نصرت یوسف
فہمی باجی ہمارے ادارے کی بڑی ہنس مکھ سی مددگار تھیں۔ کچھ لوگ ان کی بتیسی کی ناگفتہ حالت کی بنا پر ان کا مذاق بھی کبھی بنا جاتے لیکن وہ آگے سے کہتیں’ خوبصورتی کا ہمیں بھی پتہ ہے، لیکن نوٹوں کو ہمارا پتہ نہیں ہے‘ کہنے والا ان کی یہ بات سن کر کبھی تو چپ ہوجاتا اور کبھی انگریزی میں اپنی نخوت جتا جاتا۔
جو بھی ہو فہمی باجی ادارے کی ذمہ دار فرد ثابت ہوئی تھیں۔ پانچ سالہ نوکری میں پہلی بار ایک ساتھ ہفتہ بھر کی چھٹی بیٹے کی شادی کرنے کے لیے لی تو خاصی پس و پیش کے بعد ہی منظور ہوئی۔ گو ان کے علاوہ بھی مددگار خاتون تھیں لیکن فہمی باجی کی بات اور تھی۔ وہ ایسی تھیں جیسے گھر کا بڑا جسے وہ بھی علم ہوتا جو چھوٹے نے ابھی کہا بھی نہ ہو۔
سکہ رائج الوقت کے لحاظ سے ایک خطیر رقم ادارے سے بطور قرض بھی لی جو لگ بھگ انکی سال بھر کی اجرت برابر تھی.
ساتھیوں نے اس موقع پر ان کو تحفہ کے طور پر نقد رقم جمع کرکے دی تھی جس کو پا کر وہ بہت ممنون لگتی تھیں۔
اکلوتے بیٹے کی دلہن ان کی پیاری بھانجی نے بننا تھا جس کا ذکر اور خواب ان کی گفتگو کا عرصہ سے حصہ تھا۔
ہمارا دل تھا کہ فہمی رقم کو بہت احتیاط سے خرچ کریں کہ قرض اتارنا ان کے لیے وبال نہ بن جائے. وہ میاں کی پہلی بیوی تھیں، سو بہت سے گھریلو معاملات ان کے پہلے ہی گنجلگ تھے۔
اولاد کتنی بھی اچھی ہو، والدین جیسی بے اختیار اور بے غرض محبت نہیں کرپاتی بالخصوص جب معاشی تنگی کا معاملہ بھی ہو۔
فہمی باجی کو حسب توفیق اورحسب نصیب بہت سے ساتھیوں نے شادی کے لیے اعانت دی۔
ہفتہ بھر بعد وہ آئیں تو بہت خوش تھیں، بیٹے بہو کا ذکر کرتے ان کی زبان سوکھتی ہی نہ تھی۔
موبائل پر جو تصاویر دکھائیں، انھیں دیکھ کر کسی نے تنقید کی تو کسی نے چپ سادھی۔ فہمی باجی نے بیٹے بہو کے بہت سے شوق پورے کرنے چاہے تھے۔ اس سے کہیں بڑھ کر وہ ادارے کے افراد کے ہاں تقریبات کا حال سنتی تھیں لیکن فہمی باجی کی کمزوری سب پر عیاں تھی تو اعتراضات کی بھرمار ان کی تصاویر کے بعد چند دن لوگوں کی گفتگو کا حصہ بن گئی۔
بیٹا خود کچھ نہیں کرتا، ماں کو مشقت میں ڈال رکھا ہے، کمرہ بھی ماں نے بنوایا، بہو کو گھر کے کسی کام سے کوئی مطلب نہیں ہے، گھر میں روز بازار سے روٹی سالن بہو میاں سے کہہ کر منگواتی ہے، وغیرہ وغیرہ جیسی باتیں فہمی باجی کے گھر سے متعلق سننے میں آنے لگیں اور ان باتوں کے ساتھ فہمی باجی کی خوش باشی بیماری اور زرد رنگت میں ڈھلنے لگی۔
اس دن چھٹی کے بعد پہلی بار ہم نے انہیں چادر اوڑھے ایک سنسان گوشے میں آنسو بہاتے دیکھا تو دل افسردہ ہوگیا.. ماں باپ اور بچوں کی محبت کے فرق نے بہت سوں کو اندیشوں سے سہما دیا۔
ہم میں سے ایک نے تسلی دیتے تنک کر کہا ” کس قسم کی بہو ہے تمہاری؟”
فہمی باجی نے اس سوال پر چادر کے پلو سے آنکھیں پوچھیں‘ بیٹی بہت اچھی ہے‘
ان کے جواب کی گونج جاتے قدموں میں بھی نمایاں تھی۔