فاطمہ جناح

مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عرشیہ شاہد

محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد محترم معروف اور معزز تاجر تھے۔ آپ قائد اعظم کی چھوٹی بہن تھیں۔ 8 برس کی عمر میں شفقت پدری سے محروم ہوگئیں۔ اس کے بعد آپ قائد اعظم کے ساتھ رہنے لگیں۔ آپ بہادر اور سچی خاتون تھیں ۔

آپ نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور پھر کلکتہ سے دانتوں کی جراحی کا ڈپلومہ کیا جبکہ بمبئی میں دانتوں کا علاج کرنے لگیں۔ أپ نے پاکستان بنانے کی تمام جہدوجہد میں قائد اعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔ ہر مشکل گھڑی میں آپ قائد اعظم کے شانہ بشانہ رہیں۔

آپ کا خواب اپنے بھائی کے پاکستان کو پروان چڑھانا تھا۔ جبکہ قائد اعظم ان کا حو صلہ بڑھاتےرہتےتھے ۔آپ نے اگست 1942ء کو کوئٹہ میں خواتین کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

“ہم مسلمان بہت چین کی نیند سو چکے ہیں جس کا نتیجہ ہوا کہ دوسری قوموں نے ہمیں کمزور سمجھ کر دبانا شروع کردیا۔ اگر ہم کچھ دن اور نہ جاگتے تو ہمارا نام ونشان مٹ چکا ہوتا۔ہمیں سمجھ لیناچاہیے کہ ہماری بقاء ہماری قوت پرمنحصرہے۔ اسی خیال سے مسلم لیگ نے اپنے منعقدہ اجلاس میں 23مارچ1940ء میں قرار داد لاہور منظور کرکے الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کا قیام ہی ہندوستان کی سیاسی مشکلات کاحل ہے۔

مادر ملت کا کہنا تھا کہ “خواتین نظم وضبط پیدا کریں کیونکہ خواتین کے تعاون کے بغیر پاکستان کا قیام ممکن نہیں”۔

فاطمہ جناح پاکستان کی بانی نہیں تو قائد اعظم کی دست راست اور جانثار بہن ہونے کے ساتھ ساتھ جدوجہد آزادی کے ہر اول دستے میں خواتین کی راہنما بہرحال تھیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا تھا اور 1964 میں پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان سے ملک واپس دلانے کے لیے قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح میدان عمل میں نکلی تھیں، مادر ملت کی للکار کا کیا عالم تھا، ذرا حبیب جالب سے سنیے۔ پورا پاکستان مادر ملت کے ساتھ تھا۔ لاکھوں کے جلسے تھے اور مادر ملت تھیں۔

ایک آواز سے ایوان لرز اٹھے ہیں

لوگ جاگے ہیں تو سلطان لرز اٹھے ہیں

بلند کردار کی حامل جفا کش بہن گھر کی چار دیواری میں عظیم بھائی کی محافظ و نگہبان ثابت ہوئیں۔ اس کےعلاوہ ذہنی سکون اور میدان عمل میں مسلم خواتین کے لیے نشان عزم واستقلال بنیں۔ ان کےان باکمال اوصاف کی وجہ سے لوگ ان سے محبت بھی کرتے تھے اور اسی وجہ سے قوم نے انہیں”مادر ملت “کا لقب دیا۔ یعنی “قوم کی ماں”۔

9جولائی 1967ء کو حق و صداقت کی یہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ رات کو  اچھی بھلی سوئی تھیں لیکن اگلی صبح بیدار نہ ہوئیں ۔

اپنی قوم کےلیے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ نئی نسل کو مادر ملت کی شاندار ملی خدمات سے روشناس کرائیں تاکہ ان کے اندر احساس اپنایت کو زندہ کیا جا سکے۔

کہا جاتاہے کہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا جس کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ انتقال سے ایک دن قبل محترمہ فاطمہ جناح حیدرآباد (دکن) کے سابق وزیراعظم میر لائق علی کی صاحبزادی کی شادی میں شریک ہوئیں۔ قائداعظم کے سابق پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید نے محترمہ کے انتقال کے بعد بتایا کہ میر لائق علی کی صاحبزادی کی شادی میں ان کی ملاقات محترمہ فاطمہ جناح سے ہوئی۔ محترمہ نے انہیں بتایا کہ ان کا دل ڈوب رہا ہے اور وہ جلد اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہیں۔

مادر ملت کا معمول تھا کہ وہ سونے سے قبل قصر فاطمہ (موہٹہ پیلس) کے تمام دروازے مقفل کر کے بالائی منزل میں اپنے کمرے میں سو جاتی تھیں اور صبح بیدار ہونے کے بعد چابیوں کا گچھا بالکونی سے نیچے پھینک دیا کرتی تھیں تاکہ ملازم 7 بجے انہیں اخبارات پہنچا دے۔ اخبارات دیکھنے کے بعد جب وہ نہا دھو کر تیار ہوتیں تو ملازم 10 بجے انہیں ناشتہ دے دیا کرتا تھا۔ ناشتے کے بعد محترمہ نچلی منزل میں اپنے دفتر میں آ جاتیں۔

9 جولائی کی صبح خلاف معمول محترمہ نے چابیاں نہیں پھینکیں۔ ملازم سمجھا کہ اتوار ہے، اس لیے ممکن ہے کہ محترمہ دیر تک آرام کریں۔ 10 بجے تک بھی محترمہ بیدار نہیں ہوئیں، دروازہ کھٹکھٹانے کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا تو ملازم ان کی ہمسائی بیگم غلام حسین ہدایت اللہ کے پاس گیا اور انہیں صورت حال بتائی۔

وہ فوراً قصر فاطمہ پہنچیں، جب دروازہ کسی طرح نہ کھلا تو ایک روایت کے مطابق اسے توڑ کر اور دوسری روایت کے مطابق کسی اور چابی کی مدد سے اسے کھول کر اندر پہنچا گیا، جہاں بستر پر محترمہ فاطمہ جناح کی لاش پڑی تھی۔ بیگم ہدایت اللہ اپنے گھر واپس گئیں جہاں سے انہوں نے فون کر کے ڈاکٹر کرنل جعفر اور کرنل شاہ کو بلایا۔

دونوں ڈاکٹروں نے محترمہ کی موت کی تصدیق کی اور کہا کہ موت قدرتی طور پر واقع ہوئی ہے۔ کے ایچ خورشید بھی یہی کہتے ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح کی موت قدرتی تھی اور بڑھاپے کی بنا پر ان کی گردن پر جھریوں کے نشان تھے، یہ غلط ہے کہ ان کی گردن پر گلا گھونٹے جانے کا کوئی نشان تھا۔

حکومت نے اگلے دن عام تعطیل کا اعلان کیا اور فیصلہ کیا کہ محترمہ کو میوہ شاہ قبرستان میں دفن کیا جائے، مگر محترمہ کے لواحقین اور عوام نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ حکومت نے اعلان کیا کہ انہیں قائداعظم کے مزار کے احاطے میں شہید ملت لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کی قبور کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔

محترمہ کی لاش کو غسل دینے کے لیے حاجی ہدایت علی عرف حاجی کلو کو طلب کیا گیا، یہ وہی غسال تھے جنہوں نے قائداعظم کی میت کو غسل دیا تھا۔ حاجی کلو کی ہدایت پر 3 غسالہ خواتین فاطمہ سید، فاطمہ قاسم اور فاطمہ بائی بچو نے محترمہ فاطمہ جناح کی میت کو غسل دیا اور تجہیز و تکفین کی۔

صدر مملکت ایوب خان نے اپنی ڈائری میں 9 جولائی کی تاریخ کے اندراجات میں تحریر کیا:

’دوپہر کے وقت اطلاع ملی کہ حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے مس فاطمہ جناح کا انتقال ہو گیا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ عوام کا اصرار ہے کہ انہیں مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا جائے۔ میں نے ہدایت جاری کی ہے کہ مزار کے انجینیئروں سے مشورہ کیا جائے۔ اگر مزار کی خوب صورتی اور توازن متاثر نہ ہو رہا ہو تو اس خواہش پر عمل درآمد کیا جائے۔

ما در ملت کے ارشادات آج بھی عوام کے لیے اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اجالا ہیں۔ ہم مادر ملت کے افکار کی روشنی میں آج بھی یکجا ہوسکتے ہیں۔ اپنے ذہن و دل کو شفاف آئینہ بنا سکتے ہیں ۔مادر ملت کے انتقال پر حبیب جالب نے فی البدیہہ 3 اشعار کہے تھے:

اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے

سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے

دیکھنے کو تو ہزاروں ہیں، مگر کتنے ہیں؟

ظلم کے آگے کبھی سر نہ جھکانے والے

مر کے بھی رہتے ہیں کب مادر ملت کی طرح

شمع تاریک فضاؤں میں جلانے والے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا؟” جوابات

  1. حمادیہ صفدر Avatar
    حمادیہ صفدر

    یہ بہت عمدہ تحریرہے،اس کوپڑھ کرجاناکہ محترمہ کی موت کیسےواقع ہوئی تھی،یہ پاکستان کےبانی اوران کی ہمشیرہ پرمفصل دردمنداورمؤثرتحریرہے۔۔ماشآءاللہ