جویریہ خان
بھارتی معاشرہ ان دنوں اپنے آپ سے سوال کر رہا ہے کہ وہ شوہروں سے بے وفائی کے لیے کیوں بیویوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے؟ جولائی کے اوائل میں ایک پاکستانی خاتون سیما غلام حیدر اپنے شوہر غلام حیدر جاکھرانی کو چھوڑ کر نوئیڈا، دہلی میں مقیم ایک نوجوان سچن کے پاس پہنچ گئی۔ شوہر کو چھوڑنے کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آئی سوائے چند کمزور الزامات کے۔ ظاہر ہے کہ سیما غلام حیدر کو کچھ تو جواز پیش کرنا تھا، چنانچہ وہی گھسی پٹی باتیں کہ شوہر تشدد کرتا تھا۔
حالانکہ شواہد سیما غلام حیدر کے اس الزامات کے برعکس ہیں۔ سعودی عرب میں بسلسلہ روزگار مقیم شوہر غلام حیدر جاکھرانی ہر ماہ 60 سے 70 ہزار روپے بھیجتا تھا، جہاں سیما رہتی تھی، اردگرد ہمسائیوں نے اس بات کو درست قرار دیا حتیٰ کہ سیما کی بہن نے بھی۔ غلام حیدر نے کراچی میں اپنا گھر بنالیا جہاں سیما بچوں سمیت زندگی بسر کرتی رہی۔ سیما نے شوہر سے فرمائش کی کہ اسے اور بچوں کو بھی سعودی عرب بلاؤ۔ شوہر نے عیدالاضحیٰ کے بعد یہ فرمائش پوری کرنے کی تیاری کرلی۔ اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔
اب بھارتی معاشرہ میں ایک بڑی تعداد میں لوگ خوشی سے چھلانگیں لگا رہے ہیں کہ ایک پاکستانی گھرانہ ٹوٹ گیا۔ یہ لوگ سیما کو ہیروئن قرار دے رہے ہیں۔ سیما نے جب اسلام کو چھوڑ کر ہندومت قبول کرلیا، اپنا اور بچوں کے نام بھی تبدیل کرلیے تو بھارتی معاشرہ کا ایک بڑا حصہ اس پر بھی خوشی سے نہال ہوگیا۔ بھارتی میڈیا بھی سیما اور سچن مینا کے گھر کے باہر ڈیرے ڈال کر بیٹھ گیا۔ پھر ایک دن ‘ہیرو’ اور ‘ ہیروئن’ میڈیا کو انٹرویوز دے کر تنگ آگئے اور رات کے اندھیرے میں چپکے سے کسی نامعلوم مقام پر چلے گئے۔
بھارت میں 2 ماہ قبل ایک اور گھر بھی ٹوٹا تھا۔ ریاست اترپردیش کے ضلع بریلی میں ایک جیوتی موریہ نے اپنے شوہر آلوک ورما سے وفائی کی۔ جب جیوتی موریہ کی ایک خاکروب ( سرکاری ملازم) آلوک ورما سے جب شادی ہوئی تھی، اس وقت جیوتی موریہ کچھ بھی نہ تھی۔ پھر درجہ چہارم کے سرکاری ملازم شوہر نے اس کا اعلیٰ تعلیم کا خواب پورا کروایا، اس کی تعلیم کے خرچے اٹھائے، مقابلے کے امتحان کی تیاری کے لیے اسے اکیڈمی میں داخل کروایا، یہاں بھی اس کے خرچے اٹھائے۔ پھر جب جیوتی موریہ سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بنی تو اس نے ایک دوسرے افسر سے ناجائز تعلقات قائم کرلیے۔
شوہر کو پتہ چلا، اس نے منع کیا کہ سرکار افسر کے ساتھ ناجائز تعلقات ختم کردے اور ازدواجی زندگی کو اچھے انداز میں گزارے تو جیوتی موریہ نے اس پر شوہر کو نوکری سے نکلوا دیا، اسے قتل کرنے کی سازش تیار کی۔
اب اس پر بھی بھارتی معاشرہ کا ایک بڑا حصہ جیوتی موریہ کی شوہر سے بے وفائی کے حق میں خوب تالیاں پیٹ رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں معاشرتی انحطاط ۔ اچھا معاشرہ شوہر اور بیوی کو جوڑتا ہے جبکہ برا معاشرہ انھیں توڑتا ہے۔
جیوتی موریہ نے شوہر پر مارپیٹ کا کوئی الزام بھی عائد نہیں کیا، کیونکہ وہ ایسا الزام عائد کر ہی نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ وہ ایک پی سی ایس افسر اور شوہرایک خاکروب !
بھارتی معاشرہ میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو شوہر کو چھوڑنے پر سیما غلام حیدر کی تعریف کرتے ہیں لیکن انہی لوگوں نے شوہر کو چھوڑنے پر جیوتی موریہ پر تنقید کی تھی۔ حالانکہ دونوں خواتین نے ایک جیسی بنیادوں پر ایک جیسا کام کیا۔ تاہم اسی معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دونوں خواتین کے اس عمل کو برا خیال کرتے ہیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔
اس حوالے سے بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کماؤنی دیپتی نامی ایک سوشل میڈیا صارف کا تبصرہ شامل کیا گیا ہے جس کا کہنا ہے’ یہ کیسی منافقت ہے کہ جیوتی موریہ بری عورت ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا لیکن سیما حیدر کی تعریف ہو رہی ہے اور انھیں بھابھی کہا جا رہا ہے حالانکہ انھوں نے بھی اپنے شوہر کو چھوڑ دیا جبکہ سچن کو ہیرو کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔‘
ہیومن رائٹس جسٹس ایسوسی ایشن نامی ایک ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا کہ ’جیوتی موریہ کو اس لیے گالی دی جا رہی ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا، وہیں دوسری جانب پاکستان سے آنے والی سیما حیدر کے نام پر محبت کی دہائی دی جا رہی ہے جبکہ سیما بھی اپنے شوہر کو چھوڑ کر آئی ہیں۔ یہ دوہرا رویہ کیوں؟‘
ایس پی بھارتیہ نے لکھا کہ ’جیوتی موریہ دو بچوں کی ماں نے شوہر کو چھوڑا، سیما حیدر چار بچوں کی ماں نے اپنے شوہر کو چھوڑا۔ جیوتی موریہ کو جو سماج گالیاں دے رہا تھا، وہی سماج سیما حیدر کے لیے جشن منا رہا ہے۔ موریہ انڈین ہے اور سیما پاکستانی۔ کیا غضب کا دوہرا معیار ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
سیما غلام حیدر سے سیما سچن تک، ایک کہانی جس میں کئی سبق موجود ہیں
شوہر کے پیسوں پر افسر بننے والی بیوی کی بے وفائی
شلپا ٹھاکر نامی صارف نے لکھا کہ ’سیما حیدر کی تعریف کرنے والے جیوتی موریہ کو گالی دے رہے ہیں۔ سیما اپنے شوہر کو چھوڑ کر چار بچوں کے ساتھ اپنے عاشق کے ساتھ رہنے کے لیے آئیں۔ ان کی تعریف ہو رہی ہے۔ پیار کی تعریف ہو رہی ہے۔ لیکن بغیر کسی افیئر کی بات ثابت ہوئے یہی لوگ جیوتی کو گالی دے رہے ہیں۔‘
بھارتی معاشرے کے ان متضاد رویوں کے عین درمیان، اس سوال پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ ایک غریب شوہر کے خرچے پر پڑھ لکھ کر سرکاری افسر بن کر اسی شوہر کو چھوڑ دینا کہاں کا اچھا اقدام ہے کہ اس پر تالیاں پیٹی جائیں۔ کیا یہ احسان فراموشی نہیں؟ اگر سارے بھارتی معاشرے میں اسی انداز میں احسان فراموشی عام ہوجائے تو اس معاشرے کا مستقبل کیا ہوگا؟؟ اور کیا ایک گھرانہ ٹوٹنے پر محض اس بنیاد پر تالیاں پیٹی جائیں کہ وہ پاکستانی گھرانہ ہے؟ جس معاشرے میں ایسے متضاد رویے عام ہوتے چلے جائیں، کیا اس معاشرے کو صحت مند معاشرہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا ایسا معاشرہ ترقی کرسکتا ہے؟
ایک تبصرہ برائے “سیما غلام حیدر اور جیوتی موریہ: بھارتی معاشرہ غیر صحت مند، متضاد رویوں کا شکار”
دونوں کے کیس میں مزہب کا فرق ہے ۔ سیما نے اسلام مذہب چھوڑ کر ہندو ہو گئی ہے،اس پر سراہی جا رہی پسند کی جا رہی ہے۔
جبکہ جیوتی کے معاملے میں صرف کلاس یا معاشی سٹیٹس تبدیل کیا ہے۔