جویریہ خان
کراچی کی سیما غلام حیدر اور بھارت کے دارالحکومت دہلی کے نواحی علاقے گریٹر نوئیڈا کے رہنے والے نوجوان سچن کی کہانی پاکستان اور بھارت میں زبان زد عام ہے۔ غیرملکی میڈیا اس کہانی کو ایک مختلف انداز میں مزے لیتے ہوئے بیان کر رہا ہے، بھارتی میڈیا بھی اس کہانی کو خوب اچھال رہا ہے تاہم سیما کے خاندان والے بالخصوص شوہر غلام حیدر جاکھرانی سخت خفت کے شکار ہیں۔
سیما غلام حیدر کی کہانی میں پورے معاشرے کے لیے بہت سے سبق موجود ہیں۔ یہ کیا سبق ہیں؟ یہ جاننے سے پہلے سیما غلام حیدر ، غلام حیدر جاکھرانی اور سچن کی کہانی جانتے ہیں۔
سیما نے پہلی شادی بھی بھاگ کر کی تھی
سیما کے شوہر غلام حیدر جاکھرانی نے اپنی شادی کی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کا اپنی اہلیہ سے موبائل فون کی ایک مس کال کے ذریعے رابطہ ہوا تھا، جس کے بعد وہ دونوں 3، 4 ماہ تک فون پر بات کرتے رہے، پھر انھوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ سیما کے رشتہ دار اس پر راضی نہیں تھے چنانچہ سیما گھر سے بھاگ کر غلام حیدر کے پاس پہنچ گئیں۔ یوں دونوں نے عدالت میں شادی کرلی۔
غلام حیدر نے سعودی عرب سے فون پر بات کرتے ہوئے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ وہ کراچی میں رہتے ہوئے رکشہ چلاتے تھے، بعدازاں بہتر روزگار کے لیے سعودی عرب آ گئے جہاں انھوں نے محنت مزدوری کی اور پاکستان میں اپنا مکان بنوایا۔ ان کی اہلیہ اور 4 بچے شروع میں اُسی گھر میں مقیم تھے، بعد میں وہ کرائے کی مکان میں منتقل ہو گئے۔ اس وقت وہ سعودی عرب ہی میں تھے، ان کی بیوی نے شوہر کو بتایا کہ گھر کی ضروری مرمت کروانی ہے۔
پھر وہ تین سال تک کرائے کے مکان میں رہے۔ مالک مکان منظور حسین کا کہنا ہے کہ خاتون کا شوہر باقاعدگی سے سیما کو پیسے بھیجتا تھا۔ کبھی50 ہزار، کبھی 60ہزار اور کبھی 70 ہزار روپے۔ خاتون باقاعدگی سے کرایہ ادا کرتی تھیں۔ ایک روز اچانک آئی اور کہنے لگی کہ وہ اپنے گاوں جا رہی ہیں، گھر میں سامان ہے، اس کا خیال رکھنا۔
‘ وہ مجھے ابو کہہ کر مخاطب کرتی تھی اور میں اسے بیٹی سمجھتا تھا۔ گاوں کا کہہ کر گئی تو پھر واپس نہیں آئی’
غلام حیدر کی اہلیہ اور بچے اُن سے رابطے میں تھے مگر پھر 9 مئی کا واقعہ پیش آگیا، پاکستان بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل ہوگئی ، یوں ان کا اپنی بیوی سے فون پر رابطہ منقطع ہوگیا۔ بعدازاں انٹرنیٹ سروس بحال مگر غلام حیدر کا اہلیہ سے رابطہ بحال نہ ہوسکا۔ انھوں نے بار بار کوشش کی لیکن بیوی رابطہ میں نہیں آ رہی تھی، چنانچہ انھوں نے اپبی بیوی کے بھائی یعنی اپنے برادر نسبتی کو فون کیا، اس نے پتہ کر کے بتایا کہ سیما نے مکان فروخت کر دیا ہے اور وہ بچوں کے ساتھ کہیں چلی گئی ہے۔
غلام حیدر جاکھرانی کے مطابق چونکہ وہ سعودی عرب میں مقیم تھے، اس لیے انھوں نے اپنے والد کے ذریعے اپنی اہلیہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔ جاننے والوں کی مدد سے معلوم کیا تو ابتدا میں پتا چلا کہ وہ دبئی گئی ہے، بعد میں نیپال جانے کا پتہ چلا۔ اس کے بعد انھیں سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ انڈیا کی جیل میں ہے۔‘
سیما اور سچن کی کہانی کیسے شروع ہوئی؟
سیما غلام حیدر کے مطابق سنہ 2019 میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پب جی کھیلتے ہوئے سچن سے رابطہ ہوا تھا، پھر واٹس ایپ پر گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوگیا، یہ گپ شپ دوستی میں بدلی، اور دوستی محبت میں تبدیل ہوگئی۔ اور پھر سیما نے سچن سے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ اور وہ اپنے 4 بچوں کو لے کر گریٹر نوئیڈا، بھارت پہنچ گئیں۔ خاتون کے مطابق وہ نیپال کے راستے بھارت پہنچی کیونکہ اسے پاکستان سے براہ راست بھارت کا ویزا نہیں مل رہا تھا۔
سیما کو علم تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے سفارتی تعلقات میں سرد مہری کے باعث ویزے کا حصول میں مشکلات ہیں لہذا انھوں نے یوٹیوب سے انڈیا آنے سے متعلق جاننا شروع کیا اور انھیں معلوم ہوا کہ وہ نیپال کے راستے انڈیا پہنچ سکتی ہیں۔ اس منصوبے پر عملدرآمد کرتے ہوئے سیما نے پاکستان میں ایک ایجنٹ کے ذریعے نیپال کا ٹکٹ اور ویزا حاصل کیا۔
پاکستانی خاتون کے مطابق وہ گزشتہ سال مارچ میں پہلی بار اکیلے نیپال کے دارالحکومت کھممنڈو آئی تھیں تاکہ حالات کا جائزہ لے سکیں۔ وہ 10 مارچ کو شارجہ کے راستے نیپال پہنچی تھیں، جہاں سچن ان سے ملنے آئے تھے۔ دونوں نے کھٹمنڈو کے نیو بس پارک علاقے میں واقع نیو ونائک ہوٹل میں کمرہ لیا اور 7 دن تک یہاں رہے۔ اس کے بعد سیما غلام حیدر واپس پاکستان چلی گئیں۔ ٹھیک 2 ماہ بعد سیما حیدر دوبارہ سیاحتی ویزا لے کر نیپال پہنچ گئیں۔ وہ مئی 2023 کے وسط میں اپنی 3 بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ہمراہ کھٹمنڈو پہنچیں۔ سیما نے بتایا ’ میں اپنے 4 بچوں کے ساتھ کھٹمنڈو سے پوکھرا ایک وین میں آئی تھی، چونکہ رات گزر چکی تھی، میں وہیں (پوکھرا ہی میں) ٹھہری اور اگلے دن پوکھرا سے دہلی کے لیے بس لی۔‘
پوکھرا کھٹمنڈو سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور بس سے تقریباً 7 گھنٹے لگتے ہیں۔ پوکھرا سے دہلی آنے کے لیے، سیما نے سریشٹی ٹریفک( ایک بس سروس کمپنی ) کے اے سی ڈیلکس میں 3 ٹکٹیں (سیٹ نمبر 9,10,11) بک کروائی۔ انھوں نے بس ڈرائیور کو 5 ہزار روپے فی ٹکٹ کے حساب سے 15 ہزار روپے دیے۔
واضح رہے کہ انڈین اور نیپالی شہریوں کو ایک دوسرے کے ملک جانے کے لیے ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ سرحد عبور کرنے کے لیے اُن کے پاس کوئی ایک سرکاری شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ، ووٹنگ کارڈ یا آدھار کارڈ ہونا چاہیے۔ جبکہ انڈیا نیپال بارڈر چیک پوائنٹ پر پیدل آنے جانے والوں کی چیکنگ بھی نہیں ہوتی۔ اسی لیے سیما اور سچن کے لیے بچوں سمیت اس چک پوائنٹ سے گزر کر بھارت میں داخل ہونا آسان تھا۔ یاد رہے کہ نیپال کی سرحد سے دلی کے لیے براہ راست بسیں چلتی ہیں جن میں بڑی تعداد میں نیپالی اور انڈین شہری سفر کرتے ہیں۔
دلی کے نواحی علاقے گریٹر نوئیڈا میں سچن اور سیما بچوں سمیت کرائے کے ایک کمرے میں رہنے لگے جس کا کرایہ 2500 روپے ماہانہ تھا۔ سچن مالی طور پر بہت آسودہ نوجوان نہیں ہیں، وہ ایک مقامی پرچون یعنی گروسری کی دکان میں کام کرتے ہیں۔ اس دوران محلے میں کسی کو سیما پر شک نہ ہوا کہ وہ بھارت کی نہیں ہے۔ وہ زیادہ تر وقت گھر کے اندر ہی رہتی تھیں۔ ان کے مذہب اور شہریت پر کبھی کسی کو کوئی شک نہیں تھا۔ وہ مکمل میک اپ کرتی تھیں، بندی، سندور لگاتی تھیں، ساڑھی بھی پہنتی تھیں۔ اسی دوران عید بھی آ گئی لیکن انھوں نے مسلمانوں جیسا کام نہیں کیا جس سے ان پر شک پیدا ہو۔‘
کرائے پر کمرہ لینے اور یہاں چار، پانچ دن گزارنے تک سچن نے اپنے والدین کو سیما سے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔ پھر نوجوان نے اپنے والد نیترپال کو سارا قصہ بتادیا۔ یہ سن کر والد نے سیما سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جس کے بعد سچن نے ایک جنگل میں سیما کو اپنے والد سے ملوایا۔ انھوں نے سیما سے کہا ’ آپ کے بچوں کی زندگی کا طریقہ پاکستان کا ہے، اگر آپ نے یہاں کی زندگی کا طریقہ سیکھ لیا تو ہم آپ کی شادی اپنے بیٹے سچن سے کر دیں گے۔‘
پولیس کو سیما کی موجودگی کے بارے میں اس وقت خبر ملی جب خاتون نے شادی کرنے کے لیے اپنا سرٹیفیکٹ بنوانے کی غرض سے کسی ایجنٹ سے رابطہ قائم کیا۔ وہ شخص پولیس کا مخبر تھا۔ اس نے پولیس کو سیما کے بارے میں خبر دی۔ چنانچہ پولیس نے سچن اور سیما، دونوں کو گرفتار کر لیا۔
سیما ، سچن اور غلام حیدر۔۔۔ اب کیا چاہتے ہیں؟
اب سیما کا کہنا ہے ’میں واپس پاکستان نہیں جانا چاہتی ہوں، میں سب کچھ چھوڑ کر آئی ہوں۔ میں سچن سے بہت پیار کرتی ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘
دوسری طرف سچن کا بھی یہی کہنا تھا وہ خاتون سے بہت پیار کرتے ہیں۔ انھوں نے انڈین حکومت سے درخواست کی ہے کہ ’وہ ہماری شادی کروا دے۔ ہم ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں، ہمارا گھر بسنے دیجیے۔‘
سیما بھارت میں اپنے چاروں کم عمر بچوں سمیت گرفتار ہوئیں۔ بعدازاں ضمانت پر رہا ہوگئیں۔ 7 جولائی کو بھارتی ریاست اتر پردیش کی سول کورٹ نے سیما غلام حیدر اور ان کے ساتھی سچن مینا کو ریلیف دیتے ہوئے ایڈریس تبدیل نہ کرنے اور ملک سے باہر نہ جانے کی شرط پر ضمانت دے دی تھی۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق سیما نے اپنا مذہب بھی تبدیل کرلیا ہے۔ اب وہ ہندو کے طور پر زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یو ٹیوب پر ایک ویڈیو بھی چل رہی ہیں جس میں سیما بتوں کے سامنے عبادت کرتی نظر آ رہی ہیں۔ سیما نے اپنا نام سیما غلام حیدر سے سیما سچن رکھ لیا ہے۔ جبکہ بچوں کے نام راج، پریانیکا ، پری اور منی رکھ دیے ہیں۔
ادھر غلام حیدرکا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کو طلاق نہیں دی اور وہ اب بھی ان کے نکاح میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کو میڈیا کے ذریعے پتا چلا ہے کہ ان کی بیوی واپس پاکستان نہیں آنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پب جی کے ذریعے اس کی اہلیہ کو ورغلایا گیا، اس نے پاکستانی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کی بیوی کو بچوں سمیت پاکستان واپس لائیں۔‘
غلام حیدر کا کہنا ہے کہ اس نے سیما کو کوئی طلاق نہیں دی۔ سیما جھوٹ بول رہی ہے کہ شوہر نے 2019 میں اسے طلاق دی تھی۔ شوہر کا کہنا ہے کہ انھوں نے 2023 میں بیوی اور بچوں کے شناختی کارڈز بنوائے تھے اور عیدالاضحیٰ کے بعد انھیں سعودی عرب بلانے کا پروگرام تھا۔
سیما کی بہن کا بھی کہنا ہے کہ سیما اور بچوں کو واپس پاکستان لایا جائے۔ بھارتی میڈیا اور حکومت پاکستان اس سلسلہ میں مدد کرے۔