انجو ، بھارتی خاتون

بھارتی خاتون انجو پاکستان کے ضلع دیر بالا کیسے پہنچ گئی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان رپورٹ

سیما حیدر فرار ہو کر بھارت کے شہر دہلی پہنچی تو دہلی سے انجو باقاعدہ قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان پہنچ گئیں۔

انڈیا کی پینتیس سالہ خاتون انجو کا تعلق بھارتی ریاست اتر پردیش سے ہے۔ اور وہ ایک عرصہ سے دہلی میں رہائش پذیر ہے۔ فیس بک پر اس کی دوستی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا کے نصراللہ سے ہوئی۔ ابتدائی طور پر پتہ چلا ہے کہ وہ نصراللہ سے صرف ملنے اور پاکستان کی سیر کو آئی ہے۔

پولیس نے تصدیق کی ہے کہ انجو وزٹ ویزہ پر پاکستان آئی ہے۔ اور محکمہ داخلہ نے باقاعدہ این او سی جاری کیا ہے۔ مزید بتایا کہ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ وہ وزٹ ویزہ پر پاکستان گھومنے آئی ہے  اور 30 دن کا ویزہ ہے۔

انجو، بھارتی خاتون کا شناختی کارڈ
بھارتی خاتون انجو پاکستان کے ضلع دیر بالا کیسے پہنچ گئی

پولیس افسر جاوید خان کے مطابق  انجو نے محبت اور شادی کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا اور کہا کہ ویزہ ختم ہونے کے بعد وہ واپس جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ انجو کی جانب سے فراہم کردہ دستاویز کے مطابق وہ پہلے سے ہی شادی شدہ ہیں۔ انجو فی الحال میڈیا کا سامنا نہیں کرنا چاہتی ہیں۔

دوسری طرف انتیس سالہ نصراللہ خان کا کہنا ہے کہ ’اگلے دو سے تین دن میں انجو اور میں باضابطہ طریقے سے منگنی کر لیں گے اور پھر دس، بارہ دن بعد وہ واپس انڈیا چلی جائے گئی اور اس کے بعد دوبارہ شادی کے لیے آئے گئی۔ یہ میری اور انجو کی ذاتی زندگی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس میں مداخلت کی جائے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ میڈیا سے بھی دور رہا جائے۔‘ اس وقت انجو  دیر بالا میں نصراللہ خان کے گھر میں موجود ہیں۔

بظاہر پاکستانی خاتون سیما حیدر اور بھارتی خاتون انجو کی کہانی ایک جیسی ہے تاہم دونوں کہانیوں میں واضح فرق موجود ہے۔ سیما حیدر غیر قانونی طریقے سے بھارت پہنچی جبکہ انجو باقاعدہ قانونی طریقے سے پاکستان آئی ہیں۔ انجو کے لیے بھی پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ خصوصاً دیر بالا تک پہنچنے کے لیے جو ایک دور دراز ضلع ہے جس کی ایک سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ عام طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزہ دیتے ہوئے بہت کم شہروں تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔

نصراللہ اور انجو کی کہانی کیسے شروع ہوئی؟ اور انجو کو پاکستان کا ویزہ اور دیر بالا تک آنے کی اجازت کیسے ملی؟

نصر اللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا انجو سے فیس بک کے ذریعے چند سال پہلے رابطہ ہوا تھا لیکن اس پہلے رابطے کے بعد اگلے مراحل بہت جلدی طے ہوئے۔

انجو کا تعلق انڈیا کی ریاست اتر پردیش سے ہیں اور وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں۔ ان کی درخواست پر ان کی نجی تفصیلات کو مختصراً بیان کیا جا رہا ہے۔

جب بی بی سی نے انجو سے بات کرنے کی درخواست کی تو نصر اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انجو اس وقت میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔ نصر اللہ کہتے ہیں کہ ’پہلے یہ رابطہ دوستی اور پھر محبت میں تبدیل ہو گیا جس کے بعد ہم دونوں نے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘

نصر اللہ کے مطابق ان کے گھر والے اس فیصلے میں ان کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’دونوں میں طے ہوا کہ انجو پاکستان کا دورہ کرے گی، میرے خاندان سے ملے گی اور ہم پاکستان میں منگنی کریں گے جس کے کچھ عرصے بعد ہم شادی کر لیں گے۔‘

انجو کو ویزہ کیسے ملا؟

اس دورے کو ممکن بنانا آسان نہیں تھا۔ سرحد کے علاوہ دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات بھی ایک رکاوٹ تھے۔

نصراللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا مگر ہماری نیت تھی اور خلوص تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں نے بالکل ہمت نہیں ہاری ہے۔‘

ایک جانب انجو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے چکر لگاتی رہیں جبکہ نصر اللہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزارت خارجہ اور دیگر دفاتر کے چکر کاٹتے رہے۔

نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ’وہ وہاں پر حکام کو قائل کرتی رہی اور میں یہاں پر حکام کو قائل کرتا رہا کہ ویزہ انجو کا حق ہے اور ہم اگر ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملنے دینا چاہیے۔‘ ان کی کوششیں بالآخر رنگ لائیں اگرچہ حکام کو قائل کرنے میں انھیں دو سال کا عرصہ لگا جس کے بعد انجو کو پاکستان کا ویزہ بھی مل گیا اور انھیں دیر بالا جانے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

نصراللہ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اور پھر دیر بالا داخلے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ انجو اور میں نے ویزہ حاصل کرنے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کیے ہیں۔ اب ایک دفعہ ویزہ لگ گیا ہے تو امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘نصر اللہ بتاتے ہیں کہ انجو انڈیا میں اپنی کمپنی سے چھٹی لے کر براستہ واہگہ پاکستان آئی ہیں اور دوبارہ واپس جا کر اپنی ملازمت جاری رکھیں گی۔

انھوں نے بتایا کہ ’انجو اس وقت میرے گھر میں ہے جہاں پر وہ بالکل پرسکون اور آرام سے رہائش پزیر ہے۔‘ تاہم یہ خبر منظر عام پر آنے کے بعد میڈیا کی موجودگی سے وہ خوش نہیں۔

’بہت بڑی تعداد میں میڈیا اور لوگ اکھٹے ہوچکے ہیں۔ میں سب سے کہتا ہوں کہ جو ضروری ہوگا میں خود میڈیا کو بتا دوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ ہمارے تعلق کو کوئی مسئلہ بنایا جائے۔ ہمارے تعلق میں مذہب بھی شامل نہیں ہے۔ انجو مذہب تبدیل کرے گئی یا نہیں، یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوگا اور میں اس کے فیصلے کا احترام کروں گا جیسے وہ میرے فیصلے کا احترام کرتی ہے۔‘

نصراللہ کا کہنا تھا کہ ان کے تعلق سے انجو کے خاندان کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ’اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہماری پرائیویسی کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ہمارے تعلق اور زندگی کو بالکل بھی تماشہ نہ بنائیں، ہم یہ ہرگز نہیں چاہتے ہیں۔‘

انجو پختونوں کی مہمان ہے

ایک انڈین خاتون کی موجودگی سے اہل علاقہ بھی خوش ہیں لیکن موسم اور حالات ان کے استقبال کی تیاریوں کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔

نصر اللہ کے مقامی علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت فرید اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انجو جمعہ کے روز صبح کے وقت پہنچی جب شدید بارش ہو رہی تھی۔‘

’اہلیان علاقہ شدت سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم سنیچرکو شاندار استقبالہ دیں گے مگر بدقسمتی سے علاقے میں ایک فوتگی ہو گئی۔ اب ہم یہ استقبالیہ جلد دیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

سیما غلام حیدر: چند غور طلب پہلو، کچھ کرنے کے کام

سیما غلام حیدر اور جیوتی موریہ: بھارتی معاشرہ غیر صحت مند، متضاد رویوں کا شکار

 سیما غلام حیدر سے سیما سچن تک، ایک کہانی جس میں کئی سبق موجود ہیں

فرید اللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو پختونوں کی مہمان اور بہو ہے۔ وہ جب تک رہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔ اس کو کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ ہم اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے کہ اس کو ہمارے پاس کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کو ساری سہولتیں میسر ہوں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں خوشی کا سماں ہے۔ ہمارے گھروں کی خواتین جوق در جوق انجو کو ملنے جا رہی ہیں، اس کو تحفے تحائف بھی دے رہی ہیں اور اس کو یہ یقین بھی دلا رہی ہیں کہ وہ کسی بات کی فکر نہ کرے۔‘

ڈی پی او دیر بالا محمد مشتاق کے مطابق دیر بالا پہنچنے والی انڈین لڑکی انجو کے ویزہ کاغذات کی ’پولیس نے جانچ پڑتال کی اور وہ کاغذات بالکل درست ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ انجو کو ایک ماہ کا ویزہ دیا گیا ہے اور ان کو دیر بالا میں داخلے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

بھارتی خاتون انجو کا پاکستانی ویزا

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اتوار کی شام نصراللہ اور انجو کو مقامی پولیس سٹیشن ایک رسمی پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا۔

’یہ رسمی انٹرویو تمام غیر ملکیوں کے لیے ہوتا ہے جہاں پر ان سے بات کرنے اور انٹرویو کرنے کے بعد ان کو واپسی کی اجازت دے دی جائے گی۔‘

انجو کے شوہر کا موقف

محمد مشتاق کا کہنا تھا کہ ’پولیس انجو کو مکمل سیکورٹی فراہم کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی پرائیویسی کا بھی مکمل خیال رکھے گی۔‘بھارت کے معروف جریدے انڈیا ٹوڈے نے انجو کے شوہر اروند کا موقف شائع کیا ہے۔ اروند کا کہنا ہے کہ انجو نے اسے کہا تھا کہ وہ چند دنوں کے لیے جے پور جا رہی ہے۔ لیکن پھر میڈیا سے معلوم ہوا کہ وہ پاکستان پہنچ گئی ہے۔

اروند کا کہنا ہے کہ انجو ان سے رابطے میں ہے۔ گزشتہ روز ( اتوار) کو اس کی واٹس ایپ پر کال آئی تھی، اس نے بتایا کہ وہ لاہور میں ہے۔ اور دو تین روز تک واپس آئے گی۔ جب اروند سے پوچھا گیا کہ انجو اور پاکستانی مرد نصراللہ کی محبت کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں بھی یہ خبریں سننے کو مل رہی ہیں لیکن امید ہے کہ انجو واپس آئے گی۔

اروند نے بتایا کہ انجو نے سن دو ہزار بیس میں پاسپورٹ بنوایا تھا کہ وہ ملازمت کی خاطر بیرون ملک جائے گی۔

انجو اور اروند کے دو بچے ہیں۔ یاد رہے کہ انجو نے اروند سے شادی سے پہلے عیسائیت قبول کی تھی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں