غربت کے مارے دو بچے کچرے کے ڈھیر پر

کچھ علاج اس کا بھی اے ‘چارہ گراں’ ہے کہ نہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شہناز محسن

مملکت خدا داد، ارضِ پاک سر زمین، مرکز یقین، جب معرض وجود میں آئی تو ریاست مدینہ کے بعد، یہ دوسری ریاست تھی جو اسلام کے نام پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی۔ اس کا وجود میں آنا اس بات کی دلیل تھی کہ برصغیر پاک و ہند میں رہنے والے مسلمانوں کو ایک الگ خطہ زمین کی ضرورت ہے جہاں وہ خدائے واحد اور اس کے محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کے مہ و سال گزاریں۔

اس پاک دھرتی کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے 77 برس ہوچکے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ آج تک ہم ذہنی طور پر آزاد نہیں ہوئے، آج تک ہم نے ایک مہذب قوم ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔

 ہمارے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح نے جس بصیرت، جس دور اندیشی اور جس جذبے سے یہ ملک بنایا تھا، آج ان کی روح بھی تڑپ رہی ہو گی کہ میرے بعد اس اسلامی مملکت کا نقشہ تک بدل دیا گیا، اس کا ایک بازو اغیار کی عیاری اور صاحبان اختیار کی غداری کی نذر ہوگیا، بچا کھچا بازو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

وہ پاکستان جو 58 اسلامی ممالک میں واحد نیو کلیائی طاقت ہے آج معاشی، معاشرتی اور اخلاقی زوال کا شکار ہے، اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، مذہبی ریشہ دوانیاں، عجب کرپشن کی غضب کہانیاں اس ملک کو کمزور سے کمزور تر کرتی چلی گئیں۔ کرپشن اس حد تک اداروں کے اندر رچ بس گئی کہ پاکستانی عوام کے اندر سے احساس زیاں تک جاتا رہا۔ اس معاشرے میں غربت آخری حدوں کو چھونے لگی ہے، مہنگائی نے سفید پوش طبقے کو فاقوں پہ مجبور کردیا ہے  مگر حکمرانوں کے پروٹوکول اور اشرافیہ کے انداز و اطوار نہیں بدلے۔

اس ملک میں ججز اور جنرلز اور جرنلسٹس امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے لیکن غریب کے پاس جھونپڑی تک نہیں ہے۔ طبقہ اشرافیہ کے کتے بیرون ملک سے منگوائی گئی غذائیں کھاتے ہیں لیکن اشرف المخلوقات ایک ایک نوالے کو ترستی ہے۔

گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب

بیٹی غریب شہر کی فاقوں سے مرگئی

آج حالت یہ ہے کہ جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے، بہتر معیار زندگی کے لیے ہمارے جوان بحیرہ روم کی نذر ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے، زندہ ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے حکمران استعفیٰ دے دیتے مگر استاد ابراہیم ذوق کے بقول

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ ہوگا جہاں خلقت خدا کی سنی جا رہی ہو۔ صحت، تعلیم، خوراک، امن و امان، روزگار غرضیکہ کوئی معاملہ ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں غریب کو کچھ ریلیف ملتا ہو۔ اللہ کریم ہی کوئی معجزہ دکھا دے،  کن فیکون ہو جائے اور مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان صحیح معنوں میں پاکستان بن جائے۔

معروف اردو شاعر، ادیب احمد ندیم قاسمی کے بقول 

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گُل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو 


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں