بادبان رپورٹ
بھارت میں ریاست منی پور کی صورت حال کشمیر اور پنجاب میں دیکھی گئی صورت حال سے زیادہ خراب ہوچکی ہے۔’ ‘
یہ کہنا ہے منی پور کے سابق گورنر گربچن جگت کا۔ ایک اخبار دی ٹربیون میں اپنے مضمون میں انھوں نے لکھا: ‘حقیقت یہ ہے کہ ریاست بھر میں پولیس اسٹیشنوں اور پولیس کے اسلحہ خانے پر حملہ کیا گیا ہے اور ہزاروں بندوقیں اور بھاری مقدار میں گولہ بارود لوٹ لیا گیا ہے۔ جموں کشمیر، پنجاب، دہلی، گجرات کے بدترین دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔ چوری شدہ ہتھیار ریاست کی سیکورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج بنے رہیں گے’۔
منی پور میں گزشتہ دو سے تین ماہ کے دوران بدترین تشدد کے واقعات دیکھنے کو ملے۔ کہا جاتا ہے کہ اس تشدد کی بنیاد نسلی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اکثریتی میتی کمیونٹی اور قبائلی کوکی برادریوں کے درمیان جھڑپوں میں 140 افراد ہلاک اور 60,000 کے قریب بے گھر ہو چکے ہیں۔ کیا یہ تشدد واقعتاً نسلی بنیادوں پر ہورہا ہے؟ 28 جون سے یکم جولائی تک نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی تین ارکان اینی راجہ، نشا سدھو اور دکشاد ویدی بطور فیکٹ فائنڈنگ مشن کے طور پر منی پور کا دورہ کیا اور رپورٹ جاری کی کہ یہ تشدد اسٹیٹ سپانسرڈ ہے۔
تینوں خواتین نے 2 جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ منی پور میں جھڑپیں ‘فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہیں اور نہ ہی یہ صرف دو برادریوں کے درمیان لڑائی ہے۔’ انہوں نے کہا تھا کہ اس میں’زمین، وسائل ، شدت پسندوں اور عسکریت پسندوں کی موجودگی کے سوال’ شامل ہیں۔ حکومت نے اپنے پوشیدہ پرو کارپوریٹ ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہوشیاری سے حکمت عملی اپنائی، جس کی وجہ سے موجودہ بحران پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے اسے ‘اسٹیٹ اسپانسرڈ تشدد’ قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ منی پور میں حکومت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہے۔ اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے دورے کے بعد ریاست میں حالات زیادہ خراب ہوئے۔
دو ماہ کے دوران میں 140 سے زائد انسان ہلاک ہوئے، 200 گاوں اور 300 چرچ جلا دئیے گئے۔ 60ہزار لوگوں کو اپنے گھربار چھوڑنا پڑے۔ سینکڑوں عیسائی عبادت گاہوں کو جلا دینے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ منی پور میں کس نے کیا کچھ کیا؟ کرنے والوں کے مقاصد کیا تھے؟ چونکا دینے والا پہلو یہ ہے کہ اس دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکا کا دورہ کیا۔ امریکی حکام کی طرف سے اس قدر بڑے پیمانے پر عیسائی عبادت گاہوں کو جلائے جانے کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔
اپوزیشن کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا کہ منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دراصل ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ملک بھر میں جاری ‘منافرت کی سیاست’ کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا،”بی جے پی کی منافرت کی سیاست کے سبب منی پور جل رہا ہے۔ بھارت ناکام ہو چکا ہے لیکن وزیراعظم اس پر مکمل خاموش ہیں۔”
25 لاکھ آبادی والی اس ریاست کی آبادی میں ہندو میئتی کمیونٹی کی تعداد 53 فیصد ہے لیکن وہ ریاست کے صرف تقریباً 10فیصد حصے پر ہی آباد ہیں۔ کوکی اور دیگر قبائلیوں کی اکثریت مسیحی مذہب کو مانتی ہے۔ ریاست میں نسلی مسلمانوں کی تعداد تقریباً 8 فیصد ہے۔ یہ پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔
قانون کے مطابق غیر قبائلی شخص قبائلیوں کی زمین نہیں خرید سکتا۔ 3مئی کو ہائی کورٹ نے میئتی ہندووں کو بھی قبائل کادرجہ دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے نتیجے میں انہیں بھی قبائلیوں کی طرح خصوصی مراعات حاصل ہو جائیں گی۔ کوکی اور دیگر قبائل اسی کی مخالفت کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میئتی پہلے سے ہی مالی اور سیاسی لحاظ سے غالب ہیں اور عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں کوکی مزید پسماندہ ہو جائیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر منی پور میں حالات پر فوراً قابو نہیں پایا گیا تو اطراف کی دیگر ریاستیں بھی اس سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ زیادہ تر تجزیہ نگار اور ماہرین کے خیال میں اب منی پور میں اصلاح احوال ممکن نہیں۔