عبید اللہ عابد
دنیا کے دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان بھی امام عالی مقام رضی اللہ عنہ سے محبت اور عقیدت کرنے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہر سال یوم عاشور کے موقع پر نواسہ رسول ﷺ سے محبت اور عقیدت خوب نظر آتی ہے، بلکہ دنیا کے دیگر مسلمانوں سے زیادہ نظر آتی ہے۔ ہاں ! ہمارے مفاداتی گروہوں میں یہ محبت و عقیدت انوکھی نظر ہوتی ہے۔
مثلاً ہر سال پاکستان کے حکمران قوم کو یاد کرواتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے، اس میں پیغام یہ ہے کہ مسلمانوں کو جبر و استبداد کے آلہ کاروں کے خلاف جہاد، سچائی اور صداقت کا علم بردار بننا ہوگا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نےاسلام اور حق و صداقت کے لیے اہلِ خانہ اور ساتھیوں سمیت شہادت قبول کرلی تھی لیکن جابر حکمران کی بیعت سے انکار کیا تھا، شیطانی قوتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا۔ اپنے خون سے اسلام کو نئی زندگی عطا کی تھی۔
پاکستان کا ہر حکمران اپنے پیش رو کا جاری کردہ پیغام ہاتھ میں پکڑ کر پاکستانی قوم کو یہ بات یاد کرانا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ جب ہم اللہ کے دین، نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی پر عمل کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گا اور ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے۔
صدر مملکت، وزیر اعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ ہر سال قوم کو ایک ہی سبق ایک جیسے جملوں کے ساتھ یاد کراتے ہیں۔ اس میں لفظوں کا ہیر پھیر بھی نہیں ہونے دیتے۔ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین بھی یوم عاشور پر کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ وہ بھی قوم کو سبق پڑھانے میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک روز میں نے اخبارات میں شائع شدہ تمام پیغامات کو جمع کرکے دیکھا، ان میں سرِمو فرق نہیں تھا۔
اپنی زندگی میں اک عجب لیکن دلچسپ معاملہ یہ بھی دیکھا کہ پاکستان میں ہر گروہ اپنا تعلق امام حسین رضی اللہ عنہ سے جوڑتا ہے اور دوسروں کو یزید سمجھتا ہے۔ جان کی امان ملے تو عرض کروں گا کہ ہمارے سب سیاسی، غیر سیاسی گروہ اپنے مخصوص مفادات کا کڑوا چورن ہتھیلی پر رکھتے ہیں، انھیں مقدس ہستیوں کی یاد کے کیپسول میں بھرتے ہیں، اور پھر اسے بیچنے کی کوشش میں تن، من، دھن لگا دیتے ہیں۔
یہ چورن وہ جج حضرات بھی بیچتے ہیں جو اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر، اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر، اپنے آپ کو امام حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے کا شریک قرار دیتے ہیں، جنھیں 19 برس بعد پتہ چلتا ہے کہ اسلام ٓباد کے نواح سے تعلق رکھنے والے مظہر حسین نامی قیدی کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں، چنانچہ وہ قیدی کو 19 برس بعد ، جی ہاں ! تقریباً دو عشروں بعد باعزت بری کرتے ہیں، تب انھیں پتہ چلتا ہے کہ وہ بے چارہ قیدی 2 برس قبل جیل ہی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر انتقال کرگیا تھا۔
مجھے یقین ہے کہ وہ جج بھی امام عالی مقام رضی اللہ عنہ سے عقیدت میں دھاڑیں مارتے ہوئے روتے ہیں، جنھیں چنیوٹ کی رانی بی بی کے بارے میں 18 برس بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ بے قصور ہے، اس پر شوہر کے قتل کا الزام جھوٹا تھا۔
ایسے ہزاروں واقعات ہیں جن میں کسی کو برسوں بعد بے گناہ قرار دیا گیا اور کسی کو عشروں بعد۔ سب کا ذکر کیا تو امام حسین رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرنے والے جرنیلوں، سیاست دانوں، بیوروکریٹوں کا تذکرہ کہاں کیا جائے گا، جن کے ہاتھ میں ہر وقت ظلم و جبر کا کوڑا ہوتا ہے اور وہ اس ملک کے چوبیس کروڑ عوام پر وہی کوڑا ہر وقت برساتے چلے جاتے ہیں۔
البتہ اس کے ساتھ ساتھ قوم کو کچھ قربانیاں بھی یاد دلاتے ہیں جو اہل ایمان کو مشکلات اور چیلنجز میں ہمت اور امید فراہم کرتی ہیں۔ یوں وہ قوم کو عزم، ہمت اور بہادری کی علامت بننے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔
کیا آپ کو یاد ہے کوئٹہ کے نزدیکی علاقے خروٹ آباد کا وہ واقعہ جس میں بہت سے بہادر سورماؤں نے 5 غیر مسلح، نہتے مسلمان چیچن باشندوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا تھا، ان 2 مردوں اور 3 عورتوں میں سے ایک 7 ماہ کی حاملہ بھی تھی، اس کی شکم میں موجود بچہ بھی چھلنی ہوگیا تھا، وہ مسلمان سورما بھی تو اپنے آپ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شدید محبت کا اسیر سمجھتے تھے!
کیا آپ کو یاد ہے سانحہ ساہیوال، جس میں سیکورٹی اہلکاروں نے گاڑی میں سوار ایک پورے خاندان کو بلاتخصیص مردوزن گولیوں سے چھلنی کردیا تھا، بس! 2 بچے ہی بچ گئے تھے، ہمارے سورماؤں کو وہ بچے نظر نہیں آئے تھے ورنہ وہ بھی چھلنی ہوجاتے! مسلمان خاندان کے چیتھڑے اڑانے والے ’شیر دل‘ جوان بھی تو امام عالی مقام رضی اللہ عنہ سے اپنا تعلق جوڑتے ہوں گے۔
جب ان سورماؤں پر قتل کا مقدمہ چلا تو وقت کے حکمران نے ان کی رہائی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ وہی حکمران حکمرانی ملنے سے پہلے ، حکمرانی ملنے کے بعد اور حکمرانی چھننے کے بعد ہر روز حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہیں، ظلم و جبر کے خلاف ان کے روشن کردار کو بیان کرتے ہیں۔
مکرر عرض ہے کہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف، ہر گروہ اپنا مفاد پیش نظر رکھ کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد کو کشید کرتا ہے اور ایک پیغام تیار کرتا ہے، عین یوم عاشور پر یہ پیغام جاری کرتا ہے۔ اور ہر سال جاری کرتا ہے۔
ایسے میں، سوچتا ہوں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اگر آج پاکستان میں ہوتے تو کیا عالم ہوتا!
وہ ہمارے مفاداتی گروہوں کی غلط کاریوں پر ٹوکتے ، کیا یہ گروہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے سامنے سراطاعت خم کرتے؟ امام عالی مقام کے اعلیٰ ترین افکار کو قبول کرتے؟
(بادبان، عبیداللہ عابد)