عبید اعوان
امریکی حکمران بعض اوقات خود کلامی کے سے انداز میں پوچھتے ہیں کہ دنیا امریکا سے نفرت کیوں کرتی ہے؟ شاید وہ اس سوال کا جواب جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ یہ سوال پوچھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بی بی سی نے ’ سی آئی اے کا گھناؤنا خفیہ مشن جو ایک تصویر سے بے نقاب ہوا‘ کے عنوان سے ایک کہانی شائع کی۔ یہ کہانی مذکورہ بالا سوال کا بہترین جواب ہے۔
دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت، ان کی خود مختاری کو پامال کرنا، وہاں اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنا، حتیٰ کہ وہاں مسلح تحریکیں قائم کرنا، انھیں مسلسل اسلحہ فراہم کرنا۔ خانہ جنگی کروا کے مجبور کرنا کہ وہ زمام کار امریکیوں کے حوالے کردیں۔ اگر تمام تر کوششوں کے باوجود کامیابی نہ ملے تو اس قوم پر جنگ مسلط کردینا۔
امریکی کسی قوم کے ساتھ یہ سب کچھ کریں، دنیا کی باقی اقوام بھی یہ مذموم کھیل دیکھیں، اس کے باوجود امریکی خود کلامی کریں کہ دنیا ان سے کیوں نفرت کرتی ہے؟ بذات خود ایک حیران کن امر ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے:
وسطی امریکہ کے ملک نکاراگوا میں چار دہائیوں بعد سوموکیسٹا آمریت کے خاتمے کے فوراً بعد امریکی صدر رونالڈ ریگن ایک دن وائٹ ہاؤس پہنچے۔
یہ سرد جنگ کا دور تھا۔ سنہ 1979 میں نکاراگوا میں بائیں بازو کی سینڈینیسٹا نیشنل لبریشن فرنٹ (ایف ایس ایل این) کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت نئی ریپبلکن انتظامیہ کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ رونالڈ ریگن نے نکاراگوا میں ایف ایس ایل این جماعت کی حکومت کو اپنے قدم جمانے سے روکنے کے لیے وسطی امریکہ پر سخت گیر مداخلت کی پالیسی کے نفاذ کا فیصلہ کیا۔
امریکی کانگریس کی مخالفت کے باوجود نکاراگوا میں حزب اختلاف کے مسلح گروہوں جنھیں ’کونٹراز‘ کہا جاتا ہے کو وائٹ ہاؤس کی حمایت حاصل ہوئی۔
سابق امریکی میرین یوجین ہاسنفس اس گروپ کا حصہ تھے اور ان کی ایک تصویر جس میں وہ گروپ کے دیگر اہلکاروں کے ساتھ دکھائی دیے نے ایک سکینڈل کو جنم دیا۔
ہاسنفس کی گرفتاری
ہاسنفس پانچ اکتوبر 1986 کو جنوبی نکاراگوا کے اوپر پرواز کر رہے تھے جب ان کے طیارے پر حملہ کر کے اسے مار گرایا گیا۔
امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی طرف سے خریدا گیا کارگو طیارہ جس میں وہ سفر کر رہے تھے گولہ بارود، خودکار رائفلیں، جنگل میں استعمال کے جوتے اور خفیہ دستاویزات لے جا رہا تھا۔
حملے میں پائلٹ سمیت تین افراد ہلاک ہوئے لیکن ہاسنفس معجزانہ طور پر بچ گئے اور قیدی بنا لیے گئے۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ انھوں نے مسلح اپوزیشن گروپ کونٹراز کو اسلحے کی سپلائی فراہم کرنے کا کام کیا تھا۔ یہ فراہمی سی آئی اے کے اہلکاروں کی براہ راست نگرانی میں پروازوں کے ذریعے کی جا رہی تھی۔
ہاسنفس نے اپنی گرفتاری کے وقت اعتراف کیا تھا کہ ’میں قصور وار ہوں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں وہاں نہیں تھا، اور یہ کہ میں مزاحمت کے لیے چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود نہیں لے کر گیا تھا۔ وہ جو کچھ لے کر گئے تھے وہ وہاں موجود ہے۔‘
ریگن اور سی آئی اے کے ارکان کا پہلا ردعمل ہاسنفس سے اظہارِ لاتعلقی کرنا تھا۔ تاہم گرائے گئے طیارے کے ملبے میں اہم شواہد موجود تھے۔ اس جگہ ایسی دستاویزات بھی ملی تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ لیفٹیننٹ کرنل اولیور نارتھ، وائٹ ہاؤس سے غیر قانونی طور پر اس پروگرام کی سربراہی کر رہے تھے۔
اس واقعے سے انکشاف ہوا کہ ریگن حکومت کے کچھ ارکان سی آئی اے کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر امریکی یرغمالیوں کے بدلے ایران کو فوجی سازوسامان فروخت کر رہے تھے اور نکاراگوا میں مسلح گروہوں کی مالی معاونت جاری رکھنے کے لیے حاصل ہونے والی رقم کو کہیں اور استعمال کر رہے تھے۔
امریکی حکومت کے ان مبینہ ہتھکنڈوں نے اقوام متحدہ اور امریکی کانگریس دونوں کے قائم کردہ قوانین کی خلاف ورزی کی تھی جس میں ایران کو ہتھیار فروخت کرنے اور ماناگوا میں مسلح گروپوں کی مالی معاونت پر پابندی تھی۔
اس حقیقت کے باعث ایک سیاسی سکینڈل منظرعام پر آیا جسے ’ایران-کونٹراز‘ کیس کہا جاتا ہے۔
فوٹو جرنلسٹ لو ڈیمیٹیس ان تصاویر کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے جو بعد میں ثبوت کے طور پر استعمال ہوئیں اور پوری دنیا میں مشہور ہوئیں۔
وہ تصویر جس نے دنیا کا سفر کیا
ڈیمیٹیس نکاراگوا میں تھے جب ایل سیلواڈور میں ایک ساتھی نے انھیں اطلاع دی کہ ہوائی جہاز امریکہ سے سامان لے کر جا رہے ہیں۔
انھی دنوں انھیں خبر رساں ادارے روئٹرز سے کال موصول ہوئی: ’ہم نے سنا ہے کہ ایک سپلائی بردار طیارہ اڑا اور پھر غائب ہو گیا۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اسے مار گرایا گیا ہے۔ شاید کوئی ایسا ہو گا جو اس دوران بچ گیا ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اسے چیک کریں اور تصاویر لیں۔‘
ڈیمیٹیس کو معلوم تھا کہ وہ ان سے صرف کوئی عام سی تصویر نہیں مانگ رہے تھے۔ روئٹرز نے ان سے ایسی تصاویر مانگیں جو ایک سیاسی طوفان کا باعث بننے والی تھیں۔
تاہم یہ تصاویر لینے کے لیے ان کا راستہ آسان نہیں تھا۔ ڈیمیٹیس ان صحافیوں کے چھوٹے سے گروہ میں سے نہیں تھے جنھیں نکاراگوا حکومت نے اس خبر کی کوریج کے لیے منتخب کیا تھا۔ لیکن وہ ہار ماننے کو تیار نہیں تھے۔
وہ جانتے تھے کہ یہ ان کے لیے خود کو منوانے کا ایک منفرد موقع ہے۔
متعدد مرتبہ کوشش کرنے اور بار بار اصرار کرنے کے بعد ڈیمینٹس اس ہیلی کاپٹر پر سوار ہونے میں کامیاب ہو گئے جو صحافیوں کو جائے حادثہ پر لے جا رہا تھا۔ پرواز کے دوران انھوں نے زمین پر کچھ ایسا دیکھا جو باقیوں نے نہیں دیکھا تھا۔ نیچے بائیں طرف ایک شخص (یوجین ہاسینفس) فوجی وردی میں لوگوں کے ایک گروہ میں گھرے ہوئے تھے۔
اس مقام پر پہنچنے پر نکاراگوا کے حکومتی اہلکاروں نے صحافیوں کو ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی لیکن وہ جان چکے تھے کہ کہانی کہیں اور ہے۔
ڈیمیٹیس نے بی بی سی کے آؤٹ لک پروگرام کو بتایا کہ ’میں نے فیصلہ کیا کہ میں حادثے کی جگہ پر جاؤں گا۔ تو میں نے ایک راستے سے نیچے بھاگنا شروع کر دیا اور جب میں دوڑ رہا تھا تو میں نے یہ تمام فوجی جوتے ہر جگہ دیکھے۔‘
وہ فوجی جوتے اس کارگو طیارے میں موجود تھے جو امریکہ نے انقلابیوں کو بھیجے تھے اور وہ اس طیارے کے گرنے کے بعد جنگل میں بکھر گئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’سامان ہر جگہ پھیلا ہوا تھا، سب کچھ جنگل میں بکھرا پڑا تھا۔ پھر میں بھاگا اور میں نے فوجیوں کو جہاز سے ہتھیار نکالتے ہوئے دیکھا۔ ساتھ ہی وہ تین لڑکے جو مر چکے تھے ان کی لاشیں بھی وہاں پڑی تھیں۔‘
یہ دیکھ کر ڈیمیٹیس واپس پریس کانفرنس کی طرف بھاگے۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ دو سپاہی ہاسینفس کو اپنے سامنے ایک پہاڑی پر لے جا رہے ہیں۔
دیمینٹس نے فوراً یہ تصویر بنا لی۔ فوٹوگرافر کے مطابق اس پہاڑی پر این بی سی کے رپورٹر جان سیسیلوف بھی تھے، جنھوں نے ان سے اس کا نام پوچھا اور یہ بھی کہ وہ یہاں کیسے پہنچے۔
اور اسی وقت ہاسینفس نے اوپر دیکھا اور کہا ’وہ مجھے آسمان سے اتار لائے ہیں۔‘
یہ ایک ناقابل یقین لمحہ تھا۔ ہاسینفس کچھ دیر پہلے تک یہ سوچ رہے تھے کہ انھیں گولی مار دی جائے گی اور اب ان کے ارد گرد صحافیوں کا ایک بین الاقوامی گروپ موجود تھا۔
ڈیمیٹیس نے زندہ بچ جانے والے افراد اور حادثے کی جگہ کی تصاویر رؤئٹرز کو ارسال کر دیں۔ وہ یہ جانتے تھے کہ ان کے پاس موجود مواد بہترین ہے۔
خاص طور پر وہ تصویر جس میں پائلٹ کو سینڈینیسٹاس لے جایا جا رہا تھا۔ یہ تصویر دنیا بھر کے اخبارات کے صفحہ اول پر شائع کی گئی۔
ڈیمینٹیس کہتے ہیں کہ ’اس کے اثرات فوری تھے۔‘
ریگن کی توثیق
امریکی صدر رونالڈ ریگن نے نکاراگوا میں مسلح مخالفین کی کھل کر حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ انتخابی طور پر منتخب ہونے والی نیشنل لبریشن فرنٹ کی حکومت کو کمزور کریں۔
تاہم جیسے جیسے شہریوں کے خلاف جرائم کی خبریں پھیلیں، امریکی رائے عامہ منقسم ہو گئی۔ کانگریس میں بہت سے لوگوں نے باغیوں کی حمایت کے جواز پر سوال اٹھایا۔
اس طرح کانگریس نے سنہ 1984 میں ایک قانون کی منظوری دی جس میں ان گروپوں کی مالی معاونت پر پابندی تھی۔
ریگن نے کانگریس کے فیصلے سے پہلے کہا تھا کہ ’کوئی بھی تجویز جو کمیونسٹوں کے لیے جمہوری مزاحمت کے 15 ہزار سے زیادہ اراکین کو ترک کر دے، کوئی سمجھوتہ نہیں، بلکہ ایک شرمناک ہتھیار ڈالنا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ریپبلکن انتظامیہ اس بات سے قطع نظر کہ کانگریس نے کچھ بھی حکم دیا تھا سپلائی بھیجنا جاری رکھنا چاہتی تھی۔
صدر نے کہا کہ ’اگر کانگریس کبھی بھی ایسی کوئی تجویز پاس کرتی ہے، تو یہ کمیونسٹ دہشت گردوں کے ہتھیاروں کے طور پر نکاراگوا کو مضبوط کرنے میں تیزی لائے گی اور پورے امریکہ میں سوویت کی سرپرستی میں ہونے والی جارحیت کو سبز جھنڈی دے گی۔‘
لیکن ریگن کے اعتراضات کے باوجود اکتوبر 1984 میں کانٹراز کے لیے تمام امدادی فراہمی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ انجام ہوسکتا تھا، لیکن ایسا نہیں تھا۔
ایک ملک جس کا نام نکاراگوا ہے
انھوں نے کہا کہ ’وہ رک گئے، لیکن یہ سچ نہیں تھا۔ وہ اب بھی کنٹراز فراہم کر رہے تھے۔ لیکن کوئی ثبوت نہیں تھا۔‘
آخر کار ڈیمیٹیس ان تصاویر کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے جو نکاراگوا میں امریکہ کے اقدامات کے ثبوت کے طور پر کام کریں گے۔
واشنگٹن میں تشویش نے ایوان نمائندگان کو تحقیقات شروع کرنے پر آمادہ کیا تھا جس میں سرکاری اہلکاروں سے پوچھ گچھ کی جانی تھی۔
جب ڈیمیٹیس سان فرانسسکو کی یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے تو انھیں نکاراگوا کے وجود کے بارے میں علم بھی نہیں تھا۔
وہیں ان کی ملاقات ایک نوجوان طالب علم کارلوس سوموزا سے ہوئی جس کے ساتھ انھوں نے ایک کمرہ شیئر کیا اور کچھ ہی عرصے میں وہ ان کے بہترین دوستوں میں سے ایک بن گئے۔
ڈیمیٹیس یاد کرتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے چچا نکاراگوا کے صدر اناستاسیو سوموزا تھے۔ اور انتخابات ابھی ہوئے تھے۔ اس وقت اپوزیشن نے کہا تھا کہ انتخابی دھاندلی ہوئی ہے اور انھوں نے کہا کہ وہ انتخابات جیت گئے ہیں۔‘
نکاراگوا آمر کے بھتیجے نے انتخابی دھاندلی کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ان کے خاندان نے 45 سال تک نکاراگوا پر حکومت کی کیونکہ نکاراگوا کے لوگ ’ان کے خاندان سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ ہمیں ووٹ دیتے ہیں۔‘
اس وقت میں نکاراگوا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ لیکن جب میں نے یہ سنا۔۔۔ میں نے اس وقت اس سے کچھ نہیں کہا۔ میں نے صرف سوچا، ٹھیک ہے، 45 سال تک بغیر کسی قسم کے خلل کے ملک چلانا قابل اعتراض لگتا ہے۔
ڈیمیٹیس نے رؤئٹرز کو لکھا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن جواب تھا: ’ہمارے پاس آپ کے لیے نوکری نہیں ہے۔‘
لہٰذا انھوں نے 1985 میں اپنے طور پر نکاراگوا جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ ڈینیئل اورٹیگا کے صدر بننے کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے ملک میں آئے جنھوں نے 1984 میں صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
سینڈینیسٹا نیشنل لبریشن فرنٹ نے نکاراگوا کی تاریخ میں سوموکیسٹا آمریت کے تقریباً نصف صدی کے بعد پہلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
یہ بہت سے نکاراگون افراد کے لیے ایک دلچسپ وقت تھا لیکن امریکی حکومت کے لیے یہ ایک خطرے کی بات تھی۔
امریکی تاریخ کے سب سے اہم سیاسی سکینڈل میں سے ایک کو بے نقاب کرنے کے بعد، ڈیمیٹیس نے تقریباً چھ سال مناگوا میں گزارے اور یوں وہ ایسی تصویر بنانے میں کامیاب ہوئے جسے آج بھی یاد رکھا جاتا ہے۔