ابن صفی

’اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے‘

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد

جب میں نے کہیں پڑھا کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بھی ابن صفی کی کہانیوں کو سراہا تو حیران ہوا۔ سبب یہ تھا کہ ایک طویل عرصہ تک ابن صفی کے ناولوں کو عام سے ناول ہی سمجھتا رہا، میرا خیال تھا کہ انہیں ادب کہنا مناسب نہیں، بس! جاسوسی کہانی ہی کہا جاسکتا ہے۔  انہیں پڑھے بغیر خیال تھا کہ ان کہانیوں میں ادب کی چاشنی بھلا کیسے ہوسکتی ہے! تاہم مولوی عبدالحق کے بعد دیگر کئی ادیبوں اور نقادوں نے ابن صفی کی نثر کو پسند کیا تو میں نے افسوس کیا کہ لڑکپن، جوانی اور اس کے بعد کے کئی مہ و سال ابن صفی کو پڑھے بغیر کیوں گزار دیے۔

اس کے بعد ان کی جاسوسی کہانیاں پڑھنے کا ارادہ کیا، لیکن پہلے ان کی ایک تحریر ہاتھ لگ گئی:’میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟‘

 کمال تحریر تھی، شاندار ادبی شہ پارہ۔ اس میں وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کیسے کہانیاں لکھنا شروع کیں؟ بالخصوص جاسوسی کہانیاں۔ کالم کی طوالت کا ڈر ہے ورنہ ’میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟‘ کے اقتباسات  ضرور پیش کرتا، پڑھنے والوں کو پتہ چلتا کہ ایسی مقبول ترین کہانیاں کیسے لکھی جاتی ہیں جو کروڑوں لوگ پسند کرتے ہیں۔ ایسی کہانیاں لکھنے والوں کا بچین، لڑکپن کیسا ہوتا ہے؟ عادات و اطوار کیسے ہوتے ہیں؟ کم ازکم مجھے ایسے سوالات کے جوابات کی تلاش ہوتی ہے۔

پھر جب ابن صفی کی کہانیاں پڑھنا شروع کیں تو ان کے فنی محاسن مجھ پر خوب کھلے۔ پتہ چلا کہ لوگ کیوں ان کہانیوں کے کرداروں سے متاثر ہوتے  ہیں، خود کو ایسا ہی کردار بنانے کی غیر شعوری کوشش کرتے، اپنی زندگی میں بھی اسی انداز میں پراسرار گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

آپ کبھی کوئی اچھی فلم دیکھ کر فارغ ہوں، آپ کو اس کا ہیرو بہت پسند آیا ہو تو کئی روز تک آپ خود کو ویسا ہی ہیرو محسوس کرتے ہیں، اپنے اندر ویسی ہی  خصوصیات محسوس ہوتی رہتی ہیں، ابن صفی کے کرداروں کے ساتھ  کچھ وقت گزارنے کے بعد بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ وہ اس قدر پرتاثیر کہانیاں لکھنے میں کامیاب کیسے ہوئے؟ اس کا جواب نہایت دلچسپ ہے۔

جاسوسی ادب لکھنے والے متعدد مصنفین دنیا کی مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ بعض برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو اور بعض ایم آئی سکس کے ساتھ وابستہ رہے۔ بعض امریکی خفیہ ایجنسیوں او ایس ایس اور سی آئی اے کے لیے کام کرتے رہے۔  اپنی ذمہ داریوں سے فراغت پانے کے بعد یہی جاسوس کہانیاں لکھنے لگے ۔

جنگ عظیم اول کے بعد یہ کہانیاں زیادہ لکھی گئیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد اور زیادہ لکھی گئیں۔  سمرسٹ ماہم، الیگزینڈر ولسن، کمپٹن میکنزی وہ کہانی کار ہیں جو جنگ عظیم اول میں شامل رہے۔ دوسری عظیم جنگ کے بعد ہیلن میکلینز سمیت بہت سوں نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔

بعدازاں سرد جنگ کے دور میں، ہر گزرتے برس پہلے سے زیادہ ناول لکھے گئے۔ امریکا، برطانیہ میں لکھے گئے، سوویت یونین میں بھی لکھے گئے۔ نائن الیون واقعات کے تناظر میں بھی جاسوسی ادب لکھا گیا۔

مغرب میں جاسوسی کہانیاں لکھنے والوں کی ایک طویل قطار ہے۔ بہت سوں کی کہانیوں کو غیر معمولی پسندیدگی ملی۔ تاہم آرتھر کونن ڈویل اور ایان فلیمنگ کی کہانیاں اور ان پر بننے والی فلموں نے ایک جہاں کو مسحور کیا۔ اول الذکر کی کہانیاں مشہور کردار شرلاک ہومز سے متعلق تھیں۔ موخر الذکر کے ناولوں کے کردار’جمیز بانڈ‘ وغیرہ تھے۔ ان پر متعدد فلمیں بھی بنائی گئی۔ دونوں مصنفین کے ناول اس قدر زیادہ تعداد میں شائع ہوئے اور پڑھے گئے کہ شمار کرنے والے شمار کرتے عاجز آگئے، اسی طرح ان کے ناول پر بننے والی فلمیں بھی مغرب سے مشرق اور شمال سے جنوب تک، پوری دنیا میں خوب دیکھی گئیں۔

آرتھر کونن ڈویل اور ایان فلیمنگ بھی باقاعدہ جاسوس تھے۔ انہوں نے بھی دیگر جاسوس ادیبوں کی طرح اپنے جاسوسی کے تجربات، مشاہدات اور معلومات کی بنیاد پر جاسوسی کہانیاں لکھیں تاہم  یہ کس قدر حیرت انگیز حقیقت ہے کہ ابن صفی نے کسی چھوٹی سی خفیہ ایجنسی کے لیے بھی کام نہیں کیا، لیکن ان کے لکھے ناول اس قدر شاندار اور پرتاثیر تھے کہ مغربی ناول نگار ان سے جلن محسوس کرنے لگے۔ ہاں! بعض انگریز ادیب دیانت دار نکلے،انھوں نے ابن صفی کی خوب کھل کر تعریف کی۔ مثلا برطانوی خاتون ناول نگار اگاتھا کرسٹی،  جرمن خاتون اسکالر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ اور نارویجئین پروفیسرفن تھیسن۔

ماضی قریب میں جے کے رولنگ کی لکھی ’ہیری پورٹر سیریز‘ کے ہر اگلے ناول کا انتظار بھی خوب ہوتا تھا۔ جس صبح ناول کی فروخت شروع ہونے کا اعلان ہوتا، لوگ اس سے پچھلی رات دکان کے باہر طویل قطاروں میں بیٹھ کر گزارتے تھے۔ ہر ایک کو ایک ہی لالچ ہوتا تھا کہ سب سے پہلے وہی ناول پڑھے۔ ایسا ہی انتظار ابن صفی کے ناولوں کا ہوتا تھا۔

بعض بڑے ادیب اور نقاد جو جاسوسی ادب کو ادب میں شامل نہیں کرتے تھے، خود ابن صفی کے ناولوں کے انتظار میں سوکھتے پائے گئے۔ ان میں ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی بھی تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’ آدمی اور کتاب‘ میں ابن صفی کا طویل ذکر کیا۔ اور بتایا کہ جب بھی ناول آتا، ان کے اور بیوی کے درمیان  کشمکش شروع ہوجاتی کہ پہلے کون پڑھے گا۔

وہ لکھتے ہیں کہ جب محمد حسن عسکری نے شکایت کی اردو نثر کا فن زوال پذیر ہے اور کوئی اچھی زبان نہیں لکھ رہا ہے تو میں نے انہیں ابن صفی کاایک  ناول پڑھنے کو دیا اس کے بعد وہ ہر ماہ پوچھتے تھے’ کشفی صاحب، ابن صفی کا نیا ناول آگیا؟

محمد حسن عسکری کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ اردو زبان و ادب کے بڑے نقاد ، مترجم، افسانہ نگار اور انگریزی ادب کے استاد تھے۔ اگر وہ ابن صفی کی نثر کے رسیا ہوگئے تھے تو کچھ تو تھا اس نثر میں۔ ان کی کہانیوں کا ایک کمال یہ بھی سامنے آیا کہ دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اہلکار ابن صفی سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔

 مغربی جاسوسی ادیب ابن صفی سے خار کھاتے تھے۔ وہ ابن صفی کی لکھی کہانیوں میں موجود کرداروں کا مذاق اڑاتے تھے۔ دوسری طرف انہی انگریز ادیبوں کی جاسوسی کہانیوں میں ابن صفی کے کرداروں کے اثرات واضح نظر آتے تھے۔ آج بھی انگریزوں کی جاسوسی کہانیوں میں ابن صفی کے کرداروں جیسے کردار نظر آئیں گے۔ مثلا کرنل جیمس اور  کیپٹن جون کی کہانیاں پڑھ لیں۔

 26جولائی 1928 کو الہ آباد( انڈیا) میں پیدا ہونے والے ابن صفی نے 26 جولائی 1980 کو کراچی میں انتقال کیا۔ ویسے ان کی زندگی کا چراغ اسی دن گل ہوگیا تھا جب ان کے ناول ’ڈاکٹر دعا گو‘ پر 1977 میں ٹیلی فلم بنی لیکن اسے ٹیلی کاسٹ نہ ہونے دیا گیا۔ کیوں؟

اس کا جواب کسی کو معلوم نہیں۔ حتیٰ کہ ابن صفی  کو بھی نہیں۔ وہ حیران و پریشان رہے کہ آخر اس ناول میں ایسا کیا قابل اعتراض تھا کہ حکومت نے اس پر تیار ہونے والی ٹیلی فلم نہ چلنے دی۔ چنانچہ ابن صفی نے پاکستان ٹیلی ویژن کا یہ کہتے ہوئے بائیکاٹ کردیا کہ وہ اس وقت تک ٹیلی ویژن کے کسی پروگرام میں حصہ نہیں لیں گے جب تک یہ نہ بتایا جائے کہ ان کے ناول ڈاکٹر دعاگو کو ٹیلی کاسٹ کیوں نہیں کیا گیا؟

ابن صفی کینسر میں مبتلا ہوکر اس جہان سے کوچ کرگئے لیکن انھیں آخری سانس تک اپنے سوال کا جواب نہ مل سکا کہ ڈاکٹر دعاگو پر بننے والی ٹیلی فلم کو پی ٹی وی نے ٹیلی کاسٹ کیوں نہ کیا؟ حکومتیں آتی رہیں، جاتی رہیں لیکن کسی کو خیال نہ آیا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے کسی بوسیدہ کمرے میں پڑی ٹیلی فلم کو جھاڑ پونچھ کر ٹیلی کاسٹ ہی کردے۔

’اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے‘

( یہ کالم وی نیوز ڈاٹ پی کے پر بھی شائع ہوتا ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں