حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام

سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور خونی رشتوں کی کہانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قانتہ رابعہ

اور حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں، پس جس پر حج فرض ہو اسے اس عرصہ میں ہر طرح کی شہوت،بحث مباحثے، اور نافرمانی سے بچنا چاہیے( البقرہ)

حج کو اسلام میں فرض عبادت کا درجہ حاصل ہے جو ہر صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک مرتبہ لازم ہے۔
حج کو جامع عبادت قرار دیا گیا ہے جس میں نماز کی روح، روزوں کی بھوک پیاس، جہاد کی مشقت، ہجرت کی سی کیفیت اور زکوٰۃ کی مانند ڈھیر رقم خرچ کرنا شامل ہے۔

حج دراصل ابراہیم اور خاندان ابراہیم کی یادگار ہے۔
حج کا ہر رکن ایک معجزہ ہے۔

حج خاندان ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانیوں کی تا قیامت یاد رکھے جانے والی داستان ہے۔

سال سوا سال کے بچے کی ایڑی رگڑنے کی جگہ ہو یا سیدہ ہاجرہ کے پانی کی تلاش میں کچھ جگہوں پر رک کر پیچھے مڑ کر دیکھنے اور کچھ جگہوں پر پانی کی تلاش میں بھاگنے کی، خانہ خدا کی تعمیر میں اٹھنے والے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدم مبارک، مقام ابراہیم کی صورت میں یا بیٹے کی قربانی کے لیے منی میں قیام، شیطان کے 3 مرتبہ ورغلانے کی جگہ اور وقت،کبھی زوال سے پہلے کبھی بعد۔۔۔ اللہ اکبر!

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس ہستی کو اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کے لیے اسوہ بنایا، اس کے امتحان کس نوعیت کے تھے!
مال دھن دولت تو معمولی سی آزمائش میں حددرجہ دولت کا پجاری بھی دے سکتا ہے اگر ابراہیم سے مانگ لی تو کیا ہوا۔
اصل میں ابراہیم علیہ السلام کے امتحان میں انسان کی مختلف نوعیت کے رشتوں کی محبت آزمائی گئی۔

سب سے پہلے بچپن اور جوانی میں اپنے بہن بھائی والدین ہی مرکز و محور ہوتے ہیں، اپنی جگہ، اپنی زبان، جائے ملازمت
پہلی مرتبہ چھری اسی محبت پر پھروائی گئی، علاقہ ہی نہیں چھڑوایا حسب نسب اور عہدے دار باپ سے کوسوں دور بھجوادیا گیا۔

کوئی دعائے خیر والے کلمات یا الوداع کرنے والے ہاتھ نہ تھے۔ بس! حکم ہوا چھوڑ دو تو چھوڑ دیا!

انسانی زندگی میں دوسرا قریبی رشتہ زوج کا ہوتا ہے۔
بالخصوص جو واقعی دکھ سکھ کی ساتھی ہوں، بہترین مثبت سوچ والی ہوں، جن سے افہام و تفہیم میں کوئی مشکل نہ ہو اور پھر بچہ بھی گود میں۔
بیوی بچے سے غیر معینہ مدت کے لیے الگ کردیا۔

آپ سب جانتے ہیں شوہر کہیں جائیں تو رابطے کے ہر ممکن طریقے کے باوجود دھیان پیچھے کی طرف ہی رہتا ہے۔ ایسے میں روزمرہ، ماہانہ ہر طرح کے سودا سلف سے لے کر مسائل حل کرنے کی تمام تر کوششیں کی جاتی ہیں کہ بیوی تنگی کا شکار نہ ہو۔

جاتے ہوئے دلاسے کے الفاظ پیچھے والوں کی دل جوئی کے لیے نہیں شوہر اپنی ہمت بندھانے کے لیے ادا کرتا ہے۔
خطوط کے تبادلے سے فون کال اور پیغام رسانی کے تمام ذرائع دونوں جانب سےاستعمال کر لیے جاتے ہیں لیکن یہاں کچھ بھی واضح نہیں،
شیر خوار بچے کے ساتھ نیک دل بیوی کا اس ویران جگہ پر قیام کتنے عرصے تک ہوگا؟
باپ کی غیر موجودگی میں
بچہ بیمار بھی ہو سکتا ہے،کھانے کے لیے دی گئی کھجوریں پانی کا راشن ختم بھی ہو سکتا ہے !
پھر کیا ہوگا ! وہ اللہ کے ذمہ دے کر جبرئیل امین کے ہمراہ روانہ ہوجاتے ہیں۔

اب بھی قدم نہیں ڈگمگائے،تو تیسری محبت لازوال محبت باپ کی اپنی جوان فرمانبردار اولاد سے ہوتی ہے، اب اس محبت کے گلے پر چھری پھروانا ہے۔

اللہ اللہ بڑا مشکل مرحلہ ،حالانکہ ملائکہ نوری مخلوق ہیں، کھانے پینے نکالنے، نفس یا نفسانی خواہشات کے علاوہ رشتوں کی نزاکت اور محبت سے قطعاً انجان ہیں، پھر بھی بیٹے کو اوندھے منہ لیٹے دیکھ کر، باپ کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر انگشت بدنداں ہیں۔

صحیح معنوں میں عرش والوں نے یہ چکرا دینے والا منظر پہلے نہیں دیکھا ہوگا۔
تابعدار فرمانبردار آنکھوں کی ٹھنڈک، بڑھاپے میں ملا جگر گوشہ، ابھی بس چند لمحوں میں کٹی گردن اور گوشت میں تبدیل ہونے والا ہے
کس کس کے دل میں بارگاہ الٰہی میں سوال کرنے کی تحریک پیدا نہیں ہوئی ہوگی
وہ جنہوں نے کہا تھا
،،من یفسد فیھا الارض ،،
یہ تو زمین میں فساد کرے گا
وہ جس نے راندہ درگاہ ہونے سے پہلے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا
‘،’تیری قسم انہیں بھٹکا کر دکھاؤں گا دائیں سے بائیں سے ،سوار سے پیادے سے ،آواز سے، مال سے، اولاد سے، ساجھا لگا کر دکھاؤں گا ‘
اللہ اکبر ،ابراہیم علیہ السلام کا خون تو بیٹے کو قربان کرنے میں اتنا خشک نہیں ہوا ہوگا جتنا اس ابلیس مردود کا!!

سوچیں اس لمحے میں اس پر کیا بیت رہی ہوگی
بھلا تخلیق کائنات کے آغاز سے ایسا دل ہلا دینے والا واقعہ پہلے کبھی ہوا؟
،قطعی نہیں، اس پر جو بیتی وہ تو اللہ رب العزت جانتے ہیں لیکن رشتوں کی محبتوں کا یہ آخری امتحان تھا جو سیدنا ابراہیم علیہ وسلم نے پورے وقار اور امتیاز کے ساتھ پاس کیا !!
بس یہ امتحان تا قیامت جاری رہے گا اولاد کی فرمائش ،ان کے فیصلوں میں اس قربانی کی لاج رکھنا ہی سنت ابراہیمی ہے۔ ہم تو ایک خوشی کی تقریب میں اولاد کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے آپ کو نا اہل ثابت کر دیتے ہیں، دوسرے مراحل میں تو بات ہی مت پوچھیں۔
عشرہ ذی الحجہ صرف اس کی یاد دہانی کے لیے آتا ہے لیکن ان محبتوں کی لاج رکھنا سارا سال لازم ہے۔
وابراہیم الذی وفا
اور ابراہیم نے وفا کا حق ادا کر دیا


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور خونی رشتوں کی کہانی” جوابات

  1. Ayesha Riffat Avatar
    Ayesha Riffat

    ابراہیم نے واقعتاً وفا کا حق ادا کر دیا۔۔۔

  2. راشدہ قمر Avatar
    راشدہ قمر

    بہت خوب باجی
    برمحل اور خوبصورت یاددہانی

    1. Shazia ch Avatar
      Shazia ch

      Ma sha Allah A deep observation on sunnat e ibrahim

  3. شازیہ محمود Avatar
    شازیہ محمود

    باجی بہت پیارا پیغام دیا ہے ،پڑھ کر یوں لگا حج اور قربانی پہ درس کا مواد مل گیا ہے ۔جو کہ اکثر ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ہمیشہ کی طرح بہت ہلکے انداز میں بہت بڑی اور گہری باتیں ھو عظیم قربانی کے متعلق ہیں یاد دیہانی کرو ادی ۔جزاک اللہ خیر