین بچوں کو ایسا کہتے ہیں۔  اور مجھے اپنی امی کا جو پیار ملا، وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔ ہم 3 بھائی اور 2 بہنیں ہیں۔ میں سب سے چھوٹی ہوں‘۔

جب امی کا انتقال ہوا، تب سے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میری شادی امی کے فوت ہونے کے 3 سال بعد ہوئی۔’ میری زندگی میں ان کی کمی کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔ زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے جب میں نے اپنی امی اور اباجی کو یاد نہ کیا ہو۔ اور میں نے ان کی کمی محسوس نہ کی ہو۔ کسی کے ماں باپ کو کچھ ہوتا ہے تو میری آنکھوں کے سامنے میرے اپنے ماں باپ آجاتے ہیں‘۔

میں نے اپنے اباجی سے نظم و ضبط اور دیانت داری سیکھی۔ یہ 2 چیزیں ان کی شخصیت میں بھرپور انداز میں موجود’ تھیں، یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہی ہوں کہ وہ میرے والد تھے۔ ان کے ہم عصر لوگوں، رفقائے کار اور دوستوں کے بچے بتاتے ہیں کہ ان کے والد ان کی انتہائی دیانت داری کا ذکر کرتے تھے۔ میرے اباجی کی شخصیت کا یہ حصہ میرے اندر بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ الحمدللہ‘۔

میں نے اپنی تمام کامیابیوں کا سہرا اپنی امی، اباجی اور ان کے بعد اپنے شوہر کے سر باندھا۔ میرے ماں باپ کی دعائیں’ اور میرے شوہر کا تعاون میرے ساتھ ساتھ رہا‘۔

’شیخ سعدی کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہونا چاہتا ہوں۔ شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا راستہ اس کے بندوں کے پاس سے گزر کر جاتا ہے۔  میرا بھی ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو خوش رکھا جائے تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوتا ہے‘۔

جب میں نے بہ طور پرنسپل کالج کو جوائن کیا تو میں اس کالج میں بہت بہتر بنایا۔ الحمدللہ۔ میں نے بی ایس کی کلاسز’ شروع کروائیں، کالج کو بہت زیادہ سرسبزوشاداب بنایا، اگرچہ سبزہ پہلے بھی تھا لیکن میں نے اس میں کئی گنا زیادہ اضافہ کیا‘۔

میں نے اپنی امی کے نام پر مسجد بنوائی۔ اس میں ایک سو نمازیوں کی گنجائش ہے۔ ٹھیکے دار نے بھی جی لگا کر یہ’ مسجد بنائی۔ اس کا کہنا تھا کہ اللہ کو منظور ہوا تو اس  مسجد کو 100 سال کچھ بھی نہیں ہوگا‘۔

اس کے علاوہ میں نے اپنی مدد آپ کے تحت کالج کو آڈیٹوریم بنوا کر دیا۔ میں اسے بھی اپنی شاندار کامیابی گردانتی’ ہوں۔ اس کا 30 فیصد حصہ مکمل ہوچکا ہے، جون 2024 تک اس کا باقی حصہ بھی مکمل ہوجائے گا۔ انشااللہ‘۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں