رات کی تاریکی میں بجلی کا کھمبا اور روشن چاند

پاکستان میں عوام کو سستی بجلی کیسے فراہم کی جاسکتی ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نبیلہ شہزاد

چند دن پہلے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک مزدور جس کی ماہانہ کمائی 30 ہزار روپے ہے، اسے بجلی کا بل 42 ہزار بھیج دیا گیا۔ وہ آدمی ایک دردناک کیفیت میں رو رہا تھا اور حکمرانوں سے سوال کر رہا تھا کہ اسے بتایا جائے، وہ 30 ہزار روپے میں سے 42 ہزار روپے کا صرف بجلی کا بل کیسے ادا کرے؟ دوسرے بلوں اور گھر کے دیگر اخراجات کے لیے کہاں جائے۔

آج کل یہ رونا صرف ایک پاکستانی کا ہی نہیں بلکہ پاکستانیوں کی کثیر تعداد کا ہے۔ ایک طرف کم آمدن اور دوسری طرف ہر چیز کی بڑھتی قیمت نے تو شدید مہنگائی کا ناسور پیدا کر کے پہلے ہی عوام کو ادھ موا کیا ہوا تھا جو بجلی کو مزید مہنگا کرکے ایک بم عوام پر گرانا ضروری تھا؟ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی کی بنیادی قیمت میں 4 روپے 96 پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا ہے۔ اس طرح عوام کے لیے اوسطاً ٹیرف کی فی یونٹ قیمت 24 روپے 82 پیسے سے بڑھ کر 30 روپے تک ہو جائے گی اور یہ جملہ ٹیکسز کے ساتھ عوام کو اوسطاً فی یونٹ 50 روپے تک پڑے گی۔

پاکستان میں میدانی علاقے تقریبا گرم موسم رکھتے ہیں۔ ویسے بھی گرمی کا موسم ہو یا سردی کا، بجلی تو گھریلو سطح پر بھی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ کیسی بدقسمتی کہ ہماری بنیادی ضرورت کو بھی شدید ترین مہنگا کر کے دن بہ دن ہماری پہنچ سے دور کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا صرف ایک پنکھے اور چند ایک دوسری چیز کے ساتھ بھی 20، 20 ہزار تک بل آ رہا ہے۔ مہنگی ترین بجلی کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی نتھی ہے۔

مختصراً دیکھتے ہیں کہ ہم کیوں اس مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا ہمارے ملک میں بجلی حاصل کرنے کے ذرائع کی کمی ہے یا ارباب اختیار کی نالائقی؟ جب بجلی پیدا کی جا رہی ہے تو اس کا زیادہ حصہ کہاں جاتا ہے؟

اس کا جائزہ لینے کے لیے ہم اوپر سے شروع ہو کر نیچے کی طرف آتے ہیں۔

صدر و وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء کے محلوں میں ہزاروں کیا بلکہ بے حساب یونٹ مفت بجلی استعمال کی جاتی ہے۔ نہ صرف ان کے گھرانوں کے افراد بجلی سے چلنے والے اے سی اور گرم ہیٹروں کا استعمال ہر وقت کرتے ہی ہیں بلکہ ان محلوں میں ڈیوٹی انجام دینے والے تمام ملازمین کو بھی زبردست سہولتیں میسر ہیں، وہ بھی آنکھیں بند کر کے بے دریغ بجلی استعمال کرتے ہیں۔

ان سب کو اس بات کا کوئی احساس و ادراک نہیں کہ  بجلی سے چلنے والی چیز کا بغیر ضرورت استعمال نہیں کرنا چاہیے، انھیں اپنے ہاتھ کو تھوڑی سی جنبش دے کر انگلی آف کے بٹن پر رکھ دینی چاہیے۔ لیکن ان کے ہاں مال مفت دل بے رحم کی مانند الیکٹرک چیزیں چلتی ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ ان کے استعمال کے نتیجے میں آنے والے بلوں کی ادائیگی کون سی انھوں نے اپنی جیبوں سے کرنی ہے۔ ان سب کی ادائیگی حکومتی خزانے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی سے دیے گئے ٹیکسوں سے ہونی ہے۔

ان کے علاوہ سرکاری افسران کو بھی بجلی مفت دی جاتی ہے۔ پاور ڈویژن حکام کے مطابق افسران کو ایک سال میں تقریباً 9 ارب روپے کی بجلی مفت دی جاتی ہے۔ جب سرکاری بھیڑیوں کو مفت بجلی کی عیاشی حکومتی سرپرستی میں دی جاتی ہے تو عوام بھی ان سے چار ہاتھ آگے کا سوچتے ہیں۔ اس کا طریقہ عوام نے بجلی کی چوری کی صورت میں نکالا ہے۔

کمال یہ ہے کہ اس چوری میں واپڈا  کے ملازمین چند ہزار کی خاطر عوام کا پورا پورا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ چوری، غیر قانونی تاریں لگا کر جسے کنڈے کہا جاتا ہے اور بجلی کے میٹرز کی رننگ میں ردوبدل کر کے کی جاتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال چوری ہونے والی بجلی میں سے 200 ارب روپے کی بجلی کنڈوں اور 80 ارب روپے کی میٹرز کے ذریعے چوری کی گئی۔ بجلی مزید مہنگی ہونے کی وجہ سے رواں سال چوری کی شرح گزشتہ سے بھی زیادہ ہے۔ بجلی چوروں میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں لیکن وہ لوگ شامل نہیں جو مشکلات تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن تقویٰ کا دامن مضبوطی سے تھامے ہوتے ہیں۔

واپڈا ملازمین اور صارفین کے درمیان بجلی چوری ایک کاروبار بن کے رہ گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 20 فیصد بجلی چوری ہو جاتی ہے، 10 فیصد بجلی کے بل ادا نہیں ہوتے، تقریبا 7 ہزار میگا واٹ بجلی ہر ماہ سسٹم سے غائب ہو جاتی ہے جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے اور یہ نقصان لائن لاسز کے نام پر صارفین میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں بجلی کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے جسے حل کرنا بڑا دشوار ہو۔ حل صاف اور سیدھا ہے جو ہمارے ملک میں کھیتوں میں کام کرنے والے دہقان بھی بتا سکتے ہیں۔

سب سے پہلے تو حکومتی و سرکاری مگر مچھوں کو مفت بجلی کی فراہمی روک دی جائے۔ جب یہ لوگ بلوں کی ادائیگی اپنی جیبوں سے کریں گے تو استعمال بھی سوچ سمجھ کر کریں گے۔ پھر باورچی خانوں اور گیراجوں میں اے سی نہیں چلیں گے اور راتوں کو ان کے محل دن کے اجالوں کی مانند روشن نہیں ہوں گے۔ اس سے کئی میگا واٹ بجلی کی بچت ہوگی۔

دوسرے نمبر پر، جن علاقوں میں بجلی چوری کی اطلاع ملے، چوروں کے ساتھ ساتھ وہاں کے لائن مین، انجینیئرز اور میٹرز ریڈرز کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ گھریلو صارفین بھی چوری شدہ بجلی کو ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ کھلے دل سے استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کا بل بھی چند سو یا دو، تین ہزار روپے فکس ہوتا ہے۔ یہاں بھی بجلی کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوتا ہے اور حکومتی خزانوں کو اربوں کا نقصان پہنچتا ہے۔

علماء کرام اور مساجد کے خطیب بجلی کی چوری کے نتیجے میں زمین سے نکلا پانی، پکایا گیا کھانا، ٹھنڈک میں کیے گئے آرام کے حرام ہونے کی عوام کو آگاہی دیں کہ وہ عارضی سہولت کے لیے ابدی جہنم نہ خریدیں۔ ان اقدامات سے ہی کافی حد تک بجلی کی کمی پوری ہو جائے گی۔

اب آتے ہیں اگلے اقدام کی طرف جس کے لیے اپنی سیاسی انجینیئرنگ میں مدہوش حکمرانوں کو سستی چھوڑ کر کچھ ہاتھ پیر ہلانے پڑیں گے۔

پوری دنیا اس وقت سولر یا شمسی توانائی کی طرف جا رہی ہے۔ یہ نہ صرف سستی بلکہ مفت بجلی کا ذریعہ ہے۔ چونکہ یہ سولر پینل بھی امپورٹ شدہ ہوتے ہیں اور مہنگے پڑتے ہیں لہذا حکومت عوام کے لیے ان کا حصول آسان بنائے، ان پر سے درآمدی ڈیوٹی ختم کرے اور ان کے لیے بلا سود قرضہ فراہم کرے۔ شمسی پینلز ملکی سطح پر کثیر تعداد میں تیار کیے جائیں۔

اکنامک سروے آف پاکستان 2022ء کے مطابق پاکستان پانی سے بجلی پیدا کرنے کے ذرائع سے مالا مال ملک ہے۔ اس کی پانی سے بجلی پیدا کرنے کی استعداد 60 ہزار میگا واٹ ہے لیکن اس وقت پاکستان اس استعداد کا صرف 16 فیصد استعمال کر رہا ہے۔ لہذا حکومت کوئلے یا دوسرے ذرائع کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی بجائے پانی کی طرف آئے  اور 16 فیصد کی بجائے 100 فیصد یہ استعداد استعمال کرے ۔ واضح رہے کہ جو کوئلے سے بجلی پیدا ہو رہی ہے اس کا 75 فیصد کوئلہ باہر سے منگوانا پڑتا ہے، اس سے بجلی کی قیمت بھی بڑھتی ہے۔

حکومت اب عوام پر رحم کھائے اور چند قابل عمل اور مضبوط اقدامات کر کے بجلی کا حصول عوام کے لیے آسان بنائے ورنہ جو لوگ محض تقویٰ کی بنیاد پر ابھی تک کنڈا سسٹم کی طرف نہیں آئے، خدا نخواستہ بجلی کے مسلسل بڑھتے ریٹ کہیں انھیں بھی کنڈا سسٹم کی طرف جانے پر مجبور نہ کر دیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں